یہ بات تو واضح ہے کہ ہمارے روزمرہ استعمال کی اشیا میں حرام، ناپاک اور مشکوک اجزا استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان میں کھانے، پینے، پہننے اور لگانے کی مختلف اشیا مثلاً بیکری آئٹمز Bakery items))، کولڈڈٖرنکس، فاسٹ فوڈ (Fast food) اور کاسمیٹکس وغیرہ شامل ہیں۔ جانچ پڑتال کا کوئی باقاعدہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اپنی مصنوعات کی تیاری میں حلال ذرائع سے حاصل کردہ اجزا کے استعمال کا اہتمام کرتے ہیں اور عوام کی ایک بڑی کثرت بیرونی ممالک سے آنے والی مشکوک مصنوعات کا بے دھڑک استعمال کر رہی ہے۔ ان حالات میں علما کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حلال و حرام کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔

البتہ علما کرام کے لیے کسی بھی متعین مصنوع کے بارے میں حلال و حرام کا حتمی حکم لگانا اس لیے مشکل ہے کہ زیادہ تر مشکوک اجزائے ترکیبی حلال و حرام دونوں ذرائع سے حاصل کیے جاتے ہیں اور تجارتی کمپنیاں بھی تحقیق کے میدان میں ذرائع کی حد تک معلومات دینے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ اسی لیے قارئین سے التماس ہے کہ مصنوعات پر لکھے ہوئے اجزائے ترکیبی کو پڑھیں اور جن مصنوعات میں کوئی مشکوک جزو استعمال کیا گیا ہو تو اصولی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے استعما ل سے اجتناب برتیں۔ ذیل میں بھی ایسے ہی ایک مشکوک جزو ’’اولیک ایسڈ‘‘ کا تعارف، ماخذ، استعمال اور شرعی حکم بیان کیا گیا ہے۔


٭…اجزا ئے ترکیبی کو پڑھیں اور مشکوک جزو کے اصولی حکم کو سامنے رکھ کر اس کے استعمال سے اجتناب برتیں ٭…اولیک ایسڈ ایک بے رنگ اور بے بو تیل ہے، اگرچہ تجارتی نمونہ زردرنگ کا ہوتا ہے ٭…اولیک ایسڈ اگر پودوں یا حلال اور شرعی طریقے سے ذبح شدہ جانوروں سے ماخوذ ہو تو بلا شبہ حلال اور پاک ہے ٭


تعارف(Introduction)
اولیک ایسڈ جانوروں اور پودوں سے بننے والے تیل میں فیٹی ایسڈ (Fatty acid) کی ایک مثال ہے۔ ایک ڈبل بانڈ کی موجودگی کی وجہ سے مونو ان سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ (Monounsaturated fatty acid)ہے۔ یہ ایک بے رنگ اور بے بو تیل ہے اگرچہ تجارتی نمونہ زردرنگ کا ہوتا ہے۔ اس کا مالیکیولر فارمولا C18H34O2 ہے۔ فیٹی ایسڈ توانائی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ جو جسم کو مختلف افعال سرانجام دینے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

تاریخ اور اصل (Origin & History)
اولیک ایسڈ نام کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس کا زیتون سے تعلق ہے یا یہ زیتون سے حاصل کردہ ہے۔ یہ گری دار میوؤں کی بہت سی اقسام میں پایا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں اولیک ایسڈ علاج میں ضروری تھا۔ اس کے قدرتی ذرائع، مثلاً: زیتون اور محتلف گری دار میوے ایک متوازن غذا کا حصہ سمجھے جاتے تھے اور یہ جلد کے امراض کے علاج میں اور معدہ کی بیماریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

جدید دور میں اولیک ایسڈخون کے کولسٹرول اور بلڈپریشر کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ خون کی وریدوں اور شریانوں میں موجود ذرات کو ہٹا کر صحت مند خون کے بہاؤ کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اولیک ایسڈوزن میں کمی کے لیے ایک ممکنہ علاج ہو سکتا ہے۔ اولیک ایسڈ میں انٹی آکسیڈینٹ (Antioxidant) کی ایک کثیر مقدار ہوتی ہے جو جسم سے زہریلے ذرات نکالنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ خلیا ت میں قبل از وقت عمر کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور مدافعاتی نظام میں اضافہ کرتا ہے۔ ذہنی اور اعصابی ٹرانسمیشن کی رفتار میں اضافے کے لیے اولیک ایسڈکی صلاحیت کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ یہ قلبی صحت میں بھی اضافہ کرتا ہے اور دمہ (Asthma) کی علامات کو کم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے اورسانس کو بڑھاتا ہے۔

اولیک ایسڈکا کیڑوں کی دنیا میں کردار (Role in insect world)
شہد کی مکھیاں اور چیونٹیاں وغیرہ کالونی کی شکل میں رہتی ہیں۔ وہ سائنسدان جو شہد کی مکھیوں یا چیونٹیوں کی کالونیوں کا مطالعہ کرتے ہیں انہوں نے دریافت کیا ہے کہ اولیک ایسڈ کا اخراج کالونی کے اراکین کو موت یا خطرات کی نشاندہی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بہت سی مکھیاں اور چیونٹیاں ایک خاص قسم کا ایسڈ خارج کرتی ہیں جسے پیرومون (pheromone) کہتے ہیں۔ یہ ایک ہارمون (Harmone) ہے جو اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ جب یہ مرتے ہیں تو ان کی لاشیں دوسروں کو آگاہ کرنے کے لیے پیرومون خارج کرتی ہیں۔ کیڑے کچھ کھا نے کی وجہ سے یا کسی اور خطرے کی وجہ سے مر گئے ہوں تو اولیک ایسڈ کی بو دوسرے کیڑوں کو دور رکھنے کے لیے ایک آلارم (Alarm) کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دوسر ے اراکین کے لیے ایک سگنل بھی ہوتا ہے کہ آ کر لاش کو اُٹھا لیا جائے۔

