اتنی بات طے ہے کہ کیڑوں کی ریزش ناپاک نہیں، لہذا ان سے تیار ہونے والے اس جزو کو اگرخارجی استعمال کی مصنوعات میں استعمال کیاجائے تو اس میں بالاتفاق کو ئی حرج نہیں،جیسے آج کل مالٹوں اور کنّو کو چمکانے کے لیے بھی اس جزو ترکیبی کا استعمال کیا جا تاہے ۔ چونکہ مالٹے کو چھلکا اتار کے استعمال کیا جاتاہے اس لیے اس مقصد کے لیے شیلاک کے استعمال میں کسی کے نزدیک بھی کو ئی حرج نہیں۔

البتہ جن داخلی استعمال کی مصنوعات میں اس جزو کا استعمال کیا جاتاہے ،کیا ان کا استعمال بھی جائز ہے یا نہیں؟ اس بار ے میں اہل علم حضرات کے درمیان کچھ اختلاف رہاہے۔ بعض اہل علم کی رائے یہ تھی کہ داخلی استعمال کی مصنوعات میں شیلاک کا استعمال جائز نہیں۔چنانچہ سنہاساؤتھ افریقا کے فقہی پینل پر جتنے حضرات ہیں، ایک زمانے تک ان سب حضرات کا یہی موقف تھا کہ شیلاک کا داخلی استعمال جائز نہیں ۔ان حضرات کی دلیل وہی دو باتیں ہیں جو اوپر شیلاک کے قابل غور پہلووں کے بیان میں ہم نے ذکر کردی ہیں ۔یعنی ایک تو یہ کہ شیلا ک کیڑوں کے اجزاپر مشتمل ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ شیلاک کے مرکب میں اگربالفرض کیڑوں کے اجزانہ بھی ہوں تو بھی یہ ایک کیڑے کاپس خوردہ ہے اورکیڑے جب خود مستخبث( قابل نفرت) ہونے کی وجہ سے حرام ہیں توان کا یہ پس خوردہ بھی حرام ہونا چاہیے۔
سنہاساوتھ افریقا کی طرح حلال پر کام کرنے والے ایک اورمعروف برطانوی ادارے ’’حلا ل فوڈ گائیڈ سروس ‘‘ کے حضرات کا بھی شروع میں یہی موقف رہا کہ شیلاک کا داخلی استعمال جائز نہیں ۔تاہم اب ان دونوں اداروں کے حضرات نے دارالعلوم کراچی سے جاری ہونے والے ایک فتوی کی بنیاد پر اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرلیا ہے۔( فوڈ گائیڈ سروس کی ویب سائٹ پر تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے: (www.foodguide.org.com) دارالعلوم کراچی سے جاری ہونے والے فتوی میں جس تفصیل کے ساتھ شیلاک کی گنجائش دی گئی ہے، (الفاظ اور ترتیب میں کچھ تبدیلی کے ساتھ )اس کاخلاصہ درج ذیل ہے :
کیڑ ے کی ریز ش کے بارے میں یہ رائے اختیار کی گئی ہے کہ درج ذیل تین وجوہات سے کیڑے کی ریزش کا داخلی استعمال جائزہے:


اتنی بات طے ہے کہ کیڑوں کی ریزش ناپاک نہیں، لہذا ان سے تیار ہونے والے اس جزو کو اگرخارجی استعمال کی مصنوعات میں استعمال کیاجائے تو اس میں بالاتفاق کو ئی حرج نہیں،جیسے آج کل مالٹوں اور کنّو کو چمکانے کے لیے بھی اس جزو ترکیبی کا استعمال کیا جا تاہے ۔ چونکہ مالٹے کو چھلکا اتار کے استعمال کیا جاتاہے اس لیے اس مقصد کے لیے شیلاک کے استعمال میں کسی کے نزدیک بھی کو ئی حرج نہیں۔

