شیلاک کا تعارف
شیلاک اس جزو ترکیبی کو کہتے ہیں جوایسے را ل دار ماد ے پر مشتمل ہوتا ہے جو گوندوالے متعدد پودوں سے نکلتا ہے۔اس کا سبب (کوکس لَیکا نامی)کیڑا ہے جو مذکورہ پودوں پر پلتا ہے۔یہ مادہ زیادہ تر ہندوستان میں پایا جاتاہے ،چنانچہ ایک مخصوص موسم کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان میں پائے جانے والے متعدد گوند دار درخت ان کیڑوں کی آماجگاہ بنتے ہیں۔ یہ کیڑے مسلسل ان درختوں کا رس چوستے رہتے ہیں اور ساتھ ہی خام شکل میں شیلاک کا مادہ

(جسے شیلاک سٹِک کہتے ہیں)خارج کرتے رہتے ہیں۔ بعد میں ان درختوں کی چھال سے شیلاک کھرچ لیا جاتا ہے، جہاں مونث لاکھ کیڑا، کیریا لاکا (Kerria lacca) اپنے جسم سے سرنگ نما ٹیوب کی شکل میں ایک ایسا مادہ خارج کرتا ہے جو درخت کی شاخوں پر پھیل جاتا ہے۔ اگرچہ ان سرنگ نما ٹیوبوں کو نو زائیدہ کیڑوں کا حفاظتی خول (Cocoon)سمجھا جاتا ہے، لیکن علم حشرات کی رو سے یہ ’’کوکون‘‘ (Cocoon) نہیں ہیں۔ اس کیڑے کا تعلق حشرات کی اس نوع کے ساتھ ہے جس میں وہ کیڑا بھی شامل ہے ۔جس سے کوچنیل رنگ نکالا جاتا ہے۔ یہ کیڑا مسلسل درخت سے رس چوستا رہتا ہے اور چپکنے والا لاکھ خارج کرتا رہتا ہے۔ سب سے ہلکے رنگ والا شیلاک اس وقت پیدا ہوتاہے جب یہ کیڑے کرسوم (kursum) نامی درخت سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔
شیلاک کاطریقہ حصول


آج کل جو جدید اجزائے ترکیبی خارجی وداخلی استعمال کی اشیا میں استعمال کیے جارہے ہیں ،ان میں سے ایک اہم جزو ترکیبی ’’شیلاک‘‘ بھی ہے۔ذیل میں ہم پہلے سائنسی حوالے سے اس جزو کا تعارف،استعمالات اور خصوصیات کا ذکر کرکے ،شرعی حوالے سے اس کے حکم سے متعلق اہل علم حضرات کی آراء کا خلاصہ مع دلائل ذکر کرتے ہیں۔

