ـسعید کا شمار مارکیٹ کے تجربہ کار ،سمجھدار تاجروں میں ہوتا ہے۔لوگ سعید کو دیکھ کر مارکیٹ کا رخ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ سعید کی امانت و دیانت پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں۔اس کا اپنا امپورٹ کا کاروبار ہے۔مختلف الیکٹرونک آئٹمزباہر سے منگوا کر بیچتا ہے۔بہت سے وہ آئٹمز ہوتے ہیں جو سعید خود باہر سے خریدتا ہے۔لیکن سعید کی امانت و دیانت،تجربہ اور معاملہ فہمی کو دیکھتے ہوئے مارکیٹ کے اور لوگ بھی سعید کو سرمایہ دیتے ہیںکہ آپ کو کوئی مناسب سودالگے توکرلینا۔
٭…ہمارے مالیاتی نظام میںمیوچل فنڈزوکالت کے تصور پر ہی کام کررہے ہیں۔ان میں سے جوشریعت کے معاہدات کی پاسداری کے ساتھ، مستند علمائے کرام کی زیر نگرانی کام کررہے ہیں، ان فنڈز میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے
اس موقع پر سعید کہتاہے: ’’ٹھیک ہے، میں آپ کے لئے بھی مال خرید لوں گا۔ جو تمہارے لیے خریدوں گا، وہ تمہارا ہی ہوگا اور تمہاری طرف سے ہی کام کروںگا۔ اس میں میری محنت کا صلہ صرف یہ ہوگاکہ آپ کے سودے کا دو فیصدبطور سروس چارجزوصول کروں گا۔‘‘
اس قسم کے معاملات ہماری مارکیٹوںمیں ہورہے ہوتے ہیں۔جہاں ہم کسی تجربہ کار،معاملہ فہم شخص کی خدمات حاصل کرکے کام کروا رہے ہوتے ہیں۔لیکن اس کی حیثیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ ہماری جگہ کام کررہا ہوتا ہے۔اسے ہم عام زبان میں ایجنٹ بنانا کہتے ہیں۔جبکہ فقہ کی زبان میں یہ وکالت کا معاملہ ہے۔ آئیے! آج ہم کچھ وکالت کے بارے میں سمجھتے ہیں۔ وکالت کا معاملہ کیا ہے؟ وکالت کا معاملہ کون کرسکتا ہے؟ وکالت کن کاموں کی ہو سکتی ہے؟ وکیل کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟ اصل شخص کے کیا اختیارات ہوتے ہیں؟ وکالت کا معاملہ ہماری مارکیٹوں میں کہاں استعمال ہوتا ہے؟ کیا وکالت کی بنیاد پر سرمایہ لگا یا جاسکتا ہے ؟اس صورت میں نفع ونقصان کس کا ہوگا؟ آئیے !سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
وکالت کے معنی
ڈکشنری میںوکالت کا معنی ہے: ’’اپنا کام دوسرے کو سپرد کرناـ۔‘‘ فقہ میںوکالت سے مراد ایک ایسا معاملہ ہے،جس میں ایک ایسا کام جسے آدمی خود کرسکتا ہے، لیکن وہ دوسرے کے سپر د کردیتاہے۔ اس معاملے کووکالت کہتے ہیں،جیسے: خرید و فروخت، کرایہ داری،وصولی،ادائیگی… یہ سب کام جس طرح خود کیے جاسکتے ہیں، اسی طرح دوسرے کو وکیل بنا کر بھی کروائے جاسکتے ہیں۔
وکالت کے معاملے کی ضرورت
روز مرہ کاروبار میں ایسی صورت حال پیش آجاتی ہے جہاںکسی معاملے کو کرنے کے لیے ہماری اپنی مہارت اور صلاحیت نہیںہوتی۔دوسرا شخص اس معاملے کاتجربہ رکھتا ہے۔ بہتر انداز میں کام کرسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں خود کام کرنے سے بہتر ہے کہ اس کام کے ماہر سے وہ کام کروا لیا جائے۔دوسری جانب وہ ایسا کام بھی نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ ملازم رکھ لیا جائے۔جائیداد کی خرید وفروخت،شیئرز کی خریدوفروخت،امپورٹ،ایکسپورٹ میںیہ کام عام ہے۔ عموماً جائیداد کی خریداری سے واسطہ کم پڑتا ہے۔جبکہ سودا کافی بڑا ہوتا ہے۔ایسی صورتحال میں اس کام کے ماہر افراد کی خدمات ہی لینامناسب راستہ ہوتا ہے۔
وکالت کا شرعی ثبوت
