شریعت کے مطابق کاروبار آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے

مولانا مفتی محمد حسان کلیم شہر علم کراچی کا ایک جانا پہچانا نام۔ سبک رفتار و شیریں گفتار۔ مرنجان مرنج طبیعت کے ہمراہ فن پر بھی کامل دستگاہ۔ ان سے ہم کلام ہونا قارئین کی ضرورت ہی نہیں، دل کی ایک کسک بھی تھی۔ زیارت و ملاقات ہوئی تو اپنے تخیلات سے بڑھ کر پایا۔ مفتی محمد حسان کلیم کا شمار پاکستان میں اسلامی بینکنگ پر کام کرنے والے ابتدائی مفتیان کرام میں سے ہوتا ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی اور سنٹر آف اسلامک اکنامکس کراچی کے مستقل فیکلٹی ممبر ہیں۔


٭…ہمارے سامنے یہ بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ کس طرح اتنے وقت میں کوئی قابل عمل حل پیش کیا جائے کہ کاروبار بھی ہاتھ سے نہ جائے اور شرعی حدود کی رعایت بھی ہو۔ آئے دن ایسی نت نئی صورتیں سامنے آتی ہیں جن پر پہلے کبھی سوچا نہیں گیا ہوتا

اس کے ساتھ تکافل امارات انشورنس PSC میں شریعہ وائزری بورڈ کے ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ 10 فروری 2012 ء سے امانہ بینک لمیٹڈ میں بھی کام کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے البرکہ اسلامی بینک، حبیب بینک لمیٹڈ پاکستان اور UBL امین کے شریعہ ایڈوائزر رہے ہیں۔

متعدد انسٹی ٹیوشنز کے ایڈوائزر کی حیثیت سے کام، آپ کی مصروفیات کا حصہ ہے۔ان میں شریعہ بورڈ آف سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)، شریعہ بورڈ آف پاک کویت تکافل کمپنی لمیٹڈ، شریعہ بورڈ آف پاک قطر فیملی تکافل، شریعہ کنسلٹنٹ فار Deloitte شامل ہیں۔ شریعہ بورڈ آف سراج UBL فنڈز، شریعہ بورڈ آف Hanover Re Taful بحرین، شریعہ بورڈ آف تکافل امارات UAE امانہ بینک سری لنکا کے ممبر ہیں۔

AAOIFIبحرین کے ادارے اکاؤنٹنگ اینڈ آڈیٹنگ آرگنائزیشن میں ٹریننگ بھی کرواتے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے وزٹنگ فیکلٹی ممبر بھی ہیں۔ جامعہ دارالعلوم کراچی سے مفتی کا کورس کر رکھا ہے۔ 14 سال سے دارالعلوم کراچی میں مختلف اسلامی بینکنگ کے کورس کروا چکے ہیں اور دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی کے رکن بھی ہیں۔

اسلامی بینکاری کے ساتھ بہت گہرے علمی و عملی پس منظر کی وجہ سے ہفت روز شریعہ اینڈ بزنس نے آپ سے مفصل گفتگو کی۔ جو کئی اقساط تک جاری رہے گی۔ اس کا پہلا حصہ پیش خدمت ہے۔ آئیے! اسلامی بینکاری سے متعلق سیر حاصل معلومات کے لیے مفتی محمد حسان کلیم سے تفصیلی گفتگو کرتے ہیں:

شریعہ اینڈ بزنس
آپ کو پاکستان میں اسلامی بینکاری کے علمی اور عملی دونوں پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع ملا، اسلامی بینکاری سے متعلق معلومات کیسے حاصل ہوئیں؟ .