شیلاک کے500گرام کے ایک ٹکڑے کی تیاری میں تقریباً ایک لاکھ (100,000) کیڑے حصہ لیتے ہیں۔تیاری کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ درختوں سے کھرچا جانے والا خام شیلاک جس میں چھال کے ٹکڑے اور کیڑے موجود ہوتے ہیں، اسے کینوس کے ٹیوب (جوکہ لمبے موزوں کی طرح ہوتے ہیں)میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر آگ پر گرم کیا جاتا ہے۔ گرم کرنے سے شیلاک مائع حالت میں آجاتا ہے اور کینوس سے ٹپکنا شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ چھال اور کیڑے کینوس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں۔ اس گاڑھے اور چپکنے والے شیلاک کو ایک ہموار شیٹ پر خشک کر کے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنائے جاتے ہیں یا پھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں خشک کیا جاتا ہے۔ پھر تھیلیوں میں بند کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔آخری صارف اسے پیس کر سفوف بناتا ہے اوراستعمال سے پہلے اس کو ایتھائل الکوحل کے ساتھ خلط کرتا ہے، تاکہ شیلاک کے ٹکڑے حل ہو جائیں اور مائع شیلاک حاصل ہو سکے۔ (ویکیپیڈیا)
شیلاک کا استعمال
شیلاک کھائی جانے والی چیز وں میں سے ہے ،چنانچہ یہ فارماسوٹیکل گلیز یا کنفکشنری گلیز کی شکل میں گولیوں اور ٹافیوں پر چمک پیدا کرنے والے ایجنٹ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس کی ایسی تیزابی خصوصیات کی وجہ سے جو معدہ کی تیزاب سے مزاحمت کرتی ہیں شیلاک کو کور میں ڈھانپ کر مانع حمل دوا کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ شیلاک ترش پھلوں مثلاًلیموں وغیرہ کو چمکدار بنانے والے روغن کا ایک عام جزو ترکیبی ہے ۔ پھلوں کو پیک کرنے سے پہلے ان پر یہ روغن لگایا جاتا ہے، تاکہ وہ تروتازہ اور چمکدار رہیں۔اسی طرح ترش پھلوں کی شلف لائف یا سٹوریج کادورانیہ زیادہ کرنے کی غرض سے ان پر کوٹنگ کے لیے شیلاک بطور روغن بھی استعمال ہوتا ہے۔اس کو سیب کے اس طبعی روغن کی جگہ بھی استعمال کیا جاتا ہے جو صفائی کے عمل کے دوران ختم ہوجاتاہے۔جب شیلاک اس مقصد کے لیے استعمال ہوتاہے تواس وقت اس کو فوڈ ایٹو نمبر E904دیا جاتا ہے۔ شیلاک سے جیلی بھی بنائی جا سکتی ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ابال کر اس میں 75فیصد ایتھائل الکوحل ملادیا جائے۔
کاسمیٹکس
شیلاک کا استعمال کاسمیٹکس میں بھی ہوتا ہے، چنانچہ مصفیٰ شیلاک بالوں کے متعدد روغنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ،کیونکہ ماہرین کے بقول بناؤ سنگھار کی اشیا میں مصفیٰ شیلاک کا استعمال خطرات سے کافی حد تک محفوظ ہے۔ اس سے خارش نہیں ہوتی ۔ نیز یہ حساسیت بھی پیدا نہیں کرتا۔ اس وجہ سے سنگھار کا ساما ن بنانے والوں کو اکثر یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ صرف مصفیٰ شیلاک ہی استعمال کریں اور اس مقصد کے لیے شیلاک کے کسی بھی متبادل کے استعمال سے گریز کریں، کیونکہ بالوں کے لیے روغنوں کے استعمال سے جلد کے سوج جانے کی رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔
دیگراستعمالات
شیلاک ایک کثیر المقاصد جز و ترکیبی ہے ،بدن پر خارجی وداخلی استعمال کے علاوہ اس کے بے شمار استعمالات ہیں،مثلاً: مصنوعی دانتوں کی تیاری میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔نیزیہ آتشبازی میں سبز اور نیلا رنگ پیداکرنے والے ایندھن کے طورپر ،گھڑی سازی ،سائیکل سازی وغیرہ مختلف صنعتوں میں گلو(glue)کے طور پراور سیاہی (خصوصاً انڈین سیاہی)میں مختلف اجزا کو جوڑنے کے لیے (binder) کے طور پر اسی طرح بعض صنعتوں میں پگھلانے
والے گوند (hot-melt adhesive) کے طور پربھی استعمال ہوتا ہے۔ اونی ٹوپیوں کو سخت اور مزاحم آب بنانے کے لیے نیزجوتوں کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے بھی شیلاک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 

شیلاک کے شرعی حکم سے متعلق
قابلِ غور پہلو
شیلاک کے شرعی حکم سے متعلق درج ذیل دو باتیں قابلِ غور ہیں: ایک یہ ہے کہ یہ کیڑوں کی ریزش ہے اور کیڑے حضراتِ احناف سمیت جمہور مجتہدین کے قول پر مستخبثات میں داخل ہونے کی وجہ سے حلال نہیں۔ یہ بھی اصول ہے کہ جانوروں کے لعاب وغیرہ کا حکم اُن کے گوشت کے تابع ہوتا ہے، لہذا جب کیڑوں کا گوشت حضرات جمہور کے ہاں حلال نہیں تو اُن کی یہ ریزش اور لعاب بھی اصولی طور پر حلال نہیں ہونا چاہیے، یہ ایک بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کیڑوں کی ریزش سے شیلاک نامی یہ مادہ جس طریقہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ماہرین کے ذکرکردہ اس طریقے کے مطابق پودوں پر موجود ان کیڑوں کی ریزش کو جب ان پودوں سے اتارا جاتا ہے تو اس میں خود ان کیڑوں کے مردہ جسم یا ان کے اجزا بھی ضرور شامل ہوتے ہیں۔ بعد میں اگرچہ اس محلول کو فلٹر کرکے ممکن حد تک اس سے کیڑوں کے اجزا الگ کر لیے جاتے ہیں، تاہم اس کا احتمال ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کیڑوں کے اجزا اس میں رہ جاتے ہیں،اور چونکہ کیڑوں کے اجزا جمہور حضرات کے نزدیک حلال نہیں، اس لیے ان پر مشتمل اس مادے کو کھانا بھی حلال نہیں ہونا چاہیے۔