ماخذ (Sources)
مختلف پودوںاور ان کے تیل و روغن، مثلاًزیتون، مونگ پھلی، کاجو، بادام وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے جانوروں مثلاً: بھیڑ، بکری، خنزیر اور مرغی میں پایا جاتا ہے۔

استعمالات (Uses)
کاسمیٹکس میں استعمال (Use in cosmetic)
اولیک ایسڈ کاسمیٹکس میں ایک فعال جزو ہے اور ہموار اور کار آمدجلد فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اولیک ایسڈ میں موجود چربی کی زیادہ مقدار جلد کو تر رکھتی ہے۔ کاسمیٹکس کمپنیوں کی بہت بڑی تعداد جلد کی پرورش کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے اسے لوشن اور صابن میں شامل کرتی ہیں۔ عام طور پر معیاری لوشن اور کریمز کی طرح صرف جلد کے اوپر رہنے کے بجائے اولیک ایسڈ اکثر جلد کی بالائی تہہ میں جذب ہو کر جلد کو طویل پائیدار اور زیادہ نم رکھتا ہے۔

طبی استعمال (Medical use)
اولیک ایسڈ جوڑوں کے درد کے علاج میں جوڑوں کی سوجن اور سرُخی کو دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بہت سے لوگوں نے اولیک ایسڈکے سپلیمنٹس کے استعمال پر جوڑوں کے افعال میں خاطر خواہ اضافہ اور بہتری دیکھی ہے۔ کولیسڑول کو کم کرنے کے لیے علاج معالجے کا حصہ ہے۔ طبی ماہر یا مریض کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیپسول کی شکل میں شروع کیا جاتا ہے یا پھر مریضوں کو صرف ان کی غذا میں زیادہ قدرتی ذرائع شامل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

غذائی استعمال (Nutritional Use)
اولیک ایسڈ کا غذائی استعمال چٹنیوں، سلاد اور ترکاریوں وغیرہ میں ایک اہم جزو کے طور پر ہوتا ہے۔ ضمنی اثرات اور صحت کے ممکنہ خدشات (Potential side effects and health concerns) قدرتی طور پر پائے جانے والے کسی کمپاؤنڈ (Compound) کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا کسی بھی درجے کا استعمال محفوظ ہے۔ اکثر قدرتی ذرائع میں پائی جانے والی مقدار محفوظ تصور کی جاتی ہے۔ زیادہ تر مسائل اس وقت پیش آتے ہیں جب لوگ اپنی ذاتی تشخیص پر فیٹی ایسڈ کیپسول استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ زیادہ استعمال دراصل صحت کے منفی نتائج رکھتا ہے۔ بہت سے پیشہ وارانہ طبی ماہر اس یا اس جیسی دوسری سپلیمنٹس کو خوراک میں شامل کرنے والے حضرات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور تربیت یافتہ ماہر کے مشورے کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ شرعی حکم (Shariah Status)

٭- اولیک ایسڈکا اصولی شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ پودوں یا حلال اور شرعی طریقے سے ذبح شدہ جانوروں سے ماخوذ ہوں تو یہ بلا شبہ حلال اور پاک ہیں اور اگر یہ حرام یا حلال لیکن غیر شرعی طریقے سے ذبح شدہ جانوروں سے ماخوذ ہوں تو حرام اور ناپاک ہیں۔ البتہ اگر تبدیلِ ماہیت ثابت ہو جائے تو ان کو بھی حلال اور پاک قرار دیا جائے گا، لیکن چونکہ اس کا ثابت کرنا انتہائی مشکل اور مختلف فیہ ہے۔ اس لیے ایسے ذرائع سے ماخوذ اولیک ایسڈ کے استعمال سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔

٭- اگر متعین طور پر یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کسی مصنوع (پروڈکٹ) میں استعمال کردہ اولیک ایسڈ حلال ذرائع سے لیے گئے ہیں یا حرام سے تو ایسی صورت حال میں گمان غالب کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اگر ظن غالب یہ ہو کہ ان کا ماخذ حلال ہے تو ان کو حلال اور پاک سمجھا جائے گا اور ان کو حرام یا نا پاک قرار دینے کے لیے یقینی دلیل کی ضرورت ہو گی اور اگر ظن غالب یہ ہو کہ ان کا ماخذ حرام ہے تو انہیں حرام اور ناپاک سمجھا جائے گا اور انہیں حلال یا پاک قرار دینے کے لیے ٹھوس دلیل کی ضرورت ہو گی۔ ہماری اب تک کی معلومات کی روشنی میں آج کل اولیک ایسڈ اکثر و بیشتر پودوں سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس پر ظن غالب کا مذکورہ قاعدہ لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص تقوی کی بنیاد پر ایسے مشبوہ اولیک ایسڈکے استعمال سے اجتناب کرے تو یہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