’’فہد گارمنٹ کا کاروبار کرتا ہے۔وہ اپنا مال مارکیٹ میں بیچتا ہے۔مارکیٹ سے آرڈر لے کر مال تیار کرتا ہے۔سردی کی آمد کے ساتھ ہی گرم ریڈی میٹ کپڑوں کی مانگ بڑھ گئی ۔مارکیٹ سے آرڈر مل رہے ہیں۔یہ تو کمانے کا سیزن ہے۔لیکن فہد پریشانی میں نظر آرہا ہے۔اس نے سیزن کے لئے کچھ جمع کیا تھا لیکن وہ گزشتہ ماہ والدہ کے آپریشن میں خرچ ہوگیا۔آرڈر تیار کرنے کے لئے مارکیٹ سے ادھار لینا چاہ رہا ہے۔لیکن معاملات سود تک چلے جائیں گے۔


٭…مرابحہ نام ہے لاگت بتا کر چیز بیچنے کا لہذا ایسی صورتحال جب کسی چیز کی لاگت کا تعین نہ ہوسکتا ہو تو اسے مرابحہ کے معاملہ کی بنیاد پر نہیں بیچا جاسکتا ٭… وہ اخراجات جو براہ راست اس چیز کو حاصل کرنے میں لگے ہیں۔اگر وہ چیز نہ لیتے تو وہ اخراجات بھی نہ ہوتے ۔وہ اخراجات مرابحہ کی لاگت میں شامل ہوں گے ٭

اسی طرح کسی دوست سے قرض لینا چاہ رہا ہے تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ تم اس سے کماؤ گے ہمیں کیا اضافہ دو گے؟ان سے کہتا ہوں کہ شرکت کی بنیاد پر لگا لو،لیکن وہ کہتے ہیںکہ اس میں تو نقصان بھی ہوسکتا ہے؟ہمارا پیسا ڈوب جائے گا۔ہم نہیں کرسکتے۔ اب فہد کیا کرے؟سرمائے کی فراہمی کے لئے اس کے پاس کوئی متبادل راہ ہوسکتی ہے؟وہ سرمایہ کس طرح حاصل کرسکتا ہے ؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

چند قابل توجہ رویے کاروباری زندگی میں ہم یہ سمجھتے ہیںکہ بس کمائی ہونی چاہئے۔وہ معاملہ کرنا ہے جس سے دو پیسے ہماری جیب میں آجائیں۔یقین مانئے ہم اس معاملے میں تو شاید اپنا مسلمان ہونا بھی بھول جاتے ہیں۔بہرحال یہ رویہ عمومی تربیت کا نتیجہ ہے۔ہمارا تعلیمی نظام،معاشی نظام ،سیاسی نظام سب ہی کا عمومی مزاج مال و دولت کمانے کی فکر ہی ہے۔اس کا نتیجہ ہے کہ ہم انفرادی معاملات میں بھی مال کی کو اپنے تعلقات پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔یہ رویہ ایک مسلمان کا نہیں ہے۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ پیسوں میں اضافہ ہو۔اس کے لئے سودی معاملات،سٹے کے معاملات،سب ہم کررہے ہوتے ہیں۔لیکن کبھی اس کا انجام ہم نے نہیں سوچا۔ہم اپنے اوپر، اپنی نسلوں کے اوپر رحم کھائیں،حلال کمانے کی فکر کریں چاہے اس میں تھوڑا ہی ملے۔اللہ پاک اس تھوڑے میں وہ برکت ڈال دیں گے کہ وہ نفع بخش اور کافی ہوجائے گا۔ہم مارکیٹ میں باہمی ہمدردی،رواداری،برداشت کا ماحول بنائیں۔پچھلے شماروںمیں یہ بات واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے کہ قرض کا لین دین کی بنیاد باہمی امداد ہے۔قرض کے معاملے میں ہم کما نہیں سکتے۔لیکن کمانے کے لئے پیسہ لگانا ہے تو اس کے لئے شریعت نے شرکت و مضاربت کے معاہدات ہمیں دیے ہیں۔جس میں نفع و نقصان میں شرکت ہوتی ہے۔ہم ان کی بنیاد پر آپس میں پیسہ لگا سکتے ہیں۔لیکن کئی مواقع ایسے آتے ہیںجہاں عملا شرکت و مضاربت کا معاملہکرنا مشکل ہوجاتا ہے۔چونکہ کاروباری مقصد ہے تو ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ قرض لینے والا تو ہمارے سرمائے سے نفع کمائے لیکن ہم شرعی مجبوری کی وجہ سے صرف اصل ہی واپس لیں۔اس لئے اب ہم قرض بھی نہیں دینا چاہتے۔ہاں کوئی ایسی صورت ہو کہ حلال طریقے سے کچھ ہم بھی کما سکیں تو سرمایہ استعمال کرنے پرتیار ہو سکتے ہیں۔جیسے تھوڑی مدت کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے۔اب شرکت و مضاربت کی تمام شرائط پوری کرنا ،حساب لگانا،پھر اختتام پر نفع و نقصان کا تعین اور تقسیم بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔

ایسے موقع پر خریدو فروخت کے معاملہ کو سرمائے کی کی ضرورت پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آئیے! اب ذرا تفصیل سے سمجھتے ہیں۔

