میں نے اپنے بڑے بھائی کو اختیار دیا کہ وہ میرے لیے کراچی میں ایک عدد فلیٹ کا سودا کرے، ہمارا ایک دوسرا بھائی جو کہ پراپرٹی کا کام کرتا ہے، اس کے ذریعے ایک فلیٹ کا سودا ہو گیا اور سودا پکا کرنے کے لیے 50 ہزار روپے بیعانہ کے طور میرے بڑے بھائی نے ادا کر دیے۔
اگلے دن پراپرٹی ایجنٹ بھائی نے اپنے کچھ مفاد کی حاطر اس فلیٹ کا سودا دوسری پارٹی سے کرا دیا جبکہ مجھے اس سلسلے میں کچھ نہ بتایا گیا اور نہ ہی مجھ سے پوچھا گیا۔ مجھے یہ بات دوسرا سودا ہو جانے کے بعد معذرت کے ساتھ بتا دی گئی۔ اب سوال یہ کہ اس طرح بنائی گئی یہ ڈیل شرعاً جائز ہو گی؟ اگر ناجائز ہے تو اس کے گناہ کی نوعیت کیا ہو گی؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں تاکہ ہم اپنے بھائی کو اس گناہ سے بچنے کی ترغیب دے سکیں۔ (محمد طارق، دبئی)
جواب
جب آپ کے بڑے بھائی نے آپ کی طرف سے فلیٹ خرید لیا تو فلیٹ آپ کی ملکیت میں آ گیا۔ اس کے بعد پراپرٹی ایجنٹ کا فلیٹ بیچنا دو وجہ سے جائز نہیں تھا: ایک یہ کہ فلیٹ اس کی ملکیت نہیں تھا۔ دوم یہ کہ فلیٹ ابھی بائع کے قبضے میں تھا اور خریدی گئی چیز کو قبضہ کرنے سے پہلے آگے بیچنا درست نہیں، کیونکہ اس میں ’’ربح مالم یضمن‘‘ (اس چیز سے نفع کا حصول جو آدمی کی ضمان میں نہ ہو) کی خرابی لازم آتی ہے اور اس سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے، لہذا آپ کے بھائی پر لازم ہے کہ اس خرید و فروخت کو ختم کر کے فلیٹ خریدار سے واپس لے کر آپ کے سپرد کر دے۔ عقد فاسد پر استغفار بھی کرنا چاہیے۔
خرید و فروخت کے کاغذات بائع کے پاس امانت ہیں یا نہیں؟
سوال
مشتری نے بائع کے شوروم سے دو کاریں خریدیں اور چیک کے ذریعے قیمت کی ادائیگی کر دی، بائع نے کاریں مشتری کے حوالے کر دیں اور کاغذات حوالے نہ کیے، بلکہ کہا کہ دو تین دن کے بعد لے لینا، ابھی نہیں ہیں۔ دوبارہ آٹھ دس دن بعد مشتری کا جانا نہ ہوا۔ پھر جب اس نے مانگے تو بائع نے بتایا کہ اس کے ہاں چوری ہو گئی ہے اور چور الماری (تجوری) اٹھا کر لے گئے ہیں، تمام گاڑیوں کے کاغذات اسی میں تھے۔
آپ سے سوال یہ ہے کہ یہ کاغذات امانت تھے یا نہیں؟ اس لیے کہ مشتری نے کہا کہ یہ کاغذات حوالے کرنا تمہاری ذمے داری تھی اور بائع کہتا ہے کہ میرے پاس امانت تھے۔ اب اگر مشتری کاغذات بنواتا ہے تو کافی خرچہ آتا ہے اور گاڑی کی قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ آپ سے شرعی رہنمائی درکار ہے تاکہ مسئلہ کا حل کیا جا سکے۔ (سفیان محمود)
جواب
گاڑی کے کاغذات قانوناً اور عرفاً گاڑی کا جزو لازم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ جن کی سپردگی مشتری کے مطالبے پر بیع کے وقت (جب وہ گاڑی کی قیمت ادا کر دے) بائع کے ذمے لازم ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں بائع نے گاڑیوں کے کاغذات فروختگی کے وقت اپنے پاس نہ ہونے کے باعث از خود مشتری کو نہیں دیے تھے، جیسا کہ سوال میں بائع کی مذکورہ عبارت (کہ دو تین دن بعد لے لینا، ابھی نہیں ہیں) سے معلوم ہوتا ہے۔ اور ایسی صورت میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر مبیع (بیچی گئی چیز) مشتری کو سپرد کرنے سے پہلے بائع کے پاس ہلاک ہو جائے تو وہ بائع کے مال سے ہلاک ہونا سمجھی جائے گی اور مشتری پر کوئی چیز لازم نہ ہو گی، لہذا مذکورہ کاغذات پر امانت کا حکم لگا کر مشتری پر کاغذات بنوانے کی ذمہ داری ڈالنا درست نہیں، بلکہ بائع پر لازم ہے کہ دونوں گاڑیوں کے کاغذات بنوا کر مشتری کے سپرد کرے۔