آج امام غزالی کو گزرے ایک ہزار سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ ایک طالب علم تھے۔ انہوں نے 200 کے لگ بھگ کتابیں لکھیں۔ ان کے انتقال کے بعد لکھے گئے صفحات کا اندازہ لگایا گیا تو تقریباًانہوں نے روزانہ ایک کاپی تصنیف کی تھی۔ مگر ان کی لیڈر شپ کا میدان صرف یہ نہیں تھا۔ ان کی قیادت کے جوہر صلیبی جنگوں، عباسی خلافت اور مسلم بازنطینی جنگ کے دوران ظاہر بھی ہوئے۔ آج کا مؤرخ یہ لکھتا ہے کہ اگر غزالی نہ ہوتے تو شاید عماد الدین زنگی صلیبیوں کے خلاف میدان میں نہ اترتے۔ اگر عماد الدین زنگی جہاد نہ کرتے تو نورالدین زنگی کی ترک تازیاں دیکھنے کو نہ ملتیں، اور اگر زنگی نہ ہوتے تو صلاح الدین ایوبی کا نام بھی کوئی نہ جانتا ہوتا۔
امریکا کے دل واشنگٹن ڈی سی میں ایسا واقعہ ہونا کسی قومی سانحے سے کم نہیں تھا۔ اسٹاربکسیہ ہوتی ہے لیڈر شپ۔ تاریخ کا رخ موڑ دینے والوں کی آج کمی ہے۔ لیڈر شپ کا موضوع دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ دنیا کا ہر شخص لیڈربننا چاہتا ہے، اپنے مسائل حل کرنا چاہتا ہے اورزوال سے نکلنا چاہتا ہے۔ بلاشبہ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں قیادت کا بحران ہے۔ کسی بھی کمپنی، ادارے، ملک اور قوم کا لیڈر ہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف 23 سال میں آنے والی صدیوں کا رخ بدل دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف 10 سال میں روم اور فارس جیسی سپر پاورز کو شکست دے کر مسلمانوں کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنادیا۔ عرب محقق طارق سوید کہتے ہیں: دنیا میں صرف 2 فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جو پیدائشی قائد ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت عمرو بن عاص کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یہ شخص دنیا میں صرف لیڈر بننے کے لےے پیدا ہوا ہے۔ جبکہ صرف 2 فیصد افراد ہی ایسے ہوتے ہیں جو کبھی بھی لیڈر بننے کے قابل نہیں ہوتے۔
لیڈر شپ پر بات کرنے والا ہر مسلم اور یہاں تک کہ غیر مسلم بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثالی قائد تھے۔ لیکن عملی طور پر ان تمام صفات کو پیش کرنے سے پہلے یہ بات بھی ملحوط رکھنی چاہےے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثالی قائد تھے، جبکہ ایک عام قائد کا درجہ آپ سے کہیں نیچے ہوگا۔ قیادت کا مطلب ہے لوگوں کو ہدف حاصل کرنے پر آمادہ کرلینا۔ مگر آج لوگوں کی نظر میں ہیرو اور لیڈر برابر ہوگئے ہیں۔ حالانکہ ہیرو تو ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی ایک چیز میں سب سے آگے نکل جاتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ وہ اچھا لیڈر بھی ہو۔ لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو بھی قائد بنا سکتا ہو۔ اسی لےے جب اداکار، کھلاڑی اور ہیرو عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو بے شمار بار ناکام ہوتے دیکھے گئے ۔
دنیا کو ضرورت ہے ایک ایسے قائد کی جو بھنور میں پھنسی ہوئی انسانیت کو نکال سکے۔ ایک ایسا لیڈر جو دنیا کو ظلم و زیادتی کے بجائے امن و آشتی کا گہوارہ بناسکے۔ ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، اداروں اداروں اور دفتروں دفتروں ایسے لوگوں کی تلاش ہے۔ ایک ایسا رہنما جس کی سوچ بلند ہو، جس کا دل کشادہ ہو، جو اپنے اور پرائے کا غم محسوس کرنے والا ہو، جو دوست اور دشمن کا خیر خواہ ہو۔ سخاوت، شجاعت، عدالت اورامانت اس کا طرہئ امتیاز ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کرے، اخلاق سے بہرہ ور ہواور خود کو زمین پر اللہ کا خلیفہ سمجھ کر اپنی ذمہ داری نبھائے۔ ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس کا یہ خاص شمارہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آئےے! اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