٭کیڑے کی ریزش کی حرمت پر نص میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں ،اس کی تائید مالکیہ کے اس مسلک سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں نہ صرف کیڑے کی ریزش بلکہ خود کیڑے کو کھانا بھی جائز ہے۔
٭کیڑے کی ریزش کو اس شرط پر مکھی کے شہد پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس سے گھن محسوس نہ ہو۔ اگرچہ شیلاک کامصنوعات میں کثرت سے استعمال اس بات کی دلیل نہیں کہ لوگ اس سے گھن محسوس نہیں کرتے،کیونکہ شیلاک کے بہت سے نام ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ لوگوں کو ان مصنوعات میں اس کے استعمال ہونے کا علم ہی نہ ہویا اس سے متعلق یہ تفصیل معلوم نہ ہوکہ شیلاک کیڑے سے حاصل کی جاتی ہے۔ہاں! چونکہ یہ مصنوعات میں قلیل مقدار میں استعمال ہوتی ہے ،اس لیے اتنی قلیل مقدار سے عموماً گھن بھی محسوس نہیں ہوتی ۔
جہاں تک شیلاک میں کیڑے کے اجزا شامل ہونے کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں یہ موقف اختیار کیا گیاہے کہ چونکہ ان اجزا سے احتراز ممکن نہیں ہے، اس لیے ان کو شہد کی مکھی کے ان اجزا پر قیاس کیا جاسکتاہے ،جن سے عام طور پر شہد خالی نہیں ہوتااور شریعت نے عملی طور پر اجتناب ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ان کودفعاًللحرج (مشقت سے بچنے کے لیے)معاف قرار دیاہے۔چنانچہ اس کی تائید احکام القران میں علامہ جصاص رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت سے بھی ہوتی ہے: ’’قولہ تعالی:(یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ فیہ شفاء للناس)فیہ بیان طہارۃ العسل، ومعلوم انہ لایخلومن النحل المیت وفراخہ فیہ،وحکم اللّٰہ تعالی مع ذلک بطہارتہ، فاخبر عما فیہ من الشفاء للناس، فدل ذلک علی انہ مالادم لہ لایفسدمایموت فیہ۔(3/273)
دوسرے یہ کہ اس حکم کی تائیدحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے ،جس میں ایسی حلال چیز کو کھانے کی اجازت دی گئی ہے،جس میں کیڑا وغیرہ کوئی ایسی چیز گر کر شامل ہوجائے،جس میں خون نہ ہو۔ چنانچہ صاحب فتح القدیرنے اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا درجہ حسن درجے کی روایت سے کم نہیں ہے۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مالیس لہ دم سائل اذا مات فی الاناء فھوالحلال اکلہ وشربہ والوضوء بہ۔‘‘ حلال فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق بھی چونکہ شیلاک تیار کرنے کے لیے درختوں سے اتاری گئی چھال کو کیڑوں سمیت لمبے موزہ نماکینوس کے ٹیوب میں ڈال کر آگ پر گرم کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے شیلاک مائع حالت میں آکرکینوس سے ٹپکنا شروع ہو جاتا ہے اور کیڑے کینوس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اگرشیلاک سے کیڑے کی ریزش ہونے کی وجہ سے طبعی طور پر کراہت )استقذار (Filthy نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ بوقت استعمال اس کو الکوحل کے ساتھ نہ ملایا جائے ،کیونکہ اوپر اس کے طریقہ حصول میں ہم یہ بات لکھ آئے ہیں کہ آخری صارف اس کو مائع شکل میں لانے کے لیے اس میں الکحل ملاتاہے ،بالخصوص اگر اس سے جیلی بنانی ہوتو اس وقت تو اس میں75فیصد ایتھائل الکوحل ملایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے ہرطرح کے استعمال کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ الکحل انگور کھجور سے نہ بنایا گیا ہو، نیز اس کے داخلی استعمال کے سلسلے میں یہ بھی شرط ہوگا کہ اگر اس میں ملایا جانے والا الکحل انگور کھجور کے علاوہ ذرائع سے حاصل شدہ ہو تو وہ نشہ آور نہ ہو۔واللہ تعالی اعلم۔