جمع شدہ رقم پر ہر ماہ طے شدہ نفع دینا

سوال
عبد اللہ نے ایک دکان کھولی اور اس سے حلال روزی کمانے لگا، لیکن کچھ عرصے بعد وہ دکان ایسی نہ رہی، جیسے پہلے تھی۔ عبد اللہ کو مال دکان پر رکھنے کے لیے رقم کی ضرورت پڑنے لگی۔ اس نے اپنے ایک دوست آصف سے مطالبہ کیا اورکہا کہ رقم کی ضرورت ہے، میں اس پر ہر مہینے پانچ فیصد نفع دوں گا۔ آصف نے ایک خطیر رقم عبد اللہ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی۔

اب عبد اللہ مال خریدنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس رقم میں سے کچھ نہ کچھ رقم نکالتا رہتا ہے اور نفع آنے کے بعد اس جمع شدہ رقم میں سے کم ہونے والی مقدار کو دوبارہ پورا کر دیتا ہے اور مزید بھی اس میں ڈالتا رہتا ہے، یہاں تک کہ رقم اس مقدار سے بڑھ جاتی ہے جتنی آصف نے پہلے رکھوائی تھی پھر آخر میں اضافہ شدہ کل رقم سے مال خریدتا ہے پھر مہینے کے آخر میں بینک کے جتنے چیک کٹے ہوتے ہیں، ان تمام کو جمع کر کے (اگرچہ وہ رقم پہلی دفعہ رکھوائی گئی رقم سے زیادہ بنتی ہو) اس میں سے پانچ فیصد آصف کو نفع کے طور پر دے دیتا ہے۔ یہی معاملہ وہ ہر مہینے کرتا رہتا ہے۔

مثلاً: جنوری کے شروع میں آصف نے عبد اللہ کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے رکھوائے۔ عبد اللہ نے پہلے 20 ہزار کا مال خریدا پھر دوبارہ 20 ہزار ڈال کر رقم پوری کر دی، پھر 50 ہزار کا مال خریدا اور پھر دوبارہ 50 ہزار ڈال کر رقم پوری کر دی، اس کے بعد مزید 50 ہزار اس میں ڈال دیے، اب وہ رقم ڈیڑھ لاکھ روپے ہو گئی ہے۔ پھر تیسری دفعہ عبد اللہ نے ڈیڑھ لاکھ کا مال خرید لیا، اب مہینے کے آخر میں چیک کی رقم کو جمع کیا تو 2 لاکھ 20 ہزار بن گئے۔ اس کا پانچ فیصد آصف کو بطور نفع ادا کر دیا۔

1 کیا عبد اللہ کا ایسا کرنا کہ اپنی رقم کو آصف کی دی ہوئی رقم کے ساتھ ملانا اور اس میں اضافہ کرنا درست ہے؟
2 مہینے کے آخر میں تمام چیک کی رقوم کو جمع کر کے اس کا پانچ فیصد نفع کے طور پر دینا ٹھیک ہے؟
3 اگر یہ دونوں چیزیں ٹھیک نہیں تو کوئی اور آسان صورت بتا دی جائے جس میں شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو۔
(سعید صدیق)
جواب
عبد اللہ کا آصف سے رقم لے کر اسے ہر ماہ طے شدہ پانچ فیصد نفع دینا سود کا معاملہ تھا۔ جو رقم آصف نے عبد اللہ کو کاروبار کے لیے دی تھی وہ عبد اللہ پر قرض ہے اور جو نفع آصف نے اب تک وصول کیا ہے، وہ سود ہے۔ اس لیے فریقین اس معاملے پر توبہ و استغفار کریں اور جتنی رقم آصف نے سود کی مد میں وصول کی ہے وہ عبد اللہ کو واپس کرے اور عبد اللہ صرف اصل قرض لی ہوئی رقم واپس کرے۔
آئندہ دونوں فریق جائز طور پر یہ معاملہ شراکت یا مضاربت کی صورت میں کر کے آصف کو نفع کا فیصد کے اعتبار سے طے کیا گیا حصہ دے سکتے ہیں۔ شراکت کی صورت میں آصف کو دکان میں شرکت کرنا پڑے گی اور نفع و نقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔

ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ میں شامل ہونے والا نفع
سوال
ہمیں ملازمین کے پی ایف (پراویڈنٹ فنڈ) کی لازمی کٹوتی کے بعد اس میں کمپنی کی جانب سے شامل کیے جانے والے نفع کی شرعی حیثیت درکار ہے، کیوں کہ یہ ہمارے کھاتے میں بحیثیت اور بنام سود جمع کیا جاتا ہے تو کیا یہ لینا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو اس کی وجہ بیان کر دیں تو عین نوازش ہو گی۔

جواب
اس معاملے کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:
1 اگر پراویڈنٹ کی کٹوتی جبرا یعنی لازمی طور پر ہوتی ہے اور آپ کو کٹوانے کا اختیار نہیں ہوتا اور رقم کمپنی کے ہی پاس رہتی ہے، کسی اور آزاد ادارے یا ملازمین کی کمیٹی کی تحویل میں نہیں آتی تو شرعاً یہ سود نہیں ہے بلکہ تنخواہ کا حصہ ہے، جو ملازم کو بعد میں ادا کی جائے گی اور کمپنی کی طرف سے (بظاہر سود) ملنے والا اضافہ بھی تنخواہ ہی شمار ہو گی، چاہے کمپنی اسے سود ہی سمجھے۔

2 اگر یہ فنڈ کٹوتی ہونے کے بعد کمپنی کی کسی کمیٹی (جس میں ملازمین کی طرف سے بھی نمائندگی ہو) یا خود ملازمین کی کمیٹی کے تحت سودی معاملات میں استعمال کیا جاتا ہے یا کسی دوسرے ادارے کو ملازمین کی اجازت سے سپرد کیا جاتا ہے، ان تمام صورتوں میں اضافی رقم لینا جائز نہیں۔ اس لیے کہ ملازمین کی کمیٹی کے قبضہ کرنے سے یہ رقم ملازمین کے قبضہ میں شمار ہوگی، اب اگر اسے سودی معاملات میں لگایا جاتا ہے تو یہ سود ہی ہو گا۔

3 تیسری صورت یہ ہے کہ ہو تو نمبر 1 میں بیان شدہ صورت ہی، لیکن جبری کے بجائے اختیاری ہو یعنی کٹوانے یا نہ کٹوانے کا اختیار ہو، اس صورت میں سود تو نہیں ہے، لیکن سودی لین دین سے مشابہت ہے، لہذا احتیاطاً اس سے بھی بچنا چاہیے۔

(احسن الفتاویٰ 270 / 4، پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ اور سود کا مسئلہ: ص 4,26)