ونسٹن چرچل سے کون شخص واقف نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ وہ بیسویں صدی میں جنگ کے دوران ملک کی قیادت سنبھالنے والے دنیا کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ ان کا کارنامہ صرف یہی نہیں تھا کہ ہٹلر جیسے طاقت کے دیو کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا بلکہ وہ بہت بڑے ادیب اور قلم کار بھی تھے۔ انہیں ادب میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
…لیڈر ایسا شخص ہوتا ہے جو خطرات سے کھیلنا پسند کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آگے بڑھے اور خود کام کرکے دکھائے۔ وہ سستی، کاہلی اور تن آسانی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا
لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے والا یہ عظیم لیڈر جنگ ختم ہوتے ہی اپنے ملک میں انتخابات ہار گیا۔ لوگوں نے چرچل کو ووٹ دینے کے بجائے ان کے حریف کلیمنٹ ایٹلی کو وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھایا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ چرچل کا اچھا منیجر نہ ہونا تھی۔ وہ بہت اچھے لیڈر تو تھے مگر اچھے منیجر ہرگز نہ تھے۔ جبکہ ان کا حریف کلیمنٹ اگرچہ ایک بُرا لیڈر تھا مگر ایک بہت اچھا منیجر تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو ایک اچھے منیجر کی ضرورت تھی۔ منیجر یا لیڈر؟
کسی بھی کمپنی کو صرف ایک منیجر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کامیاب کمپنیاں اس تلاش میں ہوتی ہیں کہ ایسا منیجر ڈھونڈیں جس میں قائدانہ خصوصیات بھی ہوں۔ مضمون کے درمیان دیے گئے چارٹ سے آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایک منیجر میں وہ خصوصیات بھی پائی جاسکتی ہیں جو کسی لیڈر کے لیے ضروری ہیں۔ ایک مشہور محاورہ ہے: ’’منیجر آپ کی موجودہ کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، جبکہ لیڈر آپ کو نئی بلندیوں پر لے جاتا ہے۔‘‘ ماہرین نے منیجر اور لیڈر کے درمیان مختلف فرق بیان کیے ہیں۔ اگر ہم ان تمام باتوں کو مدنظر رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بنیادی فرق کارکنوں اور ملازموں کو ترغیب دینے اور کام پر آمادہ کرنے کا ہے۔ منیجرز اپنے ماتحتوں کو اہداف دیتے ہیں اور انعام کا لالچ دے کر اہداف حاصل کرلیتے ہیں۔ جبکہ لیڈرز خود کو عملی نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور ملازمین ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ لیڈر کسی بھی ماتحت پر حکم نہیں چلاتا، زور زبردستی نہیں کرتا، جبکہ منیجر دھونس دھاندلی اور ڈانٹ ڈپٹ سے کام نکالتا ہے۔ لیڈر میں کرشماتی خصوصیات ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کردار و عمل سے دوسروں کو کام پر آمادہ کرلیتا ہے۔
آپ نے اکثر دفتروں میں سنا ہوگا کہ ’’ہمیں تو کام چاہیے کام‘‘۔ یہ روایتی منیجر کی سب سے نمایاں خصوصیت ہوتی ہے کہ اسے ملازمین سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ سوچتا ہے کہ میں لوگوں کو تنخواہ دے رہا ہوں، مجھے کام چاہیے۔ جبکہ لیڈر اپنے ملازمین کے دل جیتنا جانتا ہے۔ وہ افراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہر کارکن کو اپنی طرح کا انسان سمجھتا ہے جسے ضرورتوں، مسئلوں اور مشکلوں نے گھیرا ہوا ہے۔ ایک دلچسپ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ منیجرز راحت پسند ہوتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو کم سے کم کام کرنا پڑے۔ وہ خطرات مول لینے سے گھبراتے ہیں۔ دوسری طرف لیڈر ایسا شخص ہوتا ہے جو خطرات سے کھیلنا پسند کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آگے بڑھے اور خود کام کرکے دکھائے۔ وہ سستی، کاہلی اور تن آسانی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔
اس تحریر کی روشنی میں فیصلہ کیجیے! کیا آپ کی کمپنی کو صرف منیجر کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کسی لیڈر کی ضرورت نہیں ہے؟