القرآن

عصبیت کی جڑیں کاٹ دو
حقیت تو یہ ہے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس لیے تم اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔(سورۃ الحجرات:10)
فائدہ:
مسلمانوں پر ایک دوسرے کی جان ، مال ، عزت آبرو کی حفاظت بلاامتیاز فرض او رمذکور امورمیں کوتاہی سخت حرام ہے۔ اسی قانون کا نام شریعت میں اخوت اسلامی ہے۔ اس کی ضد عصبیت ہے اور وہ مسلمانوں کا قومی، لسانی، صوبائی یا خاندانی بنیادوں پر دشمنی کرنا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :جو عصبیت کی طرف بلائے وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں ، جو عصبیت پر مارا جائے وہ ہم میں سے نہیں۔

 


  الحدیث

  اللّٰہ سے جنگ کے شوقین
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سودی معاملات کا حساب کتاب کرنے والے پر اور سودی معاملے میں گواہی دینے پر لعنت فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ گناہ اور وبال میں یہ سب برابر کے شریک ہے۔(صحیح مسلم)
فائدہ:
گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے بزنس یوتھ لون اسکیم جو کہ سراسر سودی اسکیم تھی کا اعلان کیا تو ابتدائی پیشکش میں ہی درخواستوں اور فارموں کا تانتا بندھ گیا۔ سمیڈا کی ویب سائٹ سے 56لاکھ97ہزارافراد نے اسکیم کے بارے میں معلومات ڈاؤن لوڈ کیں جبکہ سمیڈا کے ٹیلیفون سنٹر میں 6115افراد نے فون کرکے معلومات حاصل کیں۔ ان میں سے سودی قرضہ کس کو ملتا ہے اور کس کو نہیں؟ مگر اس کوشش کے ساتھ ہی وہ سودی دھندے میں ملوث ہو کر اللہ کی لعنت کے مستحق بن گئے تھے۔

القرآن

’’جوشخص کوئی نیکی لے کر آئے گا،اس کے لیے اُس جیسی دس نیکیو ں کاثواب ہے، اورجوشخص کوئی بدی لے کر آئے گا، تواس کو اسی ایک بدی کی سزادی جائے گی،اوراُن پرکوئی ظلم نہیں ہوگا۔(سورہ الانعام :160،آسان ترجمہ :318)
فائدہ :یہ دنیا دارالاسباب ہے اور زندگی کا چراغ کسی بھی وقت گل ہو سکتا ہے۔ اس دنیا میں ہم اپنی آخرت کے لیے نیک اعمال کا جو کچھ توشہ جمع کر سکے، وہی کام آئے گا۔ ایک سمجھ دار تاجر اور منتظم کی طرح آنے والے وقت کی پیش بندی کے لیے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی ساماں کیجیے۔

 


  الحدیث

  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بلا ضرورت جائیداد مت بناؤ، اس سے دنیا کی محبت بڑھے گی۔‘‘ (سنن الترمذی: 313)

فائدہ:
جائیداد بنانے کا سپنا کس دل میں نہیں ، مگر بقدر ضرورت ہی اس کے لیے پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ حریف سے مقابلے اور محض حرص میں آکر اس اندھا دھند دوڑ میں شامل ہونا اللہ اور رسول کو ہرگز پسند نہیں۔ اس سے دنیا کی محبت بڑھتی ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

 


   مسنون دعا

بِسْمِ اﷲِ، الَلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ خَیْرَ ھَذِہٖ السُّوْقِ وَخَیْرَ مَا فِیْھَا، وَاَعُوْذِبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا، اَللّٰھُم اِنِّیْ اَعُوْذِبِک مِنْ اَنْ اُصِیْبَ فِیْھَا یَمِیْنًا فَاجِرَۃً اَوْ صَفَقََۃً خَاسِرَۃً۔(حصن حصین:217)

 

ترجمہ
: اﷲ کے نام کے ساتھ، اے اﷲ! بیشک میں تجھ سے اس بازار کی خیر وبرکت کا اور جو اس بازار میں ہے اس کی خیر و برکت کا سوال کر تا ہوں اور تیری پناہ لیتا ہوں اس کے شر سے اور جو اس میں ہے اس کے شر سے، اے اﷲ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے کہ کوئی جھوٹی قسم کھاؤں یا کوئی خسارہ (اور نقصان) کا معاملہ کروں۔

 

القرآن

نیکی مگر تکلیف پہنچائے بغیر
بھلی بات کہہ دینا اور درگذر کرنا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے اور اللہ بڑا بے نیاز، بہت بردبار ہے۔ ( البقرہ: 261 تا 263)
’’اللہ کے راستے میں خرچ‘‘ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ اس میں زکوۃ، صدقات، خیرات سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی سائل کسی سے مانگے اور وہ کسی وجہ سے دے نہ سکتا ہو تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کر لینا اور اگر وہ مانگنے پر اصرار کرے تو اس کی غلطی سے در گذر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دے تو دے مگر بعد میں احسان جتلائے یا اسے ذلیل کر کے تکلیف پہنچائے۔ (آسان ترجمہ قرآن :129)

 


  الحدیث

  آزمائشوں پر صبر کا اجر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’آزمائش جتنی سخت ہوتی ہے اس کا بدلہ اتنا ہی بڑا ملتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو ان کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، پھر جو اس آزمائش پر راضی رہا (یعنی صبر سے کام لیا) تو اللہ تعالی بھی اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور جو اس پر ناراض ہوا (یعنی بے صبری کا مظاہر کیا) تو اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘ (سنن الترمذی:2396)