اصحابِ کہف کے واقعے میں وکالت کے معاملے کا ثبوت ملتا ہے۔جب یہ لوگ نیند سے جاگے تو قرآن بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنے میں سے ایک کو کھانا خریدنے کا وکیل بنایا(الکہف، آیت 19)اسی طرح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف مواقع پر صحابہ کرامؓ سے کام کروائے۔معلوم ہوا کہ شریعت میں وکالت کامعاملہ موجود اور ثابت ہے۔
وکالت کے بنیادی قواعد
اس معاملہ وکالت میں شریک مختلف افراد سے متعلق شرعی احکام کی تفصیل اس طرح ہے:
معاملۂ وکالت کے شرکا
وکالت کا معاملہ کرنے والے دو افراد یا پارٹیاں ہوں گی۔ایک وہ جو کام سپرد کررہا ہے، اسے ’’مُؤکِّل‘‘ کہا جاتا ہے۔دوسرا وہ جس کے سپر د کیاجارہا ہے،اسے ’’وکیل‘‘ کہا جاتا ہے۔
موکل اور وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقلمند،ذی شعور ہوں۔جسے کم عمری یا ذہنی مسائل کی وجہ سے معاملے کی سمجھ بوجھ نہیں، ان کے درمیان یہ معاملہ قرار نہیں پا سکتا۔
کام کی نوعیت
جس کام کو آگے سپرد کیا جارہا ہے، اس سے متعلق درج ذیل باتیں ذہن میں رہیں: کسی کام کو آگے سپرد کرنے لیے ضروری ہے کہ اسے خود کرنے کا اختیار ہو۔ایسا کام جسے کوئی شخص خود نہیںکرسکتا اس کے لیے وکیل بھی نہیں بناسکتا۔وکالت کی بنیاد پر وہ کا م قانونی و شرعی طور پر جائز ہونا ضروری ہے۔
جس کی تفصیل یہ ہے:
1 وہ کام وکیل کو معلوم ہو۔مثال کے طور پر اگرگھر خریدنے کے لیے وکیل بنایا ہے تو وکیل کو معلوم ہو کہ کون سا گھر یا کس قسم کا گھر خریدنے کے لیے اسے وکیل بنایا گیا ہے،اسے اس قدر معلومات ہونا ضروری ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنا کام کرسکے۔
2 وہ کام ایسا ہونا چاہئے جو شرعا وقانونادرست ہو۔یعنی کسی کو قتل کرنے کا وکیل بنانا،چوری،اغواء وغیرہ کا وکیل بنانا درست نہیںہوگا۔
3 وہ کام ایسا ہو جس میں وکالت ہو سکتی ہو۔ایسا کام جس میں وکالت نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی ادائیگی خود اسی کے ذمے لازم ہو، اس میں وکالت نہیں ہوسکتی، جیسے: نماز پڑھنے کا وکیل بنانایا گواہی دینے کا وکیل بنانا درست نہیں ہوگا۔ ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کوئی کام دوسرے کو وکالت کی بنیاد پر سپرد کیاجاسکتا ہے، جیسے:خریدو فروخت، قرض،ہدیہ اور رہن کا لین دین وغیرہ شامل ہیں۔
وکیل کی ذمہ داریاں
وکیل کے ذمہ لازم ہے کہ وہ وکیل ہونے کی حیثیت سے ان باتوں کا خیال رکھے:
1 جس نے کام سپرد کیا ہے اس کیبتائی ہوئی ہدایات کا خیال رکھے۔
2 کام دیانت کے ساتھ کرے، یعنی کام کرنے میں اپنی مکمل پیشہ ورانہ مہارتوںکا استعمال کرے۔جس نے کام سپردکیاہے اس کے ساتھ مخلص رہے۔اس کے کاروباری راز ظاہر نہ کرے۔
3 وکیل نے کام خود لیا ہے۔کام دینے والا بھی یہی سمجھتا ہے کہ وکیل خود کام کرے گا، لہذا وکیل خود کام کرے کسی اور سے نہ کروائے۔اگرکام کسی اور سے کروائے تو جس کا کام ہے اسے اطلاع بھی دے۔
وکالت کی بنیاد پر کیے گئے کام کے اثرات
وکیل نے وکالت کے معاہدے کے مطابق کوئی کام کرلیا۔کوئی معاہدہ کرلیا۔اب اس معاہدے سے متعلق حقوق اور ذمہ داریاںکون پوری کرے گا،جیسے: وکیل نے،موکل کی کوئی زمین بیچ دی۔اب اس کی قیمت کی وصولی،زمین کا قبضہ دینا،اگر اس زمین میں کوئی مسئلہ نکل آیا تو کورٹ کے معاملات ۔اس کا سامنا وکیل کرے گا یا موکل؟اس معاملے میں یہ سمجھیں کہ وہ معاہدات جن کی نسبت وکیل اپنی طرف کرتا ہے کہ میں یہ کررہا ہوں۔جیسے خریدو فروخت کے معاہدے۔ان معاہدات میں،معاہدات کی ذمہ داریاں اور حقوق کا سامنا بھی وکیل خود کرے گا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیل ہی بیچنے کے معاملے میں قیمت کے مطالبہ کا حق رکھے گا۔چیز پر قبضہ کروائے گا۔موکل ان حقوق و ذمہ داریوں کو نہیں دیکھے گا۔دوسرے وہ معاہدات ہوتے ہیں جن کی نسبت وکیل اپنی طرف نہیںکرتا بلکہ موکل کی طرف ہی کرتا ہے۔جیسے نکاح کا معاملہ ۔کسی نے اپنا نکاح کروانے کا وکیل بنایا تو اب اس نکاح کی نسبت موکل کی طرف ہوگی، لہذا نکاح کے نتیجے میں لڑکی کی رہائش،کھانے پینے کی ذمہ داری پوری کرنا موکل کے ذمہ رہے گی۔وکیل سے اس کا مطالبہ نہیںکیا جاسکتا۔
