اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ریاست کے ہر باشندے کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسلام نے رعایا کے بنیادی حقوق حکومتِ وقت کے ذمہ واجب کیے ہیں۔ ریاست کا کوئی بھی فرد حاکمِ وقت سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے سے مفلسی، بدحالی اور غربت کے خاتمے کے لیے اسلام نے ہر شخص پر کچھ مالی حقوق بھی عائد کیے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا سبب اللہ تعالیٰ کے پیداوار پر عائد کردہ ایک اہم فریضہ، عشر کی ادائیگی کا نہ ہونا ہے
اگر ہر شخص دیانت داری کے ساتھ ان حقوق کو بجا لائے اور پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ اسلام کی طرف سے عائد کردہ واجباتِ مالیہ ادا کرے تو ریاست کا کوئی گھرانا ایسا نہیں رہے گا جو روٹی، کپڑا اور مکان کے بغیر رات بسر کر سکے۔ انہی واجباتِ مالیہ میں سے ایک اسلامی حکم ’’عُشر‘‘ ہے۔
آج کل ہمارا کاشت کار طبقہ فصلوں کی بیماریوں، بے وقت بارشوں اور ناگہانی آفات کی بنا پر فصلوں کے تباہ ہونے اور قدرتی طور پر پیداوار کم ہونے کی وجہ سے پریشان رہتا ہے۔ اس کے سدِ باب کے لیے مختلف قسم کے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ بیماریوں کے خاتمے لیے گراں قیمت اسپرے اور پیداوار کی بڑھوتری کے لیے مہنگی سے مہنگی کھادیں استعمال کی جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا، بلکہ دن بدن فصلوں کے تباہ کرنے لیے نئی سے نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ ان تمام بیماریوں اور پریشانیوں کا سبب اللہ تعالیٰ کے پیداوار پر عائد کردہ ایک اہم فریضہ، عشر کی ادائیگی کا نہ ہونا ہے۔
عشر کا وجوب
عشر کا وجوب قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور تم اپنی کھیتی کی کٹائی کے وقت اس کا حق (عشر) ادا کیا کرو۔(الانعام) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ اے ایمان والو! ہمارے دیے ہوئے پاکیزہ رزق میں سے اور اس (پیداوار) میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی، خرچ کرو۔(البقرۃ) اسی طرح حدیث پاک میں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’ جن زمینوں کو آسمان اور چشمے سیراب کرتے ہیں… ان میں عشر واجب ہے اور وہ زمین جس کو کنویں سے پانی نکال کر سیراب کیا جاتا ہے اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) واجب ہے۔‘‘
عشر ایک ایسا فریضہ ہے کہ دور رسالت سے لے کر ہمارے زمانے تک پوری امت کا اس کے واجب ہونے پر اتفاق رہا ہے۔ چنانچہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے عشر کی فرضیت پر اجماع ذکر کیا ہے۔ (بدائع الصنائع: ج 2 ص 54) لہذا جب تک عشر ادا نہ کیا جائے اس وقت تک یہ ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا، بلکہ زندگی میں کسی وقت بھی اس کی ادائیگی اس شخص کے ذمہ لازم ہے، اور اگر کوئی شخص موت تک عشر ادا نہ کر سکا تو اس پر واجب الادا عشر کی وصیت کرنا ضروری ہے، ورنہ خطرہ ہے کہ اس کا وبال اسے آخرت میں بھگتنا پڑے۔
عشر کا لغوی و اصطلاحی معنی
عشر کے لغوی معنی ’’دسواں حصہ‘‘ کے ہیں اور اصطلاح میں یہ زرعی پیداوار پر واجب کردہ ایک مالی فریضہ یعنی زکوۃ کا دوسرا نام ہے۔ اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ عشر کو’’کھیتیوں اور پھلوں کی زکوۃ‘‘کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ البتہ اس کے احکام زکوۃ کے احکام سے کچھ مختلف ہیں۔ عام زکوۃ اور عشر میں فرق یہ ہے کہ زکوۃ میں بنیادی طور پر دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ آدمی صاحبِ نصاب یعنی اموالِ زکوۃ کی ایک مخصوص مقدار کا مالک ہو، دوسری یہ کہ اس مال پر سال گزر جائے، جبکہ عشر کے وجوب کے لیے ان میں سے کسی شرط کا پا یا جانا لازمی نہیں، لہذا اگر کسی کاشت کار کو کم مقدار میں فصل حاصل ہوئی اور اس پر سال بھی نہیں گزرا تو بھی اس پر عشر واجب ہو گا۔ نیز عشر کے لیے اپنی ذاتی زمین کا ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ اگر کسی نے عاریتاً، ٹھیکے یا مزارعت پر زمین لے کر کاشتکاری کی تو اس کی پیداوار پر بھی عشر واجب ہو گا۔ البتہ عاریتاً اور ٹھیکے پر لی گئی زمین کا عشر صرف کاشت کار پر اور مزارعت والی زمین کا عشر فریقین پر ان کے پیداوار میں طے شدہ حصے کے بقدر واجب ہو گا۔
عشر کی مقدار
عشر بارانی اور سیرابی دونوں قسم کی زمینوں پر واجب ہوتا ہے، البتہ بارانی زمین پر پیداوار کا دسواں حصہ، جبکہ سیرابی زمین پر حاصل شدہ پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہوتا ہے۔ بارانی زمین سے مراد وہ زمینیں ہیں جو بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہیں، ان میں کاشت کار کی طرف سے کھیتی کو پانی لگانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ جبکہ سیرابی زمینیں وہ کہلاتی ہیں جن کو کاشت کار ٹیوب ویل، نہر یا دریا کے پانی سے سیراب کرتے ہیں، ان زمینوں پر چونکہ خرچ اور محنت زیادہ صرف ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے ایسی زمینوں پر پیداوار کا بیسواں حصہ واجب کیا ہے۔
عشر کا مصرف
عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ کے مصارف ہیں، یعنی ہر ایسا شخص جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان نہ ہو، وہ مستحقِ عشر ہے، اس کو عشر دیا جا سکتا ہے۔ البتہ کسی ایسے شخص کو عشر دینا جو مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ کسی دینی خدمت میں بھی مشغول ہو، زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس کو دینے سے عشر کی ادائیگی اور دینی خدمت میں تعاون، دونوں کا اجر ملے گا۔ اسی طرح کسی رشتہ دار کو دینے کی صورت میں بھی عشر کی ادائیگی اور صلہ رحمی دونوں کا اجر ملے گا۔