تجارت کے اس سفر میں ہم یقینا ایک مثالی زندگی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم خواہ جتنا بھی زور لگا لیں، آج کے دور کے وسائل کے باوجود ہم مشہور عباسی بادشاہ ہارون رشید کی امارت اور ثروت کو نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی سلطنت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ آج کے دور کے کئی امریکا اس کی مٹھی میں تھے۔ مگر اس کے باوجود دانائی کا ایک راز اور کامیابی کا اصل معیار، اسے سمجھ نہ آسکا۔ اگر اسے کسی نے سمجھایا تو وہ بظاہر مجنون نظر آنے والا ایک خدامست درویش تھا۔
آئیے! ترقی کے زینوں کو طے کرتے ہوئے ہم بھی اس راز کو پلے باندھ لیں۔ تفصیلی واقعہ ملاحظہ کیجیے۔
ایک بزرگ گزرے ہیں، نام تھا: بہلول رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ مجذوب قسم کے بزرگ تھے۔ بادشاہ ہارون رشید کی بادشاہت کا زمانہ تھا۔ ہارون رشیدان بہلول صاحب سے ہنسی مذاق کیا کرتا تھا۔ اگرچہ مجذوب تھے لیکن بڑی حکیمانہ باتیں کیا کرتے تھے۔ ہارون رشید نے اپنے دربانوں سے کہہ دیا تھا کہ جب یہ مجذوب میرے پاس ملاقات کے لیے آنا چاہیں تو ان کو آنے دیا جائے۔ ان کو روکا نہ جائے۔ چنانچہ جب ان کا دل چاہتا، دربار میں پہنچ جاتے۔
ایک دن یہ دربار میں آئے تو اس وقت ہارون رشید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ ہارون رشید نے ان مجذوب کو چھیڑتے ہوئے کہا:’’ بہلول صاحب! آپ سے میری ایک گزارش ہے۔‘‘
’’ کیا ہے؟‘‘بہلول نے پوچھا۔
ہارون رشید نے کہا کہ میں آپ کو یہ چھڑی بطور امانت دیتا ہوں۔ دنیا کے اندر آپ کو اپنے سے زیادہ کوئی بے وقوف آدمی ملے اس کو یہ چھڑی میری طرف سے ہدیہ میں دے دینا۔ بہلول نے کہا: ’’بہت اچھا!‘‘ یہ کہہ کر چھڑی رکھ لی۔
بادشاہ نے تو بطور مذاق کے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ دنیا میں تم سب سے زیادہ بے وقوف ہو۔ تم سے زیادہ بے وقوف کوئی نہیں ہے۔ بہر حال! بہلول وہ چھڑی لے کر چلے گئے۔
اس واقعہ کو کئی سال گزر گئے۔ ایک روز بہلول کو پتا چلا کہ ہارون رشید بہت سخت بیمار ہیں، اور بستر سے لگے ہوئے ہیں علاج ہو رہا ہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بہلول مجذوب بادشادہ کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔ پوچھا :’’امیر المؤمنین! کیا حال ہے؟‘‘
بادشاہ نے جواب دیا:’’ حال کیا پوچھتے ہو، سفر درپیش ہے۔‘‘ بہلول نے پوچھا: ’’کہا ں کا سفر درپیش ہے؟‘‘
بادشاہ نے جواب دیا:’’ آخرت کا سفر درپیش ہے، دنیا سے اب جا رہا ہوں۔‘‘
بہلول نے سوال کیا: ’’کتنے دن میں واپس آئیں گے؟‘‘
ہارون نے کہا: ’’بھائی! یہ آخرت کا سفر ہے، اس سے کوئی واپس نہیں آیا کرتا۔‘‘
بہلول نے کہا: ’’اچھا واپس نہیں آئیں گے! تو آپ نے سفر کے راحت اور آرام کے انتظامات کے لیے کتنے لشکر اور فوجی آگے بھیجے ہیں؟‘‘ بادشاہ نے جواب میں کہا: ’’تم پھر بے وقوفی کی باتیں کر رہے ہو۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ نہ باڈی گارڈ جاتا ہے، نہ لشکر، نہ فوج اور نہ سپاہی جاتا ہے۔ وہاں تو انسان تنہا جاتا ہے۔‘‘ بہلول نے کہا :’’ اتنا لمبا سفر کہ وہاں سے واپس بھی نہیں آنا ہے، لیکن آپ نے کوئی فوج اور لشکر نہیں بھیجا۔ حالانکہ اس سے پہلے آپ کے جنتے سفر ہوتے تھے، اس میں انتظامات کے لیے آگے سفر کا سامان اور لشکر جایا کرتا تھا۔ اس سفر میں کیوں نہیں بھیجا؟‘‘ بادشاہ نے کہا:’’ نہیں، یہ سفر ایسا ہے کہ اس سفر میں کوئی لاؤ لشکر اور فوج نہیں بھیجی جاتی۔‘‘
بہلول نے کہا: ’’بادشاہ سلامت! آپ کی ایک امانت بہت عرصے سے میرے پاس رکھی ہے، وہ ایک چھڑی ہے، آپ نے فرمایا تھا کہ مجھ سے زیادہ کوئی بے وقوف تمہیں ملے تو اس کو دے دینا۔ میں نے بہت تلاش کیا، لیکن مجھے اپنے سے زیادہ بے وقوف آپ کے علاوہ کوئی نہیں ملا، اس لیے کہ میں یہ دیکھا کرتا تھا کہ اگر آپ کا چھوٹا سا بھی سفر ہوتا تو مہینوں پہلے سے اس کی تیاری ہوا کرتی تھی، کھانے پینے کا سامان، خیمے، لاؤ لشکر، باڈی گارڈ سب پہلے سے بھیجا جاتا تھا۔ اور اب یہ اتنا لمبا سفر جہاں سے واپس بھی نہیں آنا ہے، اس کے لیے کوئی تیاری نہیں ہے۔ آپ سے زیادہ دنیا میں مجھے کوئی بے وقوف نہیں ملا، لہذا آپ کی یہ امانت واپس کرتا ہوں۔‘‘
یہ سن کر ہارون رشید رو پڑا، اور کہا: ’’بہلول! تم نے سچی بات کی۔ ساری عمر ہم تم کو بے وقوف سمجھتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمت کی بات تم نے ہی کہی۔ واقعتاً ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی۔ اور اس آخرت کے سفر کی تیاری نہیں کی۔‘‘در حقیقت حضرت بہلول نے جو بات کی وہ حدیث ہی کی بات ہے، حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا وَتَمَنَّی عَلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘ (سنن ابن ماجہ و مسند احمد)
اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے بتا دیا کہ عقل مند کون ہوتا ہے؟ آج کی دنیا میں عقل مند اس شخص کو کہا جاتا ہے، جو مال کمانا خوب جانتا ہو۔ دولت کمانا اور پیسے سے پیسے بنانا خوب جانتا ہو، دنیا کو بیوقوف بنانا خوب جانتا ہو۔ لیکن اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور نفس کی ہر خواہش کے پیچھے نہ چلے، بلکہ اس نفس کو اللہ مرضی کے تابع بنائے اور مرنے کے بعد کے لیے تیاری کرے، ایسا شخص ہی عقل مند ہے۔