ترقی کی تلاش میں ثابت قدمی ضروری ہے

سوال اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق کیا بتانا پسند کریں گے؟ جواب میری ابتدائی زندگی مشکلات اور مصائب کا دوسرا نام ہے۔ میں ایک صحرائی باشندہ ہوں، میرا خاندان تعلیم اور تمدن کی دنیا سے کوسوں دور تھا۔ ہمارے کنبے کا سب سے اہم کام بکریاں چرانا تھا۔ ہم سارا دن دھوپ اور پیاس میں گزارتے تھے۔ بحمد اللہ! میرے اندر تعلیم حاصل کرنے کا شوق فطرتی طور پر تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کم وسائل اور ہزاروں رکاوٹیں ہونے کے باوجود بھی اس میدان کے لیے چن لیا۔ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے ایک اسکول سے ہی حاصل کی۔ گھریلو مدد نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کا حصول اگرچہ مشکل تھا، لیکن ہمت سے ان مسائل کا مقابلہ کرتا رہا۔ مجھے دن بہ دن اپنی زندگی بدلتی نظر آ رہی تھی۔ میں ہمیشہ اس امید میں رہتا تھا کہ یہ دن ضرور بدلیں گے اور اللہ ہمارے لیے فراخی کی صورتیں یقیناً پیدا کرے گا۔
سوال

٭… ایک زمانے میں غربت کی وجہ سے صحرا میں گدھے پر سفر کرتا تھا، آج جب اس صحرا میں جاتا ہوں تو اپنے کاروبار سے حاصل شدہ 90 لاکھ کی گاڑی پر سوار ہوتا ہوں، یہ سب اللہ کا فضل اور اسی کا کرم ہے ٭…تعلیم ہی ہر مسئلے کا بنیادی حل ہے، اگر میں نے کچھ نہ پڑھا ہوتا تو آج ضرور صحرا میں بکریاں چرا رہا ہوتا، نوجوانوں کو مسائل کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد نہیں کہنا چاہیے ٭

