’’امام صاحب! میرا ایک دوست ہے جو میری طرح فرنیچر کا کاروبار کرتا ہے۔ اس کے پاس آرڈر ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس آرڈر پورے کرنے کے لیے سرمایہ نہیں ہے۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ تم اس گاہک کو میرے ساتھ ڈائریکٹ کر دو۔ وہ مجھے آرڈر دے گا۔ میں تم سے ہی بنوا لوں گا اور اس بنوانے کے لیے تمہیں جو سرمایہ درکار ہے میں تمہیں دے دوں گا۔ اس طرح تمہیں کام مل جائے گا۔ سرمایہ مل جائے گا۔ مجھے بھی اپنے سرمایہ لگانے پر نفع مل جائے گا۔ کیا یہ صورت درست ہو گی؟‘‘


٭…کئی مواقع پر مطلب کی چیز ہمیں بنی بنائی نہیں ملتی بلکہ ہم اپنی پسند کی بنواتے ہیں۔ اس موقع پر شریعت ہمیں استصناع کا معاہدہ دیتی ہے کہ اس کے مطابق ہم اپنی پسندیدہ چیز بنوا سکتے ہیں ٭

’’ہاں شریعت کی رو سے یہ ’’استصناع‘‘ کا معاملہ ہے۔ اس میں گاہک کے ساتھ معاملے میں تم بیچنے والے اور اپنے دوست کے ساتھ خریدار ہو گے اور اس طرح کرنا تمہارے لیے درست ہو گا۔‘‘ امام صاحب نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا۔ سوال کا جواب تو ملا مگر اس کے ساتھ ہی عارف کے دماغ اچانک کئی اور سوالوں کی آماجگاہ بن گیا۔ یہ استصناع کیا ہوتا ہے؟ استصناع کا معاہدہ کب کیا جا سکتا ہے؟ استصناع کے معاہدے کی کیا شرائط ہوں گی؟ کیا استصناع کا معاہدہ سرمائے کی فراہمی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے؟ اگر استصناع کے معاہدے کو سرمائے کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جائے تو کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہو گا؟وغیرہ۔ عارف نے اپنی الجھنوں کا اظہار امام صاحب سے کیا تو انہوں نے عارف کو دین کا یہ اہم باب تفصیل سے سمجھا دیا۔ آئیے!ہم بھی سمجھتے ہیں۔

استصناع کی حقیقت
استصناع کے لفظی معنی ہیں: ’’بنوانا۔‘‘ ہم روزمرہ زندگی میں مختلف چیزیں بنواتے ہیں، جیسے:درزی سے کپڑے سلوانا، کارپینٹر سے فرنیچر بنوانا، سوفٹ وئیر انجینئر سے سوفٹ وئیر بنوانا۔ یہ تمام کام وہ ہیں جن میں سے ہم کوئی بھی چیز بنوا رہے ہیں۔ اگر ان تمام معاملات میں آرڈر دینے والا خام مال نہ دے بلکہ بنانے والا خود خام مال کا بندوبست کرے تو یہ ’’استصناع‘‘ کا معاہدہ ہو جائے گا اور استصناع ایک قسم کی خریداری ہے۔ دوسری جانب اگر آرڈر دینے والا خام مال بھی دیتا ہے تو یہ خریداری نہیں، بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ آرڈر دینے والے نے کام کرنے والے کی سروسز لے لی ہیں۔ ان سروسز کے بدلے وہ اپنی اجرت کا مستحق ہو گا۔

استصناع کا ثبوت
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت سے ہی امت میں استصناع کا معاملہ رائج رہا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد نبوی کا منبر استصناع کے معاہدے پر ہی بنوایا تھا، لہذا یہ معاملہ شریعت میں ایک جائز معاملہ ہے۔

استصناع کی ضرورت
روز مرہ زندگی میں ہمبہت سی چیزیں مارکیٹ سے بنی بنائی خرید لیتے ہیں، لیکن کئی مواقع پر مطلب کی چیز ہمیں بنی بنائی نہیں ملتی بلکہ ہم اپنی پسند کی بنواتے ہیں۔ اس موقع پر شریعت ہمیں استصناع کا معاہدہ دیتی ہے کہ اس کے مطابق ہم اپنی پسندیدہ چیز بنوا سکتے ہیں۔

استصناع کا موقع
استصناع صرف ان چیزوں کے لیے ہو سکتا ہے جن کو بنایا جاتا ہو، جیسے: کپڑے بنوانا، سلونا، مشین بنوانا اور آلات بنوانا۔ ان چیزوں میں استصناع کا معاہدہ نہیں ہو سکتا جن میں بنوانے کی ضرورت نہ ہو، جیسے: کپاس، گنا، گائے اور بکری وغیرہ۔ ان پر استصناع کا معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

استصناع کے ضروری قواعد
استصناع کے حوالے سے یاد رکھنے والی باتیں یہ ہیں:

