شریعہ اینڈ بزنس افانکا اور اس کے مقاصد و خدمات کی طرف جانے سے پہلے آنجناب کا تعارف سامنے آ جائے۔ ڈاکٹر محمد منیر چوہدری میں اصلاً پاکستانی ہوں۔ شہر سرگودھا سے تعلق ہے۔ فیصل آباد یونیورسٹی سے فوڈ سائنس میں ایف ایس سی اور ایم ایس سی کیا۔ اس کے بعد دو سال تک فوڈ سائنس میں ہی ریسرچ کا کام کیا۔ بعد ازاں حکومت نے مجھے بیروت جانے کا وظیفہ دیا۔


حلال فوڈ کی تحقیق و تصدیق کے معروف امریکی ادارے ’’افانکا‘‘ کے صدرڈاکٹر محمد منیر چوہدری کی شریعہ اینڈ بزنس سے گفتگو

امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن (Nutrition) میں ماسٹرز کیا۔ بیروت سے مجھے امریکا جانے کا موقع مل گیا۔ 1974ء میں امریکا کی یونیورسٹی آف ایلانائے میں داخلہ لیا۔ یہ شکاگو سے دو گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ 6 سال میں وہاں رہا۔ ڈگری بھی حاصل کی اور جاب بھی کی۔ ریسرچ اسسٹنٹ اور ٹیچنگ اسسٹنٹ رہا۔ 1980 ء میں ان مصروفیات کو ترک کرے انڈسٹری میں کام شروع کیا۔ 1974 ء میں امریکا جانے کے بعد سے آج تک وہیں ہوں۔ ’’Flavour and Ingredients‘‘ میں کام کیا۔ انڈسٹری میں ایسی باتیں سیکھنے کا موقع ملا جو تعلیمی اداروں میں سیکھنے کو نہیں ملی تھیں۔ یہ سچ ہے مجھے ’’فوڈ اور انگریڈی انٹس‘‘ سے متعلق زیادہ علم اور فہم انڈسٹری میں کام کرتے ہوئے حاصل ہوا۔ 1980 ء میں ہی ہم نے اپنا ادارہ ’’افانکا‘‘ شروع کیا۔

شریعہ اینڈ بزنس
’’افانکا‘‘ شروع کرنے کے اسباب اور محرکات کیا بنے؟ اس طرف پیش رفت کیسے ممکن ہوئی؟

ڈاکٹر محمد منیر چوہدری
اس کو شروع کرنے کے پیچھے ہمارا ایک احساس اور ایک ضرورت تھی۔ 1974 ء سے 1980 ء تک کالج کے زمانے میں ہم یہ سوچتے رہتے تھے کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں؟ ہر کھانے میں کوئی نہ کوئی حرام چیز شامل ہوتی تھی۔ کچھ اجزائے ترکیبی تو کھانے کے پیکٹ پر لکھے ہوتے ہیں اور کچھ چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بہت سے ساتھی جو وہاں تعلیم حاصل کر کے سعودی عرب اور دیگر ممالک میں چلے گئے تھے، وہ فون کر کے پوچھتے کہ فلاں چیز ہم خریدیں یا نہ خریدیں؟ یہ حلال ہے یا حرام؟ ہم کالج کے زمانے میں ہی ان کو اس سے متعلق مشورہ دے دیتے۔ 1980 ء میں جب میں نے شکاگو میں جاب شروع کی تو میں نے سوچا کہ اپنی طرح کے دو، تین فوڈ سائنٹسٹ جمع کروں۔ تاکہ ہم یہاں کے حالات کے پیش نظر اپنی ریسرچ بڑھا سکیں اور اسے قابل اشاعت بنائیں۔ 1982 ء میں ہم نے ’’انگریڈی انٹس‘‘ (اجزائے ترکیبی) کی ایک فہرست شائع کی۔ یہ کہیں نہ کہیں آج بھی لوگوں کے کام آتی رہتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں خیال آیا کہ ایک دفعہ کی تحقیق ہمیشہ کے لیے تو کام نہیں آ سکتی۔ یقیناً وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ فوڈ کمپنیاں نئے نئے انداز سامنے لا رہی ہیں، لہذا ہم نے چیزوں کو صرف حلال، حرام بتانا چھوڑ کر افراد سازی کا کام شروع کیا۔ ایسے لوگ تیار کرنا شروع کیے جو ’’اجزائے ترکیبی‘‘ پر عبور رکھتے ہوں۔ وہ جانتے ہوں کہ جیلاٹن، لارڈ اور انزائمز سے متعلق لوگوں کو کیا رہنمائی دینی ہے؟ الغرض، خود حلال کھانے اور لوگوں کو حلال کھانے کی ضرورت اس ادارے کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔ پھر 1986 ء تک ہمارا سرٹیفکیشن (حلال تصدیق) کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہمارے مقاصد ’’ایجوکیشن‘‘ اور ’’اویئرنیس‘‘ دو ہی تھے۔ ہماری یہ خدمات صارف کے لیے مفت اور انڈسٹری کے لیے قیمتاً۔ انڈسٹری سے بھی 1986 ء کے بعد ہی حق الخدمت وصول کرنا شروع کیا۔