مفتی حسان کلیم
آغاز اس طرح ہوا کہ استاد محترم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے غالباً سن 2000 ء میں البرکہ اسلامی بینک کے لیے AMI کے نام سے ایک شریعہ کمپلائنٹ پروڈکٹ تجویز کی تھی اور اس کا باقاعدہ فتوی جاری ہوا تھا، حضرت والا نے مجھے شرعی اعتبار سے اس کی نگرانی کے لیے بھیجا۔ جو کچھ ہم نے تخصص فی الافتاء میں پڑھا تھا، اسی کی مدد سے اپنے فرائض انجام دینے لگا۔ کچھ عرصے بعد بینک کی انتظامیہ نے یہ طے کیا کہ بینک کے تمام معاملات شریعہ کی نگرانی میں کیے جائیں، اس غرض کے لیے شریعہ بورڈ نے مجھے بینک کا شریعہ ایڈوائزر مقرر کیا، اس طرح سے میں اس وادی میں پہنچ گیا۔ بینک میں کام کرنے کے دوران میں نے اس چیز کی پابندی کی کہ میرے سامنے جو بھی مسئلہ آتا، میں اسے بہت تفصیل سے اور اس کے جملہ پہلوؤں کے ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا، مثلاً: ایل سی سامنے آئی تو اس کی اقسام، ڈاکومنٹس اور Clauses وغیرہ، سب کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ خود پڑھتا اور جاننے والے احباب سے رابطہ کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرتا۔ اس کی حقیقت جان لینے کے بعد یہ دیکھتا اور غور کرتا کہ اس کا شرعی حکم کیا ہو گا؟ اس طرح بینکاری سے متعلق کافی معلومات حاصل ہو گئیں۔ اس کے علاوہ مجھے اس موضوع کو پڑھانے سے بھی ذاتی طور پر بہت فائدہ ہوا۔ پڑھانے سے پہلے اچھی طرح تیاری کرنی پڑتی ہے، موضوع کو ٹھیک سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

یہ بھی عرض کروں کہ بینکاری اور جدید معاشی صورتوں کو سمجھنے میں مدرسے کے طریقۂ تعلیم نے بھی بہت مدد دی۔ ہمیں مدرسے کے نصاب سے یہ معلوم ہوا کہ کسی بھی موضوع کا تجزیہ و تحلیل کیسے کیا جاتا ہے؟ مدرسے کے طریقۂ تعلیم کی میرے دل میں بے حد قدر ہے۔ اسی کے سبب میرے سارے کام آسان ہوئے۔ الحمدللہ!

شریعہ اینڈ بزنس
آپ نے ذکر کیا کہ اسلامی بینکاری سے آپ کا ابتدائی واسطہ البرکہ کے ذریعے قائم ہوا۔ اس کے بعد آپ نے کن کن مالیاتی اداروں میں خدمات سرانجام دیں؟

مفتی حسان کلیم
جب میں اسلامی بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہوا، اس وقت ایسے افرادکی کمی تھی جن کو اس موضوع کے عملی پہلوؤں کو جاننے یا کاروباری معاملات کا فقہی جائزہ لینے کا موقع ملا ہو۔ افرادکی کمی کے باعث مجھ جیسے طالب علم کو بھی کام کرنے کا موقع مل گیا، یوں الحمدللہ سیکھنے کا موقع میسر آیا۔ البرکہ اسلامی بینک میں بحیثیت شریعہ ایڈوائزر کام کرنے کے دوران ’’حبیب بینک‘‘ نے جب اپنے ہاں اسلامی بینکنگ کا آغاز کیا تو ایک سال تک البرکہ کے ساتھ ساتھ حبیب بینک کے لیے بھی کام کیا۔ 2005 ء میں تکافل کے نام سے انشورنس کا اسلامی متبادل متعارف ہوا، الحمدللہ شروع ہی سے تکافل سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ جب پاکستان میں صکوک کا استعمال شروع ہوا تو کئی صکوک ایشوز کا ایڈوائزر رہا، نیز اسلامک میوچل فنڈز میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اسلامی بینکاری اور تکافل ہی میں پاکستان سے باہر بھی بعض اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

شریعہ اینڈبزنس
کسی کاروباری ضرورت (commercial need) کو ایک اسلامی بینک کیسے پورا کرتا ہے اور کیا طریقہ کار اختیار کرتا ہے؟ اس پر کچھ روشنی ڈالیے۔

