آگے چلنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ کسی قیمتی چیز کی ملکیت کے تبادلے کے لیے شریعت نے مقرر کیا ہے، لہذا اس معاہدے کے ذریعے کسی قیمتی چیز کا تبادلہ بہرحال ضروری ہے۔باقی کوئی ایسی ترتیب بنالینا جس میں خریداری کے معاہدے کی ضروری باتیں بھی پوری ہوجائیں اور نتیجے میں سرمائے کی فراہمی کی ضرورت بھی پوری ہوجائے۔ ایسی ترتیب بنالینا درست ہے۔ بالخصوص اس وقت جب شراکت داری کا معاملہ کرنا کاروباری ضروریا ت کو پورا نہ کرپا رہا ہو۔
٭…یہ معاملہ اسلامی بینکوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ہم اس معاہدے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سرمائے سے کاروبار کرتے ہوئے۔کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے حلال نفع کا بندوبست کرسکتے ہیں
خریداری کے معاملے کو سرمائے کی فراہمی کے لئے استعمال کرنے کے لئے کس طرح چلایا جائے گا۔ آئیے! مثال سے سمجھتے ہیں۔
فہدکااپنا گارمنٹ کا کاروبار ہے۔اسے مارکیٹ سے آرڈر ملا۔آرڈر تیار کرنے کے لئے اسے خام کپڑے کی ضرورت ہے۔ جب ابتدائی آپشن یعنی غیر سودی قرضہ، شراکت و مضاربت اس کے لئے کافی نہیں ہیں تو اس موقع پر خریداری کے معاہدے کے ذریعے فہد سرمایہ لے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فہد مال فہیم سے اٹھاتا ہے۔ اس کے ریٹ، طے ہیں۔چونکہ سیزن ہے اس لئے وہ ادائیگی نقد مانگتا ہے۔ اس کے دوست سعید کے پاس پیسے ہیں، وہ فہد سے کہتا ہے کہ میں فہیم سے مال خرید کر تمہیں متعین نفع مثلا دس فیصد رکھ کر بیچ دیتا ہوں۔اس طرح تمہاری ضرورت بھی پوری ہوجائے گی۔مجھے اپنی رقم پر نفع بھی مل جائے گا۔اورجب تمہارا سیزن پورا ہوجائے تو تم مجھے ادائیگی تین ماہ بعد کردینا۔ اس رضامندی کے بعد،مثال کے طور فہد کو 10 لاکھ کے مال کی ضرورت ہے۔سعید اس سے اس کی مطلوبہ اشیا معلوم کرکے فہیم سے خریداری کرلیتا ہے اور 10 لاکھ روپے فہیم کو ادا کردیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی اس مال پر قبضہ کرنے کے بعد فہد کو ادھار 10فیصدنفع پر بیچ دیتا ہے۔یعنی 11 لاکھ روپے میں۔جس کی ادائیگی تین ماہ بعد ہوگی۔ اس طرح خریداری کے معاہدے کے ساتھ فہدکی ضرورت بھی پوری ہوگئی اور سعید نے بھی اپنی سرمایہ کاری پر مناسب نفع کمالیا۔
ایک ضروری وضاحت
یہ یاد رکھیے کہ اس طرح سرمائے کی فراہمی کے لئے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ کسی چیز کی حقیقی خریداری ہو۔ایسا نہ ہو کہ صرف کاغذات میں خریدو فروخت ہو اور حقیقت میں کوئی خریدوفروخت نہ ہو تو یہ سودی معاملہ کی طرح ہی ہو جائے گا۔
دوسری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ جب سرمایہ لگانے والا چیز خریدے تو آگے بیچنے کے پہلے اس پر خود یا اس کا وکیل قبضہ کرلے۔یہ قبضہ حقیقی بھی ہوسکتاہے ۔جیسے باقاعدہ اسے اٹھا کر اپنی کسٹڈی میں لے لیا جائے۔یا پھر حکمی قبضہ ہوجائے ۔جیسے بیچنے والا ڈلیوری آرڈر جاری کر دے کہ آپ یہ چیز اٹھا لیں تو بھی یہ قبضہ شمار کیا جاسکتا ہے۔اس قبضہ سے پہلے سامان آگے بیچنا شرعا درست نہیں۔یہی وہ پوائنٹ جس پر اس سامان کا رسک سرمایہ کار کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اور بیچنے کے ساتھ وہ اس چیز پر حلال نفع کما سکتا ہے۔
اسلامی بینکوں میں جس مرابحہ کا ذکر ہم سنتے ہیں وہ یہی مرابحہ ہے۔لیکن یہ معاملہ اسلامی بینکوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ہم اس معاہدے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سرمائے سے کاروبار کرتے ہوئے۔کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے حلال نفع کا بندوبست کرسکتے ہیں۔
ہم اس بات کو سمجھیں کہ اسلام میں معاشرے کی بنیاد باہمی ہمدردی،تعاون،بھائی چارگی پر ہے۔ہم ایک دوسرے کی ضروریات کو دیکھیں۔جتنا ہم دوسر ے کے کام آسکتے ہیں ضرور آئیں۔ہم اگر کسی کی مدد قرض سے سکتے ہیں کریں۔ کسی کی مدد شراکت داری کے معاملے کے ساتھ کر سکتے ہیں کریں۔کسی کی مدد خریداری کے معاملے کے ساتھ کرسکتے ہیں کریں۔
یاد رکھیے! جب ہم کسی مسلمان بھائی کی مدد کے لئے قدم اٹھاتے ہیں کہ اللہ پاک ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اقدامات فرمانا شروع فرما دیتے ہیں۔ہماری مدد سے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری ہوجائے یہ یقینی نہیں لیکن جب اللہ نے ہماری ضروریات پوری کرنے کے لئے ارادہ فرما لیا تو ہماری ضرورت ضرور پوری ہوگی۔ تو کیا خیال ہے اللہ سے یہ نفع کا سودا نہ کریں ۔قدم اٹھائیں ہم اللہ پاک کو اپنی شہ رگ سے زیادہ قریب پائیں گے …ان شاء اللہ! This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.