القرآن

خدا کی نعمتیں یاد رکھو!
اب جو یتیم ہے، تم اس پر سختی مت کرنااور جو سوال کرنے والا ہو، اسے جھڑکنا نہیں، اور جو تمہارے پرودگار کی نعمت ہے، اس کا تذکرہ کرتے رہنا۔(الضحیٰ:9-11)
تفسیر: سوال کرنے والے سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جو مالی مدد چاہتا ہو، اور وہ بھی جو حق طلبی کے ساتھ دین کے بارے میں کوئی سوال کرنا چاہتا ہو،دونوں کو جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر کوئی عذر ہو تو نرمی سے معذرت کرلینی چاہیے۔ (آسان ترجمہ قرآن:1296)

 


  الحدیث

اﷲ کو بہت نفرت ہے اس سے ۔۔۔۔۔۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''حق تعالیٰ کو تین شخصوں سے بہت نفرت ہے۔ (1) بوڑھے زنا کار سے، (2) مفلس متکبّر سے، (3) مالدار ظالم سے۔ (ترمذی شریف)

تشریح:
ہر گناہ ہی اﷲ کو ناپسندیدہ ہے اور عتاب دلانے والا ہے، اﷲ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ تاہم ایسے گناہ کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے، جس کے ظاہر ی اسباب انسان کو اس کے روکنے کے لیے کافی ہوں اور پھر بھی اس میں مبتلا ہو جائے۔


   مسنون دعا

قرض کے بوجھ سے نکلنے کے لیے

جب کوئی شخص قرض میں گرفتار ہوجائے تو یہ دعا کیا کرے: اَلَلّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ.

ترجمہ
اے اﷲ! تو مجھے اپنا حلال رزق دے کر حرام سے بچالے اور اپنے فضل و کرم سے مجھے اپنے ماسوا سے بے نیاز کر دے۔

 

القرآن

اﷲ کے ہاں دولت کی قدر و قیمت اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمام انسان ایک ہی طریقے کے (یعنی کافر) ہوجائیں گے تو جو لوگ خدائے رحمٰن کے منکر ہیں، ہم ان کے لیے ان کے گھروں کی چھتیں بھی چاندی کی بنادیتے، اور وہ سیڑھیاں بھی جن پر وہ چڑھتے ہیں، اور ان کے گھروں کے دروازے بھی، اور وہ تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں، بلکہ انہیں سونا بنا دیتے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ بھی نہیں، صرف دنیوی زندگی کا سامان ہے۔ آخرت تمہارے پروردگار کے نزدیک پرہیز گاروں کے لیے ہے۔ (33-35)

تفسیر:  بتلانا یہ مقصود ہے کہ دنیاکامال و دولت اﷲ تعالی کے نزدیک اتنی بے حقیقت چیز ہے کہ اﷲ تعالیٰ کافروں سے ناراض ہونے کے باوجود ان کے آگے سونے چاندی کے ڈھیر لگا سکتا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن: 1028)

 


  الحدیث

استغفار کی برکت سے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالی اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں، اور اسے ایسی جگہوں سے رزق عطافرماتے ہیں جن کا اس کے وہم و گمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔ (ابوداؤد: 1518)

 

  


   مسنون دعا

کسی کے ہاں دعوت پر جائے

اَلَلّٰھُمَّ اَطْعِمْ مَنْ اَطْعَمَنِیْ وَاسْقِ مَنْ سَقَانِیْ۔

ترجمہ:
اے اللہ! جس نے مجھے کھلایا تو اسے کھلا اور جس نے مجھے پلایا تو اسے پلا۔

 

القرآن

ملکیت کا احترام
کہو کہ: ’’میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے۔ اور (یہ حکم دیا ہے کہ:) ’’جب کہیں سجدہ کرو اپنا رخ ٹھیک ٹھیک رکھو، اور اس یقین کے ساتھ اس کو پکارو کہ اطاعت خالص اسی کا حق ہے۔ جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا تھا، اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے۔ (الاعراف:29)

تشریح:اس میں دوسروں کی ملکیت کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ اس احترام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ کسی کے مال یا جائیداد پر اُس کی مرضی کے بغیر قبضہ کر لیا جائے، اور یہ بھی کہ کسی کی کوئی بھی چیز اُس کی خوش دِلی کے بغیر استعمال کی جائے۔ (آسان ترجمہ:341)

 