عقد وکالت کا اختتام
وکالت کا معاہدہ درج ذیل صورتوں میں ختم ہو جائے گا:
1 دونوں باہمی رضامندی سے ختم کردیں۔
2 دونوں میں سے کوئی ایک نوٹس دے کر ختم کردے۔
3جس کام کی ذمہ داری دی تھی وہ ہوگیا۔
4 جس کام کی ذمہ داری دی تھی وہ ہوناناممکن ہو گیا۔ جیسے جس چیز کو بیچنے کا وکیل بنایا تھا وہ ہلاک ہوگئی۔
5 دونوں میں سے کوئی نااہل ہوجائے یا دنیا سے چلا جائے۔
وکیل کی فیس
وکیل اپنے کام کرنے کی فیس لے سکتا ہے۔فیس کوئی ایک رقم طے کی جاسکتی ہے۔اسی طرح فیس کی ادائیگی قسطوں میں کی جاسکتی ہے۔مزید کام کی نوعیت کے اختلاف سے مختلف رقوم بھی طے کی جاسکتی ہے۔جیسے جائیداد کی خریدوفروخت میں عموما سودے کی رقم کی فیصدی رقم طے کی جاتی ہے، مثلاً: سودے کی رقم کا 2فیصد یا 3 فیصد اس طرح فیس طے کرنا بھی درست ہے۔
مارکیٹ میں وکالت کی صورتیں
بروکرز
مارکیٹوں میں مختلف لوگ ہوتے ہیں۔جن کا کام چیز خریدوانا اور بکوانا ہوتا ہے۔درحقیقت ان کے پاس مارکیٹ کی معلومات ہوتی ہیں۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں چیز کا کون بیچنے والا ہے اور کون خریدار۔اس معلومات ،ساکھ اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگوں کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
وکالت کی بنیاد پر سرمائے کی فراہمی
جس طرح مختلف کاموں کے لیے وکیل بنایا جاسکتا ہے، اسی طرح مناسب سرمایہ کاری کے لیے بھی وکیل بنایا جاسکتا ہے۔سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش،سرمایہ کاری کرنا، معاملات سنبھالنے کے لیے وکیل فیس چارج کرسکتا ہے۔ باقی سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والا نفع، نقصان اصل سرمایہ فراہم کرنے والے کا ہی ہوگا۔
ہمارے مالیاتی نظام میںمیوچل فنڈزوکالت کے تصور پر ہی کام کررہے ہیں۔ان میں سے جوشریعت کے معاہدات کی پاسداری کے ساتھ، مستند علمائے کرام کی زیر نگرانی کام کررہے ہیں، ان فنڈز میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں وکالت کے معاملات کررہے ہوتے ہیں۔آج ہم نے اس سے متعلق ضروری احکامات پڑھے۔ہم ان احکامات کو اپنی زندگی میں رائج کرنے کا عزم کریں۔یاد رکھیے! ایک مسلمان کے لیے اللہ تعالی کے نزدیک سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالی کی جانب سے دی گئی تعلیمات پر عمل کریں۔ان تعلیمات پر عمل کی بدولت ہی دنیاو آخرت کی کامیابی کا وعدہ ہے۔آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم علم بہت رکھتے ہیں،بحث بہت کرتے ہیں لیکن جب بات آتی ہے عمل کی تو بہت پیچھے۔اگر ہم اسی طرح عمل سے دور رہیں گے تو وہ وعدے جو اللہ نے مسلمانوںسے کیے ہیں کہ تمہارے لیے دنیا کی خلافت ہے۔تمہیں مزیدار زندگی دی جائے گی۔تمہیں رزق کی فراوانی دی جائے گی۔ ہر مشکل سے چھٹکارا ملے گا۔یہ سب اللہ تعالی کی نافرمانی چھوڑ کر ایک حقیقی مسلمان بننے پر منحصر ہے۔آخر ہم کب تک اللہ کی نافرمانی کرکے اللہ کو ناراض کرتے ہوئے اپنی دنیا بھی بدمزہ اور آخرت بھی کھوٹی کرتے رہیں گے۔