فوائد
ایل سسٹئین کے متعدد فوائد ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: ٭ یہ خوراک میں مو جود غذائی اجزا (Nutrients) بالخصو ص چربی اور روغنیات کو صحیح طور پر ہضم کرنے اور پروٹینز کے بننے میں مدد دیتا ہے
٭ اس سے بیماریوں کے خلاف قدرتی مدافعتی نظام (Immune System)کو تقویت ملتی ہے اور مختلف بیماریوں جیسے جوڑوں

کے ورم (Arthritis)، ذیابیطس، دل کی وریدوں کی بعض تکالیف، موتیا (Cataract)، Parkinson's نامی عصبی بیماری، آنتوں کے متعدد امراض، بڑھاپے یا بیماری کے سبب پیدا ہونے والے جنون (Dementia) اور پٹھوں کی سختی (Sclerosis) وغیرہ کے علاج اور ان کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ نیز اگر جسم میں ''اسیٹا مینافِن (Acetaminophen) '' یا دوسرے الفاظ میں پیرا سیٹا مول کی مقدار بڑھ جائے تو اس کے منفی اثرات کو زائل کرنے میں بھی ایل سسٹئین اہم کردار ادا کرتا ہے۔


اللہ تعالی نے انسان کو جو شرف بخشا ہے۔ اس کی بنا پر انسانی بال اور اس سے ماخوذ ایل سسٹئین کا خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں

٭ یہ بڑھاپے کے اثرات کو کنٹرول کرنے، چربی کو کم کرنے، پٹھوں کو مضبوط کرنے اور جلنے کے سبب پیدا ہونے والے زخموں کو مندمل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ایل سسٹئین کے مذکورہ بالا فوائد اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اسے مستند ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی زیادہ مقدار نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ہاں! ایسی غذائیں متوازن مقدار میں استعمال کی جا سکتی ہیں، جو قدرتی طریقے سے اس کی کمی دور کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایل سسٹئین ان تمام غذائی اشیا میں پایا جا تا ہے، جن میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، جیسے: گوشت، انڈا، دودھ، دہی، سورج مکھی کا بیج، سویا بین، اخروٹ اور لہسن، پیاز، گوبھی، وغیرہ۔
شرعی تعلیمات
1 اللہ تعالی نے انسان کو جو شرف بخشا ہے۔ اس کی بنا پر انسانی بال اور اس سے ماخوذ ایل سسٹئین کا خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں۔
2 خنزیر کے بالوں، کھر یا کسی بھی دوسرے حصے اور اس سے ماخوذ ایل سسٹئین کا بھی خریدنا، بیچنا اور استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں، کیونکہ خنزیر نجس العین ہے۔ ہاں اگر اس سے ماخوذ کسی جزو ترکیبی میں انقلاب ماہیت ثابت ہو جائے تو حکم بدل جائے گا، لیکن اس کا ثابت کرنا انتہائی مشکل اور مختلف فیہ ہے۔ اس لیے حرام اور نجس اشیا سے ماخوذ اجزائے ترکیبی کے استعمال سے ہمیشہ اجتناب ہی کرنا چاہیے۔
3 بطخ کے پروں اور گائے کے سینگوں سے ماخوذ ایل سسٹئین حلال اور پاک ہے، لہٰذا اس کی خریدو فروخت اور استعمال جائز ہے۔ بیکٹیریا اور مصنوعی ذرائع سے تیار کردہ ایل سسٹئین میں اگرواقعتاً کوئی حرام اور ناپاک چیز نہیں ڈالی جاتی تو یہ بھی حلال اور پاک ہے۔
4 جس ایل سسٹئین کا حتمی ماخذ (Exact Source) معلوم نہ ہو، اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہاں ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں مختلف جانوروں اور انسانوں کے بالوں کا ایل سسٹئین کے علاوہ دیگر مقاصد، مثلاً وِگ لگانے اور برش بنانے کے لیے بھی استعمال جاری ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں اس کا کاروبار بڑے زور شور سے ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے FAO کے مطابق: 2010ء میں دنیا بھر میں 59 ہزار 3 سو 94 ٹن بال برآمد کیے گئے۔ اس معاملے کا افسوس ناک ترین پہلو یہ ہے ہمارے پاکستانی تاجر بھی شرعی احکام سے غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے اس ناجائز کاروبار میں ملوث ہیں، چنانچہ2008ء میں 3 ہزار 89 ڈالر، 2009ء میں 20 ہزار 3 سو 1 3 ڈالر، 2010ء میں 53 ہزار 6 سو 45 ڈالراور 2011ء میں 4 لاکھ 31 ہزار 1 سو 41 ڈالر مالیت کے انسانی بال پاکستان سے بیرونِ ملک فروخت کیے گئے۔ (بحوالہ:Index Mundi)
بہت بڑی مقدار تو مقامی انڈسٹریز میں بھی مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہو گی۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے انسانیت کی توہین وتذلیل پر مبنی یہ مکروہ و ناجائز دھندا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہماری عوام سے درخواست ہے کہ خدارا اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کیجیے۔ اگر حکومتی ادارے اس طرف توجہ نہیں دے رہے تو عوام اتنا تو کرسکتے ہیں کہ کم از کم اپنے بالوں کو اس ناجائز کاروبار کا حصہ نہ بننے دیں۔ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