’’جم اونیل‘‘ کو معیشت کا جادوگر کہا جاتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے 2001 ء میں ایک لفظ استعمال کیا تھا: BRIC۔ آج یہ لفظ دنیا کا ہر معیشت دان جانتا ہے اور جم اونیل کو داد دیتا ہے۔ بَرک کا مطلب ہے: برازیل، روس، انڈیا اور چین اب دنیا کے ترقی یافتہ ملک بن جائیں گے۔ آج ہر شخص جانتا ہے کہ چاروں ملک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، مگر 14 سال پہلے یہ دعوی کرنا صرف ’’جم اونیل‘‘ کا کمال تھا۔ جم او نیل کی انہی خصوصیات نے اسے معروف مالیاتی کمپنی ’’گولڈ مین سکس‘‘ کا چیئرمین بنا دیا تھا۔

مگر جم نے دنیا کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس نے ترکی کے معاشی حالات کا مطالعہ کیا، پھر ایک دن اعلان کیا کہ ترکی، معاشی جن بن جائے گا۔ یورو کی قیمت بڑھنے کی پیش گوئی کی اور اگلے ہی سال ایسا ہو گیا۔

پھر یہ بتا کر تو جم نے ایٹمی دھماکہ ہی کر دیا۔ اس نے جنوری 2014 ء میں اعلان کیا کہ پاکستان 2025 ء تک معاشی طور پر دنیا کا 18 واں بڑا ملک بن جائے گا۔ آپ ذرا اندازہ کریں، جب جم اعلان کر رہا تھا، اس وقت کوئی بھی پاکستانی اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پاکستان کو دیوالیہ قرار دینے کے لیے قلم حرکت میں آ چکے تھے۔

آئی ایم ایف بڑی مشکل سے قرض دینے پر آمادہ ہوا۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ مگر اس کے باجود جم نے معاشی ترقی کی پیش گوئی کر دی تھی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ملک میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے کرپشن کی گنگا میں نہاتے رہے۔ روپے نے ڈالر کو پے در پے شکست دی۔ محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئی ہے۔

مگر کیا کیجیے کہ پھر دھرنے شروع ہو گئے۔ پاکستان کا دل ’’اسلام آباد‘‘ سیل کر دیا گیا۔ مظاہرین کے جذبات قابو سے باہر ہو گئے۔ ٹیکس نہ دینے اور بل ادا نہ کرنے جیسے اعلان کر کے سول نافرمانی کا اعلان کر دیا گیا۔ حکومت نے بھی ملک بھر کو جام کر دیا۔ اہم قومی شاہراہیں بند کردیں۔ تجارتی ساز و سامان کی آمد و رفت رک گئی۔ حکومت کی تمام تر مشینری دھرنے کے گرد گھومنے لگی۔ نقصان حکومت کا ہوا نہ ہی مظاہرین کا۔ اگر نقصان ہوا تو صرف وطن عزیز پاکستان کا۔ اس دھرتی کا جس کی خاطر 6 لاکھ مسلمانوں کو شہید کروایا گیا۔ جس کی خاطر عزتیں تار تار ہوئیں اور سہاگ اجڑ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن کے مطالبات بالکل درست تھے، اس سے بھی اختلا ف نہیں کہ حکومت نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ مگر ان چند دنوں میں ملکی معیشت کسی راکٹ کی طرح زمین کی طرف گرتی چلی گئی۔ ماہرین کہتے ہیں ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر تقریبا تین روپے تک کم ہو چکی ہے، جبکہ معیشت دان کہتے ہیں کہ ایک روپے قدر گرنے سے پاکستان پر قرضوں میں تقریبا 90 ارب روپے اضافہ ہو جاتا ہے۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر کہتے ہیں کہ دھرنوں کی وجہ سے صرف کراچی کے تاجروں کو 40 ارب روپے نقصان اٹھانا پڑا۔

ان حالات میں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تجارت کا پہیہ چلتا رہنا چاہیے۔ معاشی ترقی رکنے سے صرف تاجر برادری یا حکومت کا ہی نہیں، بلکہ ہر ہر پاکستانی کا نقصان ہے۔ معیشت کو نقصان پہنچانا پوری قوم کو دلدل میں دھنسا دے گا۔ آج جس بدحالی اور معاشی تباہی کے بیج بوئے جا رہے ہیں، اس کی فصل کل ہمیں ہی کاٹنی ہے۔ یہ ایسا قرض ہے جو ہمیں ہی ادا کرنا ہے۔ ایسا ٹیکس ہے جو ہماری ہی جیبوں سے نکلنا ہے۔ سمجھیے کہ یہ وطن ہمارا ہے… ہم ہیں پاسباں اس کے۔