مفتی حسان کلیم
عام بینک انٹرسٹ (سود) پر قرض دے کر کسی کاروباری ضرورت کو پورا کرتے ہیں، نقد رقم قرض پر فراہم کرنے سے تمام ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ اسلامی بینک انٹرسٹ پر قرض دے نہیں سکتا اور بغیر انٹرسٹ قرض دینے سے اس کے مالکان کو نفع نہیں ملتا، انہوں نے بینک جائز نفع کمانے کے لیے کھولا ہے تو جب کوئی کاروباری ضرورت سامنے آتی ہے تو غور کیا جاتا ہے کہ کس ’’شرعی عقد‘‘ کے تحت اس کو پورا کیا جا سکتا ہے؟ کبھی خرید و فروخت کے ذریعے، کبھی کرایہ داری کے معاملہ کے ذریعے اور کبھی پارٹنرشپ کی مختلف صورتوں یا ایجنسی ایگریمنٹ کے ذریعے اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ چونکہ اسلامی بینک میں ہر کاروباری ضرورت کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے پورا کرنا لازمی ہے، اس لیے ہمارے سامنے یہ بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ کس طرح اتنے وقت میں کوئی قابل عمل حل پیش کیا جائے کہ کاروبار بھی ہاتھ سے نہ جائے اور شرعی حدود کی رعایت بھی ہو۔ آئے دن ایسی نت نئی صورتیں سامنے آتی ہیں جن پر پہلے کبھی سوچا نہیں گیا ہوتا۔ ان صورتوں کے شرعی حل پر غور و فکر سے ہم طالب علموں کی علمی نشوونما کے ساتھ ساتھ فقہ اسلامی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ فقہ میں اتنی وسعت کیسے ہوئی؟ جب کبھی کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوا تو اس کا حل پیش کیا گیا یعنی صورت جدیدہ سے مسئلہ جدیدہ وجود میں آتا ہے، اس طرح فقہ کی ترقی ہوتی ہے۔ معاملات کے باب میں الحمد للہ! اب کام ہو رہا ہے ورنہ کچھ عرصہ قبل عبادات، نکاح و طلاق وغیرہ میں تو کام ہو رہا تھا لیکن معاملات میں کام نہیں ہو رہا تھا۔ ہمیں تو روز ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مثلاً: ایک آدمی کہہ رہا ہے کہ مجھے تین سال کے لیے پیسے چاہییں اور جو نفع مجھے دینا ہے، میں نہیں چاہتا کہ وہ ابھی سے 3 سال کے لیے متعین ہو جائے۔ اس لیے کہ اگر کہیں بازار میں نفع گر جائے تو مجھے نقصان ہو گا، لہذا نفع ایسا رکھا جائے جس میں چھ ماہ بعد تبدیلی کا امکان موجود ہو۔ وہ شخص دوسرا مطالبہ یہ کرتا ہے کہ میں اس پیسے سے ایک عمارت بناؤں گا جس میں دو سال لگیں گے لیکن اس عمارت سے جو کام لینا ہے وہ میں آج سے شروع کروں گا، جس کے لیے کچھ چیزیں کرائے پر لوں گا۔ اب آپ مجھے اس کا کوئی شرعی حل پیش کریں۔ ظاہر بات ہے کہ ضرورت اگر جائز ہے اور اکثر کمرشل نیڈز جائز ہی ہوتی ہیں تو ان کے حل کے لیے سوچنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ چنانچہ شرعی عقد کے ذریعے جائز حل تلاش کرنے سے بڑی تربیت ہوتی اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن کا حل ہم فوری طور پر نہیں دے سکتے تو ان کی باقاعدہ تحقیق نیز دارالافتاء سے مشورہ کے بعد حل کیا جاتا ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
ہر بینک کی برانچز پورے ملک میں پھیلی ہوتی ہیں۔ اگر ہیڈ آفس سے باہر کسی دوسرے شہر یا ملک کے دور دراز علاقوں میں موجود کسٹمرز کو فائنانسنگ مہیا کی جا رہی ہو تو ان معاہدوں کی شرعی نگرانی کیسے ممکن ہوتی ہے؟

