سوشل ازم کے بعد سرمایہ داریت بھی جاں بلب ہے۔ انڈیا میں دنیا کی سب سے بڑی ہڑتال ہوتی ہے۔ ظلم و ستم کی چکی میں پستے پرولتاریہ نے بغاوت کردی۔ دس کروڑ ملازم، نوکر اور ورکر سڑکوں پر آگئے۔ دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑی ہڑتال کہیں نہیںدیکھی گئی۔ آپ سویٹزر لینڈ کو دیکھیں۔ امیر اور غریب کے درمیان حائل خلیج اتنی گہری ہوئی کہ پاٹنا مشکل ہوگیا۔ ملک میں شور بپا ہوا کہ دوکانیں نت نئی مصنوعات سے بھری ہیں مگر خریدنے کے لیے پیسے موجود نہیں۔

غریب متحد ہوئے اور مطالبہ کیا کہ ہر ہر شہری کے لیے بنیادی تنخواہ مقرر کی جائے۔ نوجوان چیخ اٹھے :’’کیا ہماری محنت اسی لیے ہے کہ چند سرمایہ داروں کے اکائونٹس دولت سے بھرتے چلے جائیں۔‘‘ مہم شروع ہوئی اور سوا لاکھ سے زائد لوگوں نے دستخط کردیے۔ سیاسی پارٹیاں کہتی ہیں کہ ہرہر شہری کو کم از کم 2500 ڈالر ماہانہ دیے جائیں۔ دنیا بھر میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے فرق نے سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کردیا ہے۔ مفکرین ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس بار کون سا نظام دنیا کو معاشی تباہی سے بچا سکتا ہے؟

کمیونزم یا مارکس ازم کے ہرکارے ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں، لیکن یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح سرمایہ دارانہ نظام دنیا کو معاشی تباہی سے نہیں بچا سکا، ایسے ہی کارل مارکس کے نظریات بھی ناکام ثابت ہوں گے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مارکسی نظریات واضح طور پر فطرت کے خلاف جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ جس مارکس ازم کا نعرہ لگایا جارہا ہے اس کی بنیادیں اختلاف، جنگ اور بدامنی پر کھڑی ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترقی کا سفر تباہی سے ہی شروع ہوتا ہے۔ طبقاتی جنگ کو دنیا کی اٹل حقیقت مان لیا گیا۔ کارل مارکس، اینگلز اور لینن نے دنیا پر ثابت کیا کہ طبقاتی جنگ کے بغیر انسانیت کی ترقی کا سفر شروع نہیں ہوسکتا۔ اس دعوے کا واضح مطلب یہ ہوا کہ مارکس ازم کو غلبہ حاصل کرنے کے لیے سخت جنگ لڑنا ہوگی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق کمیونسٹوں نے بیسویں صدی میں تقریباً 10 کروڑ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ (The black book of Communism)

مارکس ازم کے لیے یہ جنگ ضروری بھی ہے۔ اس لیے کہ مارکس ازم کا دعوی ہے کہ لوگوں کی انفرادی ملکیت ختم کی جائے گی۔ سامنے کی بات ہے کہ جب کسی بھی شخص کو اس کی زمین یا اثاثے سے محروم کریں گے تو وہ بھرپور مزاحمت کرے گا۔ پھر مارکسی کسی بھی اخلاق، مذہب یا نظریے کے پابند نہیں ہیں۔ مارکسسٹ ہر اس چیز کو اخلاق سمجھتا ہے جو مزدوروں کی حکومت قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہر اس عقیدے کو جڑ سے اکھیڑ پھینکتا ہے جو پرولتاری یا مزدور حکومت کے راستے میں رکاوٹ ہو۔

مارکسیت نے غریبوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے ’’نظریہ قدر زائد‘‘ بھی پیش کیا۔ کہا گیا کہ کسی بھی چیز کی قیمت وہ محنت ہے جو اسے بنانے پر خرچ کی گئی۔ لہذا ہر چیز کو بیچ کر جو قیمت ملتی ہے اس کا جائز حق دار صرف اور صرف وہ مزدور ہے جس نے محنت کی ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کمپنی مالک مزدوروں کا استحصال کرتا ہے، جبکہ کمیونزم میں یہی کارنامہ حکومت سرانجام دیتی ہے۔

کارل مارکس کا دعوی ہے کہ انسان صرف مادیت پرست ہے۔ انسان میں صداقت، انصاف پسندی اور عدالت جیسی اچھی عادتیں پرورش نہیں پاسکتیں۔ اس کی زندگی کا مقصد لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی اور چالاکی و عیاری سے دولت سمیٹنا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ دنیا کا ہر انسان سراپا شر ہے۔ وہ اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی حد کو پار کرسکتا ہے۔ یہ بات چند لوگوں کی حد تک تو ٹھیک ہوسکتی ہے مگر ساری انسانیت پر یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اگرچہ لوگوں کی طبیعت پر شر کے اثرات ہیں مگر خیر بھی ہر جگہ موجود ہے۔ خالص سرمایہ دارانہ معاشروں میں بھی وارن بفے، بل گیٹس اور دیگر ارب پتی تاجر اپنی دولت کا بڑا حصہ غریبوں کے لیے وقف کررہے ہیں۔ ایک مغربی مفکر’’ شین‘‘ نے بہت عمدہ بات کہی: ’’جن اقدار کو سرمایہ داری پرچون کے بھائو بیچتی ہے، انہیں سوشلسٹ نظام تھوک کے بھائو فروخت کرتا ہے۔‘‘