فائدہ:
یہ دور فتنے یعنی آزمائش کا دور ہے۔ مالی، جانی، فکری اور نظریاتی فتنوں کادور۔ کوئی صحت کی وجہ سے پریشان تو کوئی سہولت کے لیے ہلکان۔ مگر ضابطہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ آزمائشیں ثواب اور بلندی درجات کا سبب ہوتی ہیں۔ دین اور نظریے سے متعلق فتنوں کا سدباب ہمیں دین اور علما کے قریب ہو کر کرنا ہو گا، جبکہ دیگر کسی پریشانی، بالخصوص کاروباری نقصانات میں اللہ تعالی کی طرف رجوع ہوں، بے صبری کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔ ورنہ دنیا تو متاثر ہوئی ہی، ثواب سے بھی محروم نہ ہو جائیں۔

 


القرآن

تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے)خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (آل عمران:92)
تفسیر: مطلب یہ ہے کہ اللہ کا حکم صرف یہی نہیں کہ اچھی چیزیں اللہ کی خوشنودی کے لیے دو،بلکہ جن چیزوں سے تمہیں محبت ہے ان کو اس کی راہ میں نکالو تاکہ صحیح معنی میں اللہ کے لیے قربانی کامظاہرہ ہوسکے۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیزیں صدقہ کرنی شروع کردیں جس کے بہت سے واقعات حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ (آسان ترجمہ قرآن:158)

 


  الحدیث

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر موت کے وقت کوئی پڑھ لے تو اس کی روح راحت و اطمینان کے ساتھ اس کے جسم سے نکل جائے گی، نیز وہ کلمہ قیامت کے دن اُس شخص کے لیے نور ہو گا۔ وہ کلمہ (لاالہ الا اللّٰہ) ہے۔‘‘(کنز العمال:151)

فائدہ:
یہ وہ گر ہے جسے اگر آپ اختیار کر لیںتو دہرا نفع کمائیں۔ آپ سفرمیں ہیں، دکان پر ہیں، آپ کے ہاتھ مصروف ہیں، اس سب کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان لاالہ الا اللّٰہ سے تر ہے تو آپ دوہرا نفع کما رہے ہیں۔آپ اس کی عادت بنائیے، ان شاء اللہ اپنی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھیں گے۔

 


   مسنون دعا

بِسْمِ اﷲِ، الَلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ خَیْرَ ھَذِہٖ السُّوْقِ وَخَیْرَ مَا فِیْھَا، وَاَعُوْذِبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا، اَللّٰھُم اِنِّیْ اَعُوْذِبِک مِنْ اَنْ اُصِیْبَ فِیْھَا یَمِیْنًا فَاجِرَۃً اَوْ صَفَقََۃً خَاسِرَۃً۔(حصن حصین:217)

 

ترجمہ
: اﷲ کے نام کے ساتھ، اے اﷲ! بیشک میں تجھ سے اس بازار کی خیر وبرکت کا اور جو اس بازار میں ہے اس کی خیر و برکت کا سوال کر تا ہوں اور تیری پناہ لیتا ہوں اس کے شر سے اور جو اس میں ہے اس کے شر سے، اے اﷲ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے کہ کوئی جھوٹی قسم کھاؤں یا کوئی خسارہ (اور نقصان) کا معاملہ کروں۔

 

القرآن

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو، وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (سورۃ البقرہ:215)
فائدہ:صدقہ وغیرہ کرنے میں سب سے اولین مستحق اپنے عزیز واقارب ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں یہ گنگا بھی الٹی بہتی ہے۔ اللہ جنہیں ہر خیرخواہی میں مقدم رکھنے کا حکم دیتے ہیں، ہمارے سب سے زیادہ جھگڑے انہی کے ساتھ ہیں۔ بہتر ہو اگر ہم صلہ رحمی کرتے ہوئے رشتہ داروں سے جھگڑے بھی ختم کریں اور ہدیے، عطیے میں انہیں یادر کھیں۔ اگر وہ صدقے کے مستحق ہیں تو انہیں سب سے پہلے یاد رکھیں۔

 


  الحدیث

 حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’خرید و فروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے) کا حق ہے جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع و مشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے اور کھرے کھوٹے ہونے کو بیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہو گی۔ اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹ بولیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم ہو جائے گی۔‘‘(الترغیب: 3 586/) 

فائدہ:
فائدہ:دھوکہ دہی کسی سے بھی ہو، بری ہے۔ اس کا اثرِ بد ہمارے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے احوال پر پڑتا ہے۔ کاروبار کی بندش،نقصان اور مسلسل تباہی کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم اپنے تمام معاملات، بالخصوص مالی معاملات کو شریعت کے مطابق بنائیں، حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ کسی عامل کے پاس جانے کی ضرورت ہے نہ ہی تعویذ گنڈے کی۔

 


   مسنون دعا

بِسْمِ اﷲِ، الَلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ خَیْرَ ھَذِہٖ السُّوْقِ وَخَیْرَ مَا فِیْھَا، وَاَعُوْذِبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا، اَللّٰھُم اِنِّیْ اَعُوْذِبِک مِنْ اَنْ اُصِیْبَ فِیْھَا یَمِیْنًا فَاجِرَۃً اَوْ صَفَقََۃً خَاسِرَۃً۔(حصن حصین:217)

 

ترجمہ
: اﷲ کے نام کے ساتھ، اے اﷲ! بیشک میں تجھ سے اس بازار کی خیر وبرکت کا اور جو اس بازار میں ہے اس کی خیر و برکت کا سوال کر تا ہوں اور تیری پناہ لیتا ہوں اس کے شر سے اور جو اس میں ہے اس کے شر سے، اے اﷲ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے کہ کوئی جھوٹی قسم کھاؤں یا کوئی خسارہ (اور نقصان) کا معاملہ کروں۔