رینٹ ایک ڈیری پروڈکٹ ہے جو تازہ دم بچھڑے کے معدے میں موجود دودھ سے تیار کی جاتی ہے پرانے زمانے میں اس سے پنیر بنائی جاتی تھی، آج کل یہ بہت سی مصنوعات میں استعمال ہونے لگا ہے
آج کل جو قابل غور اجزائے ترکیبی کثرت سے استعمال ہونے لگے ہیں۔ ان میں ایک رینٹ (انفخہ) بھی ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم ’’انفخہ‘‘ کا مختصر تعارف، بنانے کا طریقہ اور اس سے متعلق فقہائے کرام کی آراء مع دلائل ذکر کرتے ہیں۔

رینٹ کا تعارف:
رینٹ ایک ڈیری پروڈکٹ ہے جو تازہ دم بچھڑے کے معدے میں موجود دودھ سے بنایا جاتا ہے۔ اس کو بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب گائے کا بچھڑا دودھ پی لیتا ہے تو اس کو ذبح کر کے اس کے معدے میں سے وہ دودھ نکال لیا جاتا ہے۔ اسی معدے سے نکالے ہوئے دودھ کو انگریزی میں رینٹ اور عربی میں ’’انفخہ‘‘ کہتے ہیں۔ پرانے زمانے میں اس سے پنیر بنائی جاتی تھی، آج کل یہ بہت سی مصنوعات میں استعمال ہونے لگا ہے۔
رینٹ کا شرعی حکم:
رینٹ کے شرعی حکم میں ائمہ کرام کا اختلا ف ہے، چنانچہ اس حوالے سے دو مشہور موقف ہیں۔ ذیل میں ہم یہ دونو ں موقف دلائل سمیت ذکر کرکے اس سلسلے میں راجح قول کی تعیین کی کوشش کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف:
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حلال جانور کے بچھڑے کے معدے سے جو دودھ یا رینٹ حاصل کیا جائے وہ مطلقاً پاک اور حلال ہے، یعنی ایسا بچھڑا اپنی موت آپ مرا ہو یا اس کو ذبح کیا گیا ہو، نیز ذبح کرنے والا مسلمان اور کتابی ہو یا غیر مسلم، بہر حال بچھڑے کے معدے سے نکالا گیا دودھ ناپاک اور حرام نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت بھی امام صاحب کے مطابق ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:نجاسۃ لبن المیتۃ)
حضرات جمہور کاموقف:


رینٹ ایک ڈیری پروڈکٹ ہے جو تازہ دم بچھڑے کے معدے میں موجود دودھ سے تیار کی جاتی ہے پرانے زمانے میں اس سے پنیر بنائی جاتی تھی، آج کل یہ بہت سی مصنوعات میں استعمال ہونے لگا ہے

