کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان ایک معاشی حیوان ہے۔ آج دنیا کا ہر دوسرا معاشی ماہر یہی سمجھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اطمینان اور سکون حاصل کرلینا زندگی کا مقصد ہے۔ ان معاشی ماہرین نے انسان کے ہر مسئلے کو معیشت سے جوڑ دیا ہے۔ معاشی ماہرین انسان کے اخلاقی وجود کا یکسر انکار کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر انسان کی زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ اطمینان حاصل کرنا ہے۔ یہ اطمینان اسی وقت ملے گا جب انسان کے پاس زیادہ سے زیادہ اطمینان حاصل کرنے کے ذرائع آئیں گے۔
ان ذرائع کو صرف پیسے ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے، لہذا ہر شخص کا بنیادی مسئلہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔ کارل مارکس کے بقول جب انسان کو یہ پیسہ نہیں ملتا تو وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتا ہے۔ وہ جنگیں لڑتا ہے، وہ لوٹ کھسوٹ کرتا ہے، وہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتا ہے۔
آپ سرمایہ داریت کے بانی ایڈم اسمتھ کو دیکھیں یا اشتراکیت کے علمبردار کارل مارکس کو، دونوںکے معاشی فلسفے کا بنیادی مقصد انسان کو زیادہ سے زیادہ دولت اور اطمینان دلانا ہے۔ امریکا کا معروف سیاسی فلسفی اور ہاروڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مائیکل سینڈل اپنی کتاب what money can’t buy میں لکھتا ہے: آکسفرڈ یونیورسٹی کے استاد کرسٹوفر ہل نے ہمیں اپنا واقعہ سنایا۔ جب اس نے آکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو تعلیمی سال کے اختتام پر ایک طالب علم نے اسے پانچ یورو کی ٹپ دی۔ لیکن مسٹر ہل نے طالب علم کی اس حرکت کو برا محسوس کیا۔ ہل کے خیال میں کسی بھی استاد کو ٹپ دینا غلط ہے۔ دوسری طرف جدید سرمایہ داریت کا بانی ایڈم اسمتھ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ہرچیز کی قیمت لگا سکتے ہیں۔ ہر استادجتنے طلبہ کو کھینچ کر اپنی کلاس میں لاسکے، اسے اتنی ہی تنخواہ دینی چاہیے۔ اگر یونیورسٹی اور کالج اپنے استاد کو متعین تنخواہ دیں گے تو وہ سست اور کاہل ہوجائیں گے۔ (صفحہ: 89)
ہر معاشی مفکر دنیاکو زیادہ سے زیادہ دولت دے کر خوشی، اطمینان اور سکون دینا چاہتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دنیا اخلاق سے دور ہوتی جارہی ہے۔ برطانیہ میں ایسا عام ہے کہ کئی تعلیم یافتہ افراد تدریس چھوڑ کر صرف اس لیے خاکروب بن گئے کہ اس پیشے میں تنخواہ زیادہ ملے گی۔ (تراشے، صفحہ: 142)
مغربی دنیا میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں فی کس آمدن دنیا میں سب سے زیادہ ہے مگر حیرت انگیز طور پر انہی ممالک میں سالانہ خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اگرمال و دولت سے سکون اور اطمینان ملنا ہوتا تو یہ سرمایہ دار کبھی خود کشی نہ کرتے۔ دنیا کی معلوم تاریخ پانچ ہزار سال کی ہے۔ اتنے طویل عرصے میں کیا لوگ مطمئن نہیں ہوتے تھے؟ کیا ان تمام لوگوں کو ایڈم اسمتھ یا کارل مارکس کے مطابق صرف اور صرف دھن، دولت اور روپیہ پیسہ ہی اطمینان دیتا تھا؟
دنیا کے امیر ترین لوگ، مشہور ترین گلوکاراور دولت سے مالا مال حکمراں بے سکونی، بے اطمینانی اور بے چینی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ مال و دولت سے پیٹ تو بھرا جاسکتا ہے دل نہیں۔ دل کی دنیا میں نہ پیسہ داخل ہوسکتا ہے، نہ عہدہ و مرتبہ جا سکتا ہے، نہ ہی شہرت و ناموری۔ اللہ کے نبی کا اعلان ہے: ’’انسانوں کے دل گویا اللہ تعالی کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دے‘‘۔ (صحیح مسلم، رقم:2654) دلوں پر اللہ کا قبضہ ہے۔ یہاں سکون دولت، شراب، زنا اور عیاشی سے نہیں آئے گا۔ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ ہماری تاجر برادری کا بڑا حصہ آج بھی اللہ کو ناراض کرکے سکون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کا اعلان ہے: دلوں کو اطمینان صرف اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔ (الرعد: 28)
اگر چند روپے کسی سے کم بھی ہیں تو اس میں غم کی کیا بات ہے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت سامنے رکھیں: ’’یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں‘‘، لہذا جتنی مل جائے اتنی ہی غنیمت ہے۔ جو اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے اس پر قناعت کرلو تو اللہ تعالی تمہیں سکون عطا فرمائے گا۔ اگر قناعت نہیں کی تو دنیا کے مال و اسباب تو بڑھتے جائیں گے مگر اطمینان ہرگز میسر نہیں آئے گی۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو حقیقی اطمینان عطا فرمائے۔