کوئی شارٹ کٹ نہیں !

ایک شخص نے دولت مندوںکے حالات زندگی پڑھنا شروع کیے۔ ایک سو ایک دولت مندوں کے حالات پڑھ کر وہ حیران کن نتیجے تک پہنچا۔ یہ عجیب بات سامنے آئی کہ دنیا کے تمام امیر ترین آدمیوں نے کاروباری کامیابی کے لیے کم و بیش ایک ہی جیسا طریقہ اپنایا ہے۔ فیس بک کا مالک مارک زکر برگ ہو، مائیکروسوفٹ کا بانی بل گیٹس،ایپل کمپیوٹر کا روح رواں اسٹیو جابس، اسٹاک مارکیٹ کا بے تاج بادشاہ وارن بفیٹ، ٹیلی کام کا شہنشاہ کارلوس سلم یا بھارتی امیر ترین شخص مکیش انبانی ، ان تمام کے تمام افراد نے ایک ہی طریقہ اپنایا ہے۔ اس ایک طریقے پر عمل کرکے یہ تمام لوگ دنیا کے سو امیر ترین لوگوں کی فہرست میں کئی سالوں سے مستقل براجمان ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔

کام اور گھریلو زندگی میں توازن

یہ پاکستان کے ایک گھرانے کا واقعہ ہے۔ میاں بیوی دونوں نوکری پر جاتے ہیں۔ گھر چلانا اتنا آسان تو نہیں ہے نا۔ دونوں کی ڈیوٹی شام گئے تک ہے۔ بیٹا اسکول سے جلدی واپس آ جاتا ہے مگر والدین کو تو دفتر میں حاضری دینا پڑتی ہے۔ اس مشکل کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ روزانہ بچے کو اسکول سے واپس آتے ہی ’’کیل پول‘‘ پلا کر سلا دیا جائے۔ بچہ گہری نیند سو جاتا ہے اور میاں بیوی شام ڈھلے دفتر میں کام کرتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔

باز پرس

مولانا قاسم نانوتوی لکھتے ہیں: ’’سرزمین ہند میں اگر صرف شاہ ولی اللہ ہی پیدا ہوتے تو ہندوستان کے لیے یہ فخر کافی تھا۔‘‘ آپ اٹھارویں صدی میں ایک مجدد کی حیثیت سے ابھرے۔ ایک جید عالم دین، باکمال فقیہ اور دانش مند سیاسی مدبر تھے۔ صرف 17 سال کی عمر میں عالم دین بن گئے، بلکہ تصوف کے تمام درجات بھی طے کرلیے۔ آپ کی درخواست پر احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو تاریخی شکست دی تھی۔

مزید پڑھیے۔۔۔

مرتبہ، خواہش اور اسٹیٹس

آپ پاکستان کے کسی بھی شخص سے ملیں، اس کا سب سے بڑا مسئلہ مرتبہ، خواہش اور اسٹیٹس ہے۔ ہم اس اسٹیٹس اور مرتبے کی خاطر ہر کام کر گزرتے ہیں۔ سالوں پرانے تعلقات اور خون کے رشتے تک توڑ دیتے ہیں۔ مگر اسٹیٹس، خواہش اور مرتبہ کی منزل آج تک کسی کو نہیں ملی۔ رومی تہذیب نے ایک ہزار سال تک دنیا پر حکومت کی۔ رومن امپائر کو ناقابل شکست کہا جاتا تھا۔ مگر پھر گیہوں کو گھن لگ گیا۔ دولت، مرتبے اور خواہش کا گھن۔ دولت کے ڈھیر لگ گئے مگر خواہشات بے لگام ہوتی چلی گئیں۔ سر کا تاج ایک لاکھ درہم سے کم مالیت کا نہیں پہنتے تھے۔ عالی شان محلات بنانے میں مقابلے شروع ہوگئے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

نیکیوں کا موسم

’’یہ کیسی دنیا ہے کہ غریب فاقے سے خود کشی کرلے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، مگر اسٹاک ایکسچینج دو پوائنٹ گر جائے تو اہم ترین خبر بن جاتی ہے۔‘‘ آپ معاشرے کی ناانصافی ملاحظہ کریں، آج بھی کروڑوں بچے اسکول نہیں جاتے، کروڑوں انسان آج بھی رات کو بھوکے سوتے ہیں اور دنیا کے ایک ارب لوگ جب صبح اٹھتے ہیں تو حلق سے اتارنے کے لیے ایک لقمہ بھی نہیں ہوتا۔ ان ایک ارب لوگوں کو سر چھپانے کے لیے چھت دستیاب نہیں، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے میسر نہیں اور پینے کے لیے صاف پانی مہیا نہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

آپ بوسنیا میں اسلامی بینکاری کا نام لیں تو سب سے پہلے ڈاکٹر ’’فکرت ہزک‘‘ کا حوالہ سننے کو ملے گا۔ ڈاکٹر فکرت کی زندگی کے بارہ سال اسلامی بینکاری پڑھتے پڑھاتے گزرے ہیں۔ انہیں بوسنیا میں اسلامی بینکاری کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ جب انہوں نے اسلامی بینکاری پر اپنا مقالہ پیش کیا تو انٹرویو کرنے والے ایک پروفیسر نے تبصرہ کیا تھا: ’’خواب تو اچھا ہے مگر تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا‘‘۔ مگر ڈاکٹر ہزک نے ان تھک محنت اور شبانہ روز کوشش کے بعد خواب کو سچا ثابت کردیا۔ آج بوسنیا کی تاریخ پڑھے بغیر آپ اسلامی بینکاری کی اثر انگیزی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔بوسنیا کو براعظم یورپ کا گمنام ملک کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