حضرات صاحبین، امام شافعی، امام مالک رحمہم اللہ کا مسلک اور امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت یہ ہے کہ رینٹ اگر حلال مذبوحہ جانور کے معدے سے حاصل کیا گیا ہو تو وہ پاک اور حلال ہے ورنہ اگر مردار یا غیر کتابی غیر مسلم کے مذبوحہ جانور سے حاصل کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں یہ مطلقاً ناپاک اور حرام ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:نجاسۃ لبن المیتۃ)
بعض حضرات نے اس میں یہ تفصیل بھی فرمائی ہے کہ اگر دودھ بچھڑے کے معدے میں جم گیا ہو تو اس کو دھو کر استعمال کیا جا سکتا ہے، اگر دودھ ابھی جما نہ ہو بلکہ سیال شکل میں ہو تو وہ ناپاک ہے لہذا اس کا استعمال جائز نہیں۔
جمہور حضرات کے دلائل:
پہلی دلیل: جمہور ایک تو حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان آثار سے استدلال فرماتے ہیں، جن میں یہ آتا ہے کہ ان حضرات نے اس’’جبن‘‘ یعنی پنیر کو کھانے سے منع فرمایا۔ جس میں ایسا رینٹ (انفخہ) استعمال ہوا ہو جو مردار یا مجوسیوں کے ذبح کردہ جانور کے معدے سے حاصل کیا گیا ہو۔ ان حضرات کے آثار مجمع الزوائد اور سنن کبریٰ بیہقی وغیرہ میں منقول ہیں۔ چنانچہ سنن کبریٰ میں علامہ بیہقی نے ’’باب مَا یَحِلُّ مِنَ الْجُبْنِ وَمَا لا یَحِلُّ‘‘ قائم کر کے اس کے ذیل میں
ایسی کئی روایات نقل فرمائی ہیں، مثلاً:
٭ ثور بن قدامہ کہتے ہیں ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ تم صرف وہ پنیر کھایا کرو جو اہل ِ کتاب کا بنایا ہوا ہو۔ ٭ قیس بن سکن کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: تم وہ پنیر کھاؤ جو مسلمانوں اور اہلِ کتاب نے تیار کیا ہو۔
٭ ابو مسعود انصاری سے مروی ہے آپ نے فرمایا : اگر میں اس محل سے گر پڑوں تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ ایسا پنیر کھاؤں جس کے بارے میں تحقیق نہ کروں۔
٭ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پنیر کے بارے میں تحقیق کیا کرتے تھے اور گھی کے بارے میں نہیں پوچھا کرتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی وفی ذیلہ الجوہر النقی10/ 6)) دوسری دلیل: امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ جمہور حضرات کی قیاسی دلیل یہ ہے کہ اگر بچھڑا مردار ہو جائے یا مجوسی وغیرہ ایسا شخص اس کو ذبح کرے جو ذبح کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کی وجہ سے اس جانور کے تمام اعضا نجس ہو جائیں گے اور معدہ بھی ناپاک اور نجس ہوجائے گا، لہذا اس میں موجود دودھ بھی ناپاک اور نجس قرار پائے گا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہو گی جیسے پاک دودھ کو ناپاک برتن میں ڈال لیا جائے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے، چنانچہ موسوعہ کویتیہ میں یہی فرمایا گیا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:نجاسۃ لبن المیتۃ)
پنیر کھانے سے متعلق روایات کا جمہور کی طرف سے جواب:
چونکہ روایات میں صحابہ کرام اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے پنیر کا کھانا ثابت ہے جومجوس کے علاقوں میں تیار ہو تا تھا۔ جیسا کہ آگے امام صاحب کے دلائل میں اس کی تفصیل آ رہی ہے۔ اس لیے اس کا جواب دینے کے لیے جمہور حضرات نے ایک تو ایسی روایات کو ابتدائے اسلام کے زمانے پر محمول کیا ہے، گویا ان کو منسوخ قرار دیا ہے۔ دوسرے ان میں سے بعض حضرات نے اس پنیر کی حلت کی وجہ ’’القلیل مغتفر‘‘ کوبھی قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے بقول اس پنیر میں ڈالے جانے والے انفخہ کی مقدار انتہائی قلیل ہوتی تھی۔ جیساکہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس دلیل کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (دیکھیے:تفسیر قرطبی: 220 اورتفسیر ابن کثیر: (1/ 481
رینٹ کی حلت پر امام صاحب رحمہ اللہ کے دلائل:
رینٹ کی علی الاطلاق حلت پر امام صاحب رحمہ اللہ کا بنیادی استدلال ان روایات و آثار سے ہے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسے پنیر کو استعمال کرنا منقول ہے جو مجوسیوں کے علاقے سے درآمد شدہ ہوتا تھا۔ اس وقت یہ بات معروف تھی کہ مجوس اس کی تیاری میں ’’انفخہ‘‘ یعنی رینٹ کا استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں’’باب اکل الجبن‘‘ قائم کر کے اس کے ذیل میں ایسی کئی روایات نقل فرمائی ہیں جن میں اس کی تصریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس غزوہ تبوک یا غزوہ طائف میں پنیر لایا گیا اور یہ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم یہ ایسی کھانے کی چیز ہے جسے مجوسی تیار کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اس پر اللہ کا نام لو اور کھا لو۔
بعض روایات میں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھری منگوا کر اللہ کا نام لیا اور اس کو کاٹ دیا۔ ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پنیر کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پنیر دودھ سے بنتا ہے، لہذا اسے کھا ؤ اور اس پر اللہ کا نام لواور تمہیں دشمنان خدا دھوکے میں نہ ڈال دیں۔ ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے :’’ جب تم پنیر کھانا چاہو تو اس میں چھری رکھو، اور اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔‘‘ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی ایک روایت منقول ہے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک خاتون نے پنیر کا حکم پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اگر تو اسے نہیں کھاتی تو مجھے دے دے، میں کھا لوں گی۔ اسی طرح حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہاسے بھی منقول ہے آپ رضی اللہ عنہا نے پنیر کے بارے میں فرمایا: اسے اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ (ان روایات کے لیے ملاحظہ ہو: سنن کبری بیہقی: (10/ 6
ان روایات کی وجہ سے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ’’انفخہ‘‘ کی علی الاطلاق حلت کا قول خلاف قیاس فرمایا ہے، یعنی امام صاحب رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں ان روایات کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا ہے۔ جیساکہ بہشتی زیور میں حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے امام صاحب کے مسلک کی یہی توجیہ فرمائی ہے۔مگر بعض دوسری عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی مسئلے میں امام صاحب رحمہ اللہ نے قیاس سے بھی استدلال فرمایا ہے،چنانچہ اس مسئلہ میں امام صاحب رحمہ اللہ کی عقلی دلیل بھی بہت سے حضرات نے ذکر فرمائی ہے۔ ذیل میں یہ دلیل ملاحظہ ہو۔(جاری ہے)