آپ ا س وقت تاجر بھی ہیں اور صحافی بھی، عملی زندگی کا آغاز کب اور کن حالات میں کیا؟
جواب
میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ریاض کا رخ کیا۔ میں ان دنوں معاشی مشکلات سے بھی شدید دوچار تھا۔ ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور گزر اوقات کے لیے رات کو ایک اخبار کے دفتر میں چوکیداری کے فرائض سر انجام دینے لگا۔ اس معمولی نوکری کی تنخواہ سے میرا گزر بسر، یونیورسٹی کی کتابیں اور جیب خرچ بآسانی پورا ہو جاتا۔ اس چوکیداری کے دوران میں نے اپنی سوچ کو بلند رکھا۔ میں ہمیشہ یہ سوچتا رہتا کہ ایک دن میں بھی صحافی بنوں گا۔ میری زندگی کی یہ پہلی نوکری تھی۔ مجھے تھوڑی آمدنی بھی سونا محسوس ہوتی تھی۔ اس کو صحیح خرچ کرنے اور بعض اوقات ان پیسوں میں اضافے کا بھی سوچتا تھا۔ میرا اسی زمانے کا تجربہ ہے کہ کم آمدنی کا صحیح استعمال کیا جائے تو کافی ہو جاتی ہے۔ میں نے اس اصول پر عمل کیا اور کامیاب رہا۔
سوال
چوکیداری کی ملازمت سے صحافی اور پھر یہاں تک کا سفر کیسے طے ہوا؟
جواب
چوکیداری کی ملازمت، میں نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اختیار کی تھی۔ میں دن میں پڑھتا تھا اور رات کو ملازمت کرتا تھا۔ یہ دن میرے لیے بڑے مشکل تھے۔ دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد رات کو نوکری کرنا آسان نہ تھا۔ بعض اوقات مجھے دو گھنٹوں سے بھی کم آرام کا موقع ملتا۔ میں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے مقصد کی جانب بڑھتا رہا۔ ایک رات میں پہرا دے رہا تھا کہ ہمارے اخبار کے رئیس التحریر الاستاد السدیری کسی جگہ سے کافی تاخیر سے لوٹے، انہوں نے میرے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو پوچھا آپ کیا مطالعہ کر رہے ہو؟ میں نے قصہ بتا دیا کہ میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور کل میرا اس مضمون کا پرچہ ہے۔ میری مشکلات سن کر السدیری نے مجھے اگلے دن اپنے دفتر میں ملنے کو کہا اور مجھے چوکیدار سے اخبار کا رپورٹر بنا دیا۔ یہ میرا کامیابی کی طرف پہلا قدم تھا۔ اخبار انتظامیہ نے میرے ساتھ بڑا تعاون کیا اور میں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے لگا۔ اب میری تنخواہ میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
سوال
تجارت کی طرف رجحان کیسے ہوا؟
جواب
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میں ایک غریب خاندان کا فرد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تعلیم اور پھر مال کی نعمت سے نوزا۔ میرے پاس جو آمدنی بھی ہوتی تھی میں اس میں ہمیشہ اضافے کا سوچتا اور مختلف جائز طریقوں سے اسے بڑھانے کی فکر میں لگا رہتا۔ میرا دماغ صحافی اور دل درحقیقت تاجر تھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اخبار سے اچھی تنخواہ ملنے لگی تھی۔ میں نے اپنے دوستوں کا قرض بھی ادا کیا اور بینک سے کچھ رقم قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کرنے کی ٹھان لی۔ ہم مختلف جگہوں سے پلاٹس خریدتے اور منافع کے ساتھ بیچتے۔ کئی پلاٹوں میں ہمیں 30 فیصد سے بھی زائد نفع ہوا۔ کاروبار کو بڑھانے کے لیے میں نے اپنے بھائیوں کی خدمات بھی حاصل کیں، یوں ہم سب مل کر یہ کاروبار کرنے لگے۔ الحمد للہ! میں اخبار کے دفتر میں جن ملازمین کے لیے آگے بڑھ کر دروازہ کھولتا اور سیلوٹ کرتا تھا، آج ان سے کئی گنا اچھی حالت میں ہوں۔
سوال
آپ کے مالدار ہونے اور تعلیم کے حصول سے خاندان میں کیا تبدیلی آئی؟
جواب
جی ہاں! یہ ایک فطری بات ہے۔ ناخواندگی اور غربت کے دن بہت ہی مشکل اور کٹھن ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے خاندان پر بھر پور توجہ دی ہے۔ میرے کئی رشتے دار ہمارے کاروبار میں شریک ہیں۔ ہمارا ایک بھائی میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ غرض خاندان کے حالات پہلے سے بہت مختلف ہو چکے ہیں۔
سوال
اس وقت آپ کا کاروبار کس پوزیشن میں ہے، مستقبل میں کیا ارادے ہیں؟
جواب
الحمد للہ! میں نے اپنی جمع پونجی سے جو کاروبار شروع کیا، اس سے بہت کم عرصے میں ہی بڑا نفع ہوا۔ اس وقت ہمارا کاروبار لاکھوں سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہم دن بہ دن اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک زمانے میں غربت کی وجہ سے صحرا میں گدھے پر سفر کرتا تھا۔ آج جب اس صحرا میں جاتا ہوں تو اپنے کاروبار سے حاصل شدہ 90 لاکھ کی گاڑی پر سوار ہوتا ہوں۔ یہ سب اللہ کا فضل اور اسی کا کرم ہے۔
سوال
اپنی کامیابی کا کریڈٹ کسے دیں گے؟ آپ سب سے زیادہ کس کے احسان مند ہیں؟
جواب
میری زندگی بدلنے میں ’’الاستاذ السدیری‘‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے میری مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھا۔ میری تعلیم کی تکمیل انہی کی مرہون منت ہے۔ وہ مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا برابر جذبہ دلاتے رہے۔ اس کے بعد اپنے اخبار کے دوستوں کو بھی میں نہیں بھولتا۔ بے شک میں ایک اناڑی صحافی تھا، انہوں نے میرے ساتھ خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ کام کیا اور مجھے مسلسل اپنے ساتھ تیار کرتے رہے۔ انہی دوستوں کی محنت سے مجھے ’’النمسا‘‘ میں صحافتی ایوارڈ بھی ملا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں میرے لیے آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
سوال
آپ نوجوان ہیں اور نوجوانوں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے ہم عمروں کے لیے کیا پیغام دیں گے؟
جواب
نوجوانوں سے سب سے پہلی بات یہ کہوں گا کہ ہر حالت میں اپنی تعلیم پر توجہ دیا کریں۔ تعلیم ہی ہر مسئلے کا بنیادی حل ہے۔ اگر میں نے کچھ نہ پڑھا ہوتا تو آج ضرور صحرا میں بکریاں چرا رہا ہوتا۔ نوجوانوں کو مسائل کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد نہیں کہنا چاہیے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے زندگی تدریجی عمل کا نام ہے۔ ہر کام کے لیے ایک وقت طے ہوتا ہے۔ نوجوان عموماً جلد بازی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، جس کے باعث اپنا نقصان کر لیتے ہیں۔ ثابت قدمی کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں۔ صبر، محنت اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے کا عزم کریں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ مزید یہ کہ والدین پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ والدین کے لیے سہارا بنیں۔ تھوڑے پیسوں سے بھی سرمایہ کاری کریں۔ اللہ تعالی نے تجارت میں بڑی برکت رکھی ہے۔ میں نے ملازمت سے کئی گنا بڑھ کر تجارت میں فائدہ دیکھا ہے۔ آپ تھوڑے دنوں میں اپنی سوچ سے بڑھ کر تبدیلی پائیں گے۔