یقینِ محکم، عملِ پیہم

جب میں نے کمپنی شروع کی تو میرے پاس صرف دو ملازمین اور ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ ایک صبح دفتر میں، میں نے دولکڑی کے بکس ایک دوسرے پر رکھ کر اسٹیج بنایا اور اس کے اوپر چڑھ کر دونوں ملازمین کے سامنے تقریر کرنے لگا: ’’میں اس کمپنی کا پریذیڈنٹ ہوں۔ پانچ سال کے اندر ہماری سیل 7 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہوگی۔ سپلائی کے لیے ایک ہزار ڈیلر ہمارے پاس ہوں گے اور… PC سوفٹ ویئر ڈسٹری بیوشن کے شعبے میں پہلا نمبر ہمارا ہو گا۔‘‘ یہ باتیں بہت یقین، جوش اور بلند آواز سے کہیں تو وہ دونوں ملازمین پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگے اور ان کے منہ کھلے ہوئے تھے۔ وہ مجھے پاگل سمجھنے لگے تھے، لیکن دونوں خاموش رہے۔

٭…اُسے جاپان میں آئی ٹی کا بادشاہ مانا جاتا ہے، کیونکہ جاپان میں مینوفیکچرنگ تو عام تھی، لیکن ٹیکنالوجی کا رواج خاص نہ تھا۔ اس نے جاپان کو ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا

سَن کی کہانی مزید سنتے ہیں:
میری پیدائش 11 اگست 1957ء میں جاپان کے ایک گاؤں ساکا میں ہوئی۔ اس میں آبادی کا زیادہ تر حصہ غریب لوگوں پر مشتمل تھا، جو محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالا کرتے تھے۔ یہاں پر تعلیم حاصل کرنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ میرے والدین نے میری تعلیم کی خاطر اس گاؤں کو خیرباد کہا اور Hakata میں آ بسے۔

مجھے تعلیم کے ساتھ بزنس کرنے کا بہت شوق تھا۔ ہمیں ایک استاد ’’ڈین فوجیتا‘‘ پڑھایا کرتے تھے۔ یہ میکڈونلڈ جاپان کے صدر بھی تھے۔ یہ میری تعلیمی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ ان کا رویہ میرے ساتھ بہت مشفقانہ تھا۔ ان سے دوستی ہو گئی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ مزید تعلیم کے لیے امریکا جائیں اور انگریزی زبان کے ساتھ کمپیوٹر سائنس پڑھیں۔ ان کی اس نصیحت نے میری زندگی کو ایک نئی راہ دکھلا دی۔ 16 سال کی عمر میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں پڑھنے لگا۔ کیلیفورنیا، بارکیلے اور لاس اینجلس میں اس وقت اکنامکس اور کمپیوٹر سائنس کا شہرہ تھا۔ یہاں پر میں نے ایک مضمون لکھا جس میں بیان کیا کہ مستقبل میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی ایک بہت بڑا انقلاب برپا کرنے والی ہے۔ اس تحریر سے مجھے پذیرائی ملی اور اعتماد میں اضافہ ہوا۔

یہاں تعلیم کے ساتھ میں بزنس آئیڈیاز گھڑنے لگا۔ ایک دن خیال آیا کہ کوئی ڈیوائس بناتا ہوں۔ محنت کی تو وہ بن گئی۔ یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اب اس کو کون خریدے گا۔ خریدار کی تلاش شروع کی تو کوئی نہ ملا۔ بہت سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جو کمپنیاں مختلف ڈیوائسز بناتی ہیں، ان کی فہرست بناؤں۔ جب ان کی لسٹ بنا لی تو دیکھنے لگا کہ ان کے پاس کون کون سی ڈیوائس ہیں؟ ہڈسن سوفٹ ویئر کمپنی کے پاس گیمز وغیرہ کے سوفٹ ویئر تھے، لیکن میرے پاس بزنس سوفٹ ویئر تھا۔ میں بہت خوش تھا کہ میرے پاس ایک ایسی چیز ہے، جو دوسروں کے پاس نہیں ہے۔ جب آپ محنت کرتے ہیں تو صلہ بھی مل جاتا ہے۔ میں نے یہ سوفٹ ویئر Sharp الیکٹرونکس کمپنی کو 10 لاکھ ڈالرز میں بیچ دیا۔ میں امریکا میں بزنس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں اپنے ملک جاپان آ گیا اور 1981 ء میں اپنی کمپنی Softbank کی بنیاد رکھ دی۔ کمپنی تو شروع کر دی، سرمایہ نہیں تھا۔ ایک بار Osaka کمپنی سے ایک آدمی نے فون کیا اور کہنے لگا کہ ہم ایک بڑی PC شاپ کھولنے والے ہیں، ہمیں سوفٹ ویئر کی ضرورت ہے۔ آپ آجائیں۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت مصروف ہوں، حالانکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ان کے پاس جا سکتا۔ انہوں نے پھر فون کیا اور اپنی کمپنی جوشین ڈینکی کا حوالہ دیا، لیکن میں کیسے جاتا، پیسے ہی نہیں تھے۔ آخر کار اس کمپنی کا صدر مجھے خود ملنے آ گیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ انہوں نے سوفٹ ویئر خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے کہا کہ جن لوگوں سے پہلے آپ کا بزنس تعلق ہے ،وہ اب مجھ سے جوڑنا ہو گا۔ یہ بات اخلاقی طور پر صحیح نہیں تھی، لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جب مجھ سے مکمل طور پر تعلق رکھیں گے تو یہ اپنی کامیابی میں میرے حصے کو تسلیم کریں گے۔