شریعہ اینڈ بزنس
سرٹیفکیشن بھی ’’افانکا‘‘ کی اہم سروس ہے۔ یہ کب اور کیسے شروع کی؟

ڈاکٹر محمد منیر چوہدری
1986 ء میں ہم نے پہلا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ اس کا پس منظر بھی عجیب تھا۔ ہوا یہ کہ سعودی عرب سے ایک کمپنی کا خط آیا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہماری فلاں ٹوتھ پیسٹ میں شامل اجزا میں کوئی حرام جز تو شامل نہیں؟ ہم نے اس کی تحقیق اور تجزیہ کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک جز ایسا ملا جو صحیح نہیں تھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ یہ جز تبدیل کردیں، ہم آپ کو اس کے مکمل حلال ہونے کا لیٹر جاری کر دیں گے۔ بس یہ پہلا جوابی خط ہی ہماری طرف سے جاری ہونے والا پہلا ’’حلال سرٹیفکیٹ‘‘ تھا۔ اس کا ہم نے ان سے معاوضہ بھی وصول کیا۔ اُس زمانے میں میں نے 2 ہزار ڈالر اُن سے چارج کیے۔

اس کے بعد سنگاپور اورملائشیا میں ’’حلال لائ‘‘ پاس ہوئے۔ اس ’’لائ‘‘ کے پاس ہونے کے بعد حکومت نے کمپنی مالکان سے کہاکہ حلال سرٹیفکیٹ لے کر آئیں۔ یہ 1989 ء وغیرہ کا زمانہ تھا۔ ہمیں کسی نے مشورہ دیا کہ آپ فلاں ملک کو خط لکھ کر ان کی کمپنیوں کو حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی اجازت حاصل کریں۔ یہ سلسلہ شروع ہونے کے بعد ہمارا حلال سرٹیفکیشن کا کام وسیع ہو گیا۔

شریعہ اینڈ بزنس
کیا حلال و حرام کے حوالے سے اسلامی ملکوں کی صورت حال بھی سنگین ہے، جس طرح غیر مسلم ممالک میں؟

ڈاکٹر محمد منیر چوہدری
بلا شبہ مسلم ممالک میں بھی حلال و حرام کی صورت حال حد درجہ سنگین ہے۔ ان ممالک کے اندر بھی حلال و حرام کے مسائل اتنے ہی اہم ہیں، جتنے غیر مسلم ممالک میں۔ یہ صورت حال تقریباً تمام اسلامی ممالک میں ہی ہے، الاّ ماشا ء اللہ۔ اس حساسیت کی وجہ یہ ہے کہ تقریباً سارے کے سارے اسلامی ممالک کھانے پینے کی متعدد چیزیں باہر سے منگواتے ہیں۔ یورپ، لاطینی امریکا اور یو ایس اے وغیرہ، یہ ممالک اب کسی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں۔ یہ سیکولر ہیں۔ ان کا انحصار سائنس پر ہے، جب کہ سائنس ایک سیکولر فیلڈ ہے۔ وہ صرف فوڈ کا Safe ہونا دیکھتے ہیں، کیونکہ:
’’Food Safety is religion in Science‘‘ کھانے وغیرہ میں مذہب کے تقاضے انہوں نے مسلمانوں پر چھوڑ رکھے ہیں۔ درآمد و برآمد کا کاروبار جب شروع ہوا، تب لوگ حلال و حرام کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ حکومتوں نے پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ لیکن بزنس ایسی چیز ہے، جو ہمیشہ آگے آگے اور حکومت اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ یعنی ضابطے بعد میں بنتے ہیں، چیزیں پہلے وجود میں آتی ہیں۔

اس وقت بہت سی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ کچھ لاء پاس کریں اور حلال سرٹیفکیشن کے اداروں کی جانچ پرکھ کر کے ان کے کام کو قابلِ اعتبار بنائیں۔ لیکن اس کام پر ابھی کچھ سال لگیں گے۔ میرا خیال ہے ابھی ضوابط کو صحیح طور پر لاگو ہونے میں 10,8 سال لگ جائیں گے۔ ایسے ممالک میں پاکستان، سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے ممالک شامل ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کام ملائیشیا نے کیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے 1990 ء میں ’’حلال لائ‘‘ پاس کیا۔ ان کو کام کرتے ہوئے تقریباً 25 سال ہو گئے، ابھی بھی کام کی کافی گنجائش ہے۔ 90 فیصد اصول ضابطے وہ بنا چکے ہیں، 10 فیصد ابھی بھی باقی ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس
بزنس کمیونٹی اور کارپوریٹ سیکٹر کو بتائیے کہ دنیا بھر میں حلال مصنوعات کی کھپت کیا ہے؟ اس میں انویسٹمنٹ کے کیا مواقع ہیں؟

ڈاکٹر محمد منیر چوہدری
اکثر مسلم ممالک کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جو گوشت ہمیں ملے، وہ مسنون طریقے سے ذبح کیا ہوا ہو۔ اسٹننگ (بے ہوش کر کے ذبح) کیا ہوا نہ ہو۔ اسی طرح مشینی ذبیحہ نہ ہو۔ مڈل ایسٹ کے ممالک میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اگر میٹ انڈسٹری اور پولٹری انڈسٹری میں انویسٹمنٹ کر کے ان ممالک کا رخ کیا جائے تو بزنس کو بے حد فائدہ ہو گا۔ ذبح کے ساتھ ساتھ ’’فیڈ‘‘ کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ مرغی کی فیڈ (خوراک) کے صاف ہونے کی طلب ایک سے 150 ڈالر ہو جاتی ہے۔ یہ اور اس جیسے متعدد مواقع ہیں۔ اگر لوگ حلال انڈسٹری میں کام کرنا چاہیں تو انہیں بے حد فائدہ ہو گا۔ (جاری ہے)