چیزکا تعین
استصناع کے معاہدے کے ذریعے جو چیز بنوائی جا رہی ہے، اسے اس طرح بیان کرنا ضروری ہے جس سے معاہدہ کرنے والی دونوں پارٹیاں اچھی طرح سمجھ لیںکہ کیا چیز، کیسی بنوائی جا رہی ہے، جیسے: اگر میز بنوانی ہے تو اس کی اونچائی، چوڑائی، لمبائی اور لکڑی کی قسم وغیرہ معلوم ہونا ضروری ہے۔

قیمت کا تعین
استصناع کے معاہدے میں قیمت کا طے ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ طے ہو کہ یہ چیز کتنے کی بنا کر دی جائے گی۔ مثال کے طور پر یہ میز دو ہزار میں بنا دو۔ استصناع کے معاہدے میں قیمت کی ادائیگی کی تینوں صورتیں ممکن ہیں: چاہے وہ ایڈوانس ادا کردی جائے، قسطوں میں ادا کر دی جائے یا پھر ادھار ایک ساتھ ادا کر دی جائے۔ تمام صورتیں ہو سکتی ہیں۔

مدت کا تعین
استصناع کے درست ہونے کے لیے مدت کا تعین ضروری نہیں، لیکن معاہدہ کرنے والے آپس میںکوئی بھی زیادہ سے زیادہ مدت مقرر کر سکتے ہیں۔ یعنی آرڈر دینے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ چیز ایک ہفتہ میں تیار کر کے دو، لیکن یہ مدت بنانے والے پر لازم نہیں ہو گی، یعنی وہ ایک ہفتے سے پہلے بنا لے اور دینا چاہے تو بنوانے والا اسے لینے کا پابند رہے گا۔ ہاں! بنانے والا وقت مقررہ پر چیز بنا کر نہ دے سکا تو بنوانے والا لینے سے انکار کر سکتا ہے۔

سامان کی وقت مقررہ پر تیاری کو یقینی بنانا
بنانے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ سامان وقت مقرر تک بنا کر دے۔ اس کے لیے بعض اوقات بنوانے والا یہ کہتا ہے کہ اگر تم نے مقررہ وقت پر چیز نہیں بنائی تو جتنی تاخیر کرو گے میں قیمت کم کر دوں گا۔ (مزید دیکھیے: اسلام اور جدید معاشی مسائل،از:مفتی محمد تقی عثمانی جلد: 5/ 156) جیسے مشین بنوانے کا معاہدہ ہوا۔ دو ماہ کی مدت طے ہوئی کہ مشین دو ماہ میں بنالی جائے گی جس کی قیمت 5 لاکھ روپے طے ہو جاتی ہے، لیکن دوسری جانب مشین بنوانے والا کسی صورت بھی دو ماہ سے زیادہ تاخیر برداشت نہیں کر سکتا، لہذا وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ مشین دو ماہ میں بہرصورت تیار ہو جائے، وہ معاہدے میں یہ بات بڑھا دیتا ہے کہ اگر تم دو ماہ میں یہ مشین بنا کر نہ دے سکے اور تاخیر کی تو ہر دن کے حساب سے قیمت میں ایک ہزار کمی کر دی جائے گی۔ اب اگر وہ دو ماہ ایک دن کے بعد مشین دیتا ہے تو اس کی قیمت اب پانچ لاکھ نہیں بلکہ 4 لاکھ 99 ہزار ہو گی۔

استصناع اور سرمائے کی فراہمی
یہ بات ذہن میں رہے کہ استصناع کا معاہدہ حقیقت میں ایک خریداری کا معاملہ ہی ہے۔ البتہ وہ چیز جو استصناع کے معاہدے میں خریدی جا رہی ہے، وہ ایسی چیز ہے جسے بنانا پڑتا ہے، لیکن اس معاہدے کو اس کی بنیادی شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے سرمائے کی ضرورت پوری کرنے اور سرمایہ فراہم کر کے نفع کمانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب استصناع کو سرمائے کی فراہمی کے ایک ذریعے کے طور پر ملاحظہ کیجیے۔اس کی چند صورتیں ہیں:

پہلی صورت
وہی صورت جس سے بات کا آغاز کیا گیا تھا۔ عارف اپنے دوست کے گاہکوں کے آرڈر خود بک کر لے۔ پھر وہ آرڈر اپنے دوست کو اپنی طرف سے دے دے۔ اس طرح گاہکوں سے معاہدے میں عارف بیچنے والا ہے اور اپنے دوست کے ساتھ معاہدے میں خریدار ہے۔ عارف کے دوست کو سرمائے کی ضرورت تھی۔ عارف کے پاس سرمایہ تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے عارف نے اپنے دوست کو سرمایہ دے دیا۔ مزید عارف آرڈر زیادہ قیمت پر بک کر کے اور آگے اپنے دوست کو کم قیمت پر آرڈر دے کر اپنا نفع رکھ لے گا جو اس کے لیے رکھنا جائز ہو گا۔ کیونکہ وہ استصناع کے معاہدے کی تمام ذمہ داریاں اور حقوق بہرحال برداشت کر رہا ہو گا۔ عارف گاہکوں کو اس چیز کے بنوانے کا جواب دہ ہے اور عارف کا دوست عارف کو وہ چیز بنا کر دینے کا ذمہ دار ہو گا۔