عقد مرابحہ
خریدو فروخت کی دو صورتیں ہیں:
ایک وہ صورت جب بیچنے والا یہ نہ بتائے کہ اسے یہ چیز کتنے کی پڑی ہے۔جیسا کہ عام حالت میں ہم خریداری کررہے ہوتے ہیں۔اسے عربی میں’’ مساومہ‘‘ کہتے ہیں۔
دوسری وہ صورت ہے جب بیچنے والا یہ بتائے کہ مجھے یہ چیز اتنے کی پڑی ہے میں اس پر اتنا نفع رکھ کر اس قیمت پر بیچوں گا۔یعنی وہ اپنی لاگت اور نفع کو گاہک کو بتائے۔اس صورت کو مرابحہ کہتے ہیں۔
سرمائے کی فراہمی کے لئے دونوںصورتوں میں سے کسی کو بھی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔لیکن معاملے کو شفاف رکھنے کے لئے مرابحہ کا استعمال زیادہ مناسب ہوتا ہے۔

مرابحہ کے بنیادی قواعد
پہلی بات تو یہ کہ مرابحہ خود ایک قسم کی خریدو فروخت ہے۔لہذا جو باتیں ایک خریداری کے معاملہ میں دیکھنا ضروری ہیں وہ مرابحہ کے معاملے کے لئے بھی ضروری ہوں گی۔اس کے ساتھ ساتھ مرابحہ کے بنیادی قواعد کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے۔

1نفع کی وضاحت
مرابحہ ایک ایسی خریداری ہے جس میں بیچنے والااس چیز پر آنے والی لاگت خریدار کو بتا تا ہے۔مزید اس پر نفع کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔
نفع کی وضاحت دو طریقوں سے ہوسکتی ہے۔
٭…کوئی متعین رقم نفع کی بتا ئی جائے ۔جیسے یہ کہنا کہ یہ چیز مجھے 900 کی پڑی ہے اور میں 100 روپے نفع کے ساتھ1000 کی بیچوں گا۔اس طرح بیچنے والے نے 100 روپے نفع کی مقدار بتا دی۔
٭… دوسری صورت یہ ہے کہ بیچنے والا یہ کہے کہ میں اپنی لاگت پر کوئی متعین شرح سے نفع لوں گا۔مثال کے طور پر بیچنے والا کہتا ہے کہ میں اپنی لاگت پر 15 فیصدنفع وصول کروںگا۔مثال کے طور پر اسے ایک چیز 900 روپے کی پڑی اب اس پر15فیصد نفع جمع کرلیا جائے تو قیمت فروخت 900جمع 135کل 1035 روپے ہو جائے گی۔تو اس طرح بھی نفع کا تعین ہو سکتا ہے۔

2 لاگت میں کیا شامل ہوگا؟
مرابحہ کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ لاگت میں کن اخراجات کو شامل کیا جائے گا ؟اور کون سے اخراجات مرابحہ کی لاگت میں شامل نہیں ہوںگے؟
اسے اس طرح سمجھیں کہ وہ اخراجات جو براہ راست اس چیز کو حاصل کرنے میں لگے ہیں۔اگر وہ چیز نہ لیتے تو وہ اخراجات بھی نہ ہوتے ۔وہ اخراجات مرابحہ کی لاگت میں شامل ہوں گے۔جس پر نفع کا تعین کرکے قیمت فروخت متعین کی جائے گی۔جیسے اس چیز کو لانے پر آنے والے اخراجات،جس میں لوڈ کرنے کے خرچے،اتارنے کے خرچے،ٹرانسپوڑٹیشن کے خرچے،چنگی وغیرہ کے خرچے،اس پر ادا کئے جانے والا ٹیکس،وغیر ہ لاگت میں شامل ہو جائیں گے۔جبکہ ادارے کے مستقل ملازمین کی تنخواہیں یا عمارت کا کرایہ وغیرہ مرابحہ کی لاگت میں شامل نہیں ہوںگی۔ہاں نفع کی تعیین کے وقت ان اخراجات کو بھی مدنظر رکھا جاسکتا ہے۔یعنی اگر یہ اخراجات زیادہ ہیں تو نفع زیادہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔

3 لاگت متعین ہو سکے
مرابحہ نام ہے لاگت بتا کر چیز بیچنے کا لہذا ایسی صورتحال جب کسی چیز کی لاگت کا تعین نہ ہوسکتا ہو تو اسے مرابحہ کے معاملہ کی بنیاد پر نہیں بیچا جاسکتا۔مثال کے طور پر آپ نے ایک لاٹ کا سودا کیا جس میں گرم کپڑے، سوئیٹر،جیکیٹیں وغیرہ تھی۔اب اس لاٹ میں موجود کسی بھی سوئیٹر یا جیکٹ کی لاگت متعین کرنا ممکن نہیں۔لہذا اسے مرابحہ کے طور فروخت نہیں کیا جاسکتا ۔ہاں عام فروخت جس میں لاگت کا تذکرہ نہ ہو فروخت کیا جاسکتا ہے۔

4 مرابحہ کی صورت میں ادائیگی
مرابحہ کی صورت میں ادائیگی چاروں صورت میں ہو سکتی ہے:
-مکمل نقد
-مکمل ادھار کسی متعین تاریخ یا مدت تک
-کچھ نقد کچھ ادھار
-اقساط میں ادائیگی
یہ تمام صورتیں شرعا جائز ہیں۔لیکن ایک قیمت اور وقت ادائیگی کا معاملہ کے وقت متعین ہونا ضروری ہے۔
5 مرابحہ میں شرط لگانا
مزید کوئی ایسی شرط لگانا درست نہیں کہ اگر وقت مقررہ پر ادائیگی نہیں کی تو جرمانہ لگایا جائے گا۔اسی طرح یہ شرط لگانا بھی درست نہیں کہ وقت مقررہ سے پہلے ادائیگی کردی تو قیمت کم وصول کی جائے گی۔ایک متعین قیمت کا ہونا بہرحال ضروری ہوگا۔ This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. (باقی آئندہ)