  الحدیث
زمانہ خراب یا ہم؟

  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:زمانے کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی زمانہ ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:انسان زمانے کو برا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، حالانکہ زمانہ تو میں خود ہی ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام خیریں اور بھلائیاں ہیں اور میں ہی رات اور دن کا بدلنے والا ہوں۔(سنن الترمذی:11487)

تشریح:اصلاح احوال اور معاشرے کو بہتر رخ پر گامزن کرنے کے لیے سب سے کارگر پالیسی یہ ہے کہ اصلاح کا آغاز اپنے آپ سے کیا جائے۔ ’’لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ ،’’زمانہ خراب ہے‘‘، ’’کیا کریں حالات ہی ایسے ہیں؟‘‘ ایسی دہائیاں سراسر سادہ لوحی کی علامت ہیں۔ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی اصلاح کی طرف سب سے پہلے توجہ دے۔

القرآن

کافروں کاصدقہ
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے اللہ کے مقابلے میں، نہ ان کے مال ان کے کچھ کام آئیں گے نہ اولاد۔ وہ دوزخی لوگ ہیں، اسی میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔جو کچھ یہ (کافر)لوگ دنیوی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سخت سردی والی تیز ہوا ہو جو ان لوگوں کی کھیتی کو جا لگے جنہوں نے اپنی جانوں پرظلم کر رکھا ہو اور وہ اس کھیتی کوبرباد کر دے۔ ان پر اللہ نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (سورہ آل عمران:114تا117)

 


  الحدیث

  دعا کی عادت بنائیے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جسے پسند ہو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مشکل حالات میں اس کی دعائیں قبول فرمائیں تو اسے چاہیے کہ وہ اچھے حالات میں خوب دعائیں مانگا کرے۔(سنن الترمذی:3382)
تشریح:حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: دُعا مانگنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود شریف پڑھے، پھر اپنے لیے اور تمام مسلمان بھائیوں کے لیے مغفرت کی دُعا کرے، پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہتا ہے، مانگے۔ سب سے بڑا وسیلہ تو اللہ تعالیٰ کی رحیمی و کریمی کا واسطہ دینا ہے اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ دین کے طفیل اللہ تعالیٰ سے مانگنا بھی جائز ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فقراو مہاجرین کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے فتح کی دُعا کیا کرتے تھے۔ (مشکوٰۃ شریف ص: 477)

  


   مسنون دعا

دوران سفر ورد زبان رکھیں
جب کسی منزل یا ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹاپ پر اترے تو یہ دعا پڑھے:
’’اُعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شِرِّ مَا خَلَقَ۔‘‘
’’اللہ کے پورے کلموں کے واسطے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، اس کی مخلوق کے شر سے۔‘‘

 

ترجمہ
’’اللہ کے پورے کلموں کے واسطے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، اس کی مخلوق کے شر سے۔‘‘

 

القرآن

آج کی نیکی، کل کا سرمایہ
جوشخص کوئی نیکی لے کر آئے گا،اس کے لیے اُس جیسی دس نیکیو ں کاثواب ہے، اورجوشخص کوئی بدی لے کر آئے گا، تواس کو اسی ایک بدی کی سزادی جائے گی،اوراُن پرکوئی ظلم نہیں ہوگا۔(الانعام :160،آسان ترجمہ: 318)
فائدہ:
اس دنیا میں یہ عالم ہے کہ نیکیوں کے مواقع اتنے ہیں کہ گویا رستے میں پڑے مل جائیں۔ پھر اللہ کا فضل اس پر مستزاد ہے جو نیکیوں کو کئی کئی گنا بڑھا کر ثواب عطا کرتا ہے۔ کل قیامت کے روز انسان ایک نیکی کو ترسے گا، مگر مل کے نہ دے گی۔ سو، نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیجیے اور گناہ کے ہر موقع سے دور بھاگنے کی کوشش کیجیے۔

 


  الحدیث

تاجر عرش کے سائے تلے

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سائے میں ہو گا۔‘‘ )ترغیب:3 / (575

تشریح:
یہ منطق بظاہر سمجھ سے بالا تر ہے آپ سراسر اپنے پیٹ کی فکر میں صبح و شام سرگرداں پھریں اور اللہ آپ کا مرتبہ بڑے بڑے اولیا سے بالا تر کر دے۔ مگر یہ اللہ کا فضل ہے جو صرف ایک شرط کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ وہ شرط ہے: حلال کی بھرپور کوشش اور حرام سے مکمل اجتناب۔ کیا آپ عرش کے سائے تلے جگہ پانا نہیں چاہتے؟؟