مفتی حسان کلیم
تمام معاملات کے فیصلے ہیڈ آفس سے ہی ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص بینک یا کمپنی سے فائنانسنگ لینا چاہتا ہے تو ابتدائی تعارف کے بعد بینک اس کے کاروبار اور سابقہ لین دین کے ریکارڈ کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ’’کریڈٹ پروپوزل‘‘ تیار کرتا ہے۔ یہ کریڈٹ پروپوزل رسک ڈپارٹمنٹ اور شریعہ ڈپارٹمنٹ کو منظوری کے لیے دیا جاتا ہے۔ رسک ڈپارٹمنٹ، بینک اور اسٹیٹ بینک کی پالیسیز کے مطابق متعلقہ خطرات کا جائزہ لیتا ہے، شریعہ ڈیپارٹمنٹ شرعی اعتبار سے جائزہ لیتا ہے کہ اس کسٹمر کے ساتھ کون سا معاہدہ کن تفصیلات کے ساتھ کیا جائے گا؟ یہ ساری تفصیلات تحریر میں لائی جاتی ہیں اور اس کی اطلاع کسٹمر کو بھی دی جاتی ہے۔ دونوں ڈپارٹمنٹس کی منظوری کے بعد بینک کسٹمر کو ایک آفر لیٹر دیتا ہے جس میں آئندہ کے معاملات سے متعلق کمرشل ٹرمز (تجارتی شرائط) کا ذکر ہوتا ہے، کسٹمر کی جانب سے رضامندی کے بعد فائنانسنگ لائن دے دی جاتی ہے اور جب جب کسٹمر کو ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے طے شدہ شرائط و تفصیلات کے مطابق معاہدہ میں داخل ہوتا جاتا ہے۔

چونکہ اس طریقہ کار میں بینک اور کسٹمر کے درمیان ہونے والے معاہدات کی تمام تر تفصیلات طے ہو چکی ہوتی ہیں، صرف معاہدے کی کاغذی کارروائی درست طریقے سے مکمل کی جانی ہوتی ہے، اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ بینک کی طرف سے کاغذی کارروائی کرنے والا افسر معلومات کی کمی کی وجہ سے معاہدہ کو غلط قرار دے، نیز افراد کی مستقل تربیت اور آڈٹ کے ذریعے نگرانی سے معمولی امکان کے سدباب کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

ان مراحل سے گزرنے کے بعد آخر میں جب بینک سے پیسہ جانا ہوتا ہے تو ڈسبرسمنٹ ڈیسک ان تمام چیزوں کو دوبارہ دیکھتا ہے کہ سب ٹھیک ہے یا کوئی کمی ہو رہی ہے؟ اگر کسی قسم کی کمی ہوتی ہے تو وہ ہم سے مشورہ کرتے ہیں، پھر ہم دیکھتے ہیں۔ اس طرح سے مختلف چیک لگا رکھے ہیں۔ عوام میں جو بات مشہور ہے، مثلاً: میاں چنوں کی برانچ میں کوئی تاجر جاتا ہے، وہ کہتا ہے میری فلاں ضرورت ہے اس کے لیے پیسے چاہییں۔ اب بینک میں موجود لوگ شریعت کے اتنے ماہر نہیں ہوتے تو کیسے عقود شرعی طور پر درست ہوتے ہوں گے؟ تو ایسا بالکل نہیں ہے۔

یہ ساری تفصیلات جو میں نے بیان کیں، کارپوریٹ اور ایس ایم ای کسٹمرز سے متعلق ہیں، کنزیومر (نجی ضروریات کے لیے) فائنانسنگ کے معاہدے چونکہ بہت بڑی تعداد میں اور ہر برانچ سے ہو رہے ہوتے ہیں، لہذا وہاں ایک ایک معاہدے کی پیشگی چیکنگ ممکن نہیں ہوتی بلکہ پروڈکٹ ہی ایسی بنائی جاتی ہے جو انتہائی معیاری قسم کی ہو کہ تمام شرائط یکساں طور پر پائی جاتی ہیں، کاغذات یکساں ہوتے ہیں۔ اس لیے متعلقہ شخص کے لیے تھوڑی معلومات بھی کافی ہو جاتی ہیں۔ (جاری ہے)