دوسری صورت
دوسری صورت استصناع کے ذریعے سرمائے کی ضرورت پوری کرنے اور سرمائے کی فراہمی کی یہ ہو سکتی ہے کہ عارف اپنے دوست کو موجودہ آرڈر اپنی طرف سے دے دے۔ مثال کے طور پر عارف کے دوست کے پاس 10 فرنیچر سیٹ کے آرڈر ہیں۔ جن کی قیمت فروخت 10 لاکھ ہے۔ عارف اپنی طرف سے اپنے دوست کو آرڈر دیتا ہے کہ انہی خصوصیات کے فرنیچر سیٹ مجھے تیار کر کے دو۔ پھر عارف اس فرنیچر کو آرڈر کے مطابق بیچ دے۔ اس صورت میں گاہکوں سے آرڈر استصناع کے طور پر بک نہیں کیے گئے بلکہ ان آرڈر کے مطابق مال تیار کر کے گاہکوں کو عام خریداری کے معاملے کے مطابق تیار ہونے کے بعد بیچ دیا گیا ہے۔

دیگر صورتیں
تعمیراتی معاملات میں سرمائے کی ضرورت کو بآسانی استصناع کی بنیاد پر پورا کیا جا سکتا ہے، جیسے: اگر میرے دوست کو گھر بنوانا ہے لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں اس سے نقشہ لیتا ہوں اور استصناع کا معاہدہ کر لیتا ہوںکہ میں تمہیں یہ گھر بنوا کر دے دوں گا۔ اس کی یہ قیمت ہو گی۔ دوسری جانب میں خود یا کسی کنسٹرکشن کمپنی سے وہ گھر بنوا دیتا ہوں۔ اس معاملے میں، میں کنسٹرکشن میں آنے والی لاگت سے زیادہ قیمت پر یہ گھر اپنے دوست کو بیچ کر اپنا نفع رکھ سکتا ہوں۔

اس کے علاوہ بھی استصناع کی بنیاد پر سرمائے کی فراہمی کی مختلف صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں، جیسے: مشینیں بنانے، ائیر کنڈیشن پلانٹ لگانے، سڑکیں بنانے اور دیگر پروجیکٹ بنانے کے معاہدے استصناع کی بنیاد پر لیے جا سکتے ہیں اور پھر خود کریں یا مارکیٹ سے بنوا کر دے دیں۔ اس طرح جس کے پاس سرمایہ نہیں، اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور ہم بھی اپنے سرمائے پر جائز نفع لے سکیں گے۔

جب کاروباری حضرات سے گفتگو کا موقع ملتا ہے تو ان کی زبانی یہ شکوہ سننے میں آتا ہے کہ کاروبار پھیلانے کے مواقع تو ہیں، لیکن سرمایہ نہیں ہے۔ سرمائے کی فراہمی ہمارے کاروبار کو پھیلانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب ہم میں سے کتنے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے ہم کسی جائز طریقے سے لگا کر اپنی بچت پر نفع کمانا چاہتے ہیں تو یا تو سودی معاملات سے واسطہ پڑتا ہے ورنہ ہمارے اردگرد کے افراد اسے قرض حسن کی بنیاد پر لینے کے لیے پر تول رہے ہوتے ہیں۔ جو نام سے قرض باقی عمل سے گفٹ لگتا ہے۔

ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف سود کی بنیاد پر سرمائے کی فراہمی کو ہی قابل عمل سمجھا جاتا ہے۔ شرکت و مضاربت کے نام پر طرح طرح کے بددیانتی کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اپنے کاروبار کو چلانے اور پھیلانے کے لیے ہم شریعت کے بتائے ہوئے معاہدات کو استعمال کر کے اپنی کاروباری ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ استصناع کا معاہدہ بھی ان معاہدات میں سے ایک ہے۔ اس کا ایک بنیادی تعارف پیش خدمت ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اہل علم سے معلومات اور رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

اسلامی بینکوں میں بھی اس معاہدے کو سرمائے کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم جب اپنی بزنس کی مشکلات کو دیکھتے ہیں تو بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ شاید اس معاملے کا حل شریعت میں نہیں ہے، لیکن یہ ہماری ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے لے کر آج تک ایک جماعت ایسی موجود ہے جو ناصرف ہر معاملے کے حل میں شریعت کو کافی سمجھتی ہے بلکہ ہر معاملے میں شریعت کے مطابق عمل بھی کرتی ہے۔ یہی جماعت کامیاب جماعت ہے۔ ہم بھی قدم بڑھا کر اس کامیاب جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ہم قدم اٹھائیں اللہ کی نصرت آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو مکمل دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