شریعہ اینڈ بزنس اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟ محمود قاسم میں نے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اسی وجہ سے بچپن ہی سے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ کتابوں سے لگن اور تعلق غیر معمولی تھا۔ اس مطالعے نے میری ذہنی وسعت میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔
شریعہ اینڈ بزنس
اپنے تعلیمی پس منظر کے حوالے سے کیا فرمائیں گے؟
محمود قاسم
میں نے ایم اے ایس (Master in Administrative Science) کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے نمایاں پوزیشن میں حاصل کی۔ اب پی ایچ ڈی پروفیسر ڈاکٹر ابوذر واجدی کے زیر نگرانی کر رہا ہوں۔
شریعہ اینڈ بزنس
ماشاء اللہ! آپ نے ماضی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ہمیں اپنے کیرئیر اور پیشے کے متعلق بتائیے؟
محمود قاسم
میں نہیں سمجھتا کہ آپ ان کو کامیابی کہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ جس چیز کا میں نے خواب دیکھا، اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اسے شرمندۂ تعبیر کر دیا۔ الحمد للہ! میں اپنی کامیابیوں سے اور اپنی موجودہ حالت پر بہت مطمئن ہوں۔
شریعہ اینڈ بزنس
بزنس ایجوکیشن کاروباری ترقی میں ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہے، لیکن جب اپنے معاشرے اور ہم وطن کاروباری حضرات کو دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی خاص توجہ بزنس ایجوکیشن کو نہیں دیتے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
محمود قاسم
اس بزنس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بزنس ایجوکیشن کاروباری دنیا میں ایک منفرد کردار ادا کرتی ہے۔ علم تو روشنی ہے۔ کوئی بھی کام جب علم کی روشنی میں کیا جاتا ہے، خود بخود کامیابی آپ کے پاؤں چومتی ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک میں تاجر برادری بزنس ایجوکیشن کو وہ اہمیت نہیں دیتی، جتنا اس کا حق تھا۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ ’’سیٹھیا‘‘ ہے۔ یہ سیٹھ لوگ بزنس ایجوکیشن کو بہت معمولی حیثیت دیتے ہیں یا بالکل اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ اپنے آباؤ اجداد کے پیشے سے جڑے اور چمٹے ہوئے ہیں۔ جس طرح بزنس ان کے باپ داد کیا کرتے تھے، یہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں، حالانکہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ دنیا کے ہر شعبے میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بزنس بھی بدل چکا ہے۔ اس کے طریق کار میں نمایاں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر یہ آج کی دنیا میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بزنس ایجوکیشن کی طرف آنا ہو گا۔ آج نہ سہی کل ضرور آنا پڑے گا۔
شریعہ اینڈ بزنس
ایک کمپنی بزنس ایجوکیشن کو استعمال میں لا کر کس طرح کامیابیاں سمیٹ سکتی ہے؟ یہاں کوئی لگا بندھا قانون نہیں ہے، جو کمپنی کو کامیاب یا ناکام بنائے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ بزنس ایجوکیشن آپ کو بزنس کی ترقی میں مدد فراہم کرے گا۔ بزنس ایجوکیشن سے آپ کو پیشہ ورانہ طور پر کام کرنا آ جاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس تعلیم نہیں ہے تو آپ کو ٹھوکریں کھا کھا کے خود سیکھنا پڑتا ہے۔ اس میں کامیابی کم، ناکامی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
ایجوکیشن، بزنس پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟
محمود قاسم
یہ سادہ سی اور عام فہم بات ہے کہ ہر شعبے کے لیے پروفیشنل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مسجد کا امام پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نہیں ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ہمیں کیا دین سکھائے گا، بلکہ وہ ہمارا نقصان تو کرے گا ہی، ساتھ دین سے بھی لوگوں کو متنفر کرے گا۔ اسی طرح بزنس کرنے والوں کو تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ورنہ آپ فائدے سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ کتنے لوگ آپ کو ایسے ملیں گے، جنہوں نے کاروباری دنیا میں تعلیم کی بدولت ترقی کی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور بانیوں کی زندگی کا مطالعہ کر لیں، انہوں نے بزنس سیکھا پھر تعلیم کی روشنی میں اسے پروان چڑھا یا۔
شریعہ اینڈ بزنس
ایک کمپنی میں ملازمین کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھا جائے کہ وہ بھی خوش رہیں اور کمپنی بھی مطمئن رہے۔ چند ایک مثالیں ذکر فرما دیں؟
محمود قاسم
ملازمین کو ڈیل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے، کیونکہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ کاروبار پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ ایک جگہ کی پروڈکٹ دوسرے ملک میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس طرح ملازمین بھی مختلف علاقوں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مختلف مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔ اس صورت حال میں کوئی خاص حل نہیں جو ہر ایک پر لاگو کیا جا سکے۔ آپ موقع کے اعتبار سے ملازمین سے ڈیل کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات مسئلہ ایک ہوتا ہے، لیکن سب ملازمین کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنے سے وہ مسئلہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملازمین کے اعتبار سے مسئلہ حل کرنے کے لیے مختلف طریقے اور ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ صرف ایک ایسی چیز ہر جگہ مشترک ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ملازمین اطمینان اور عزت محسوس کریں۔ یہ نہ صرف ملازمین کے لیے ضروری ہے بلکہ کمپنی کی زندگی اور ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
ایک بزنس پارٹنرشپ کو