وہ سوال کرنے لگا کہ آپ کے پاس سرمایہ کتنا ہے ، بزنس کا تجربہ کیا ہے اور میری کمپنی کتنی بڑی ہے؟ سب کا جواب نفی میں دیا تو وہاں موجود سارے لوگ مجھ پر ہنسنے لگے، لیکن میں نے پورے یقین سے کہا کہ میں آپ کے بزنس کو بام عروج تک پہنچا دوں گا۔ میری خود اعتمادی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے میرے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ جوشین ڈینکی دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگی۔ میری ساکھ بنتی چلی گئی اور میرے اعتماد میں بھی مزید اضافہ ہونے لگا۔

عام طور پر لوگ ایسا بزنس کرتے جو چند سالوں تک چل پاتا ہے، لیکن میں ایک ایسا بزنس کرنا چاہتا تھا جو آئندہ 30، 50 سال تک جاری رہ سکے۔ میں ہر وقت نیا بزنس آئیڈیا تخلیق کرتا رہتا۔ یہاں تک کہ میرے پاس 40 سے زائد بزنس تھے جو میں نے کرنے تھے۔ ان بزنس آئیڈیاز پر عمل پیرا ہونے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔ میں ایک بینک Dai.ichi کانگیو میں گیا اور ان سے پونے دو لاکھ ڈالر بغیر سود کے قرض مانگا تو انہوں نے مالی حالت پوچھی، وہ تو زیرو تھی۔ بینک کے ملازمین مجھ پر ہنسنے لگے، لیکن میرے یقین اور اعتماد کو دیکھ وہ مجھ میں دلچسپی لینے لگے۔ میری باتیں سن کر اس کے منیجر نے کہا کہ کسی آدمی کا حوالہ دیں جو ہمیں آپ کی ضمانت دے سکے۔ میں نے ڈاکٹر سساکی (Sasaki) کا فون نمبر دے دیا۔ انہوں نے اس سے رابطہ کیا، میرے بارے میں بتایا تو اس نے انہیں یقین دلایا کہ میرے پاس بزنس پوٹینشل موجود ہے، جو بآسانی قرض لوٹا دے گی۔ اس بینک منیجر نے انتظامیہ کے اعتراض کے باوجود مجھے قرض دیا۔ اب جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے، میں اپنے اس محسن منیجر کو ضرور بلاتا ہوں اور میں ساری زندگی اس کا احساس مند رہوں گا۔

یہ تھی کہانی مسایوشی سن (Masayoshi Son) کی۔ یہ جاپان میں آئی ٹی کا بادشاہ مانا جاتا ہے، کیونکہ جاپان میں مینوفیکچرنگ تو عام تھی، لیکن ٹیکنالوجی کا رواج خاص نہ تھا۔ اس نے جاپان کو ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا۔ سن سوفٹ بینک کا بانی، سوفٹ بینک موبائل کا چیف ایگزیکٹو اور Sprint کارپوریشن کا چیئرمین ہے۔ 2014 ء میں فوربس میگزین کے مطابق یہ جاپان کا امیر ترین آدمی ہے۔ ٭٭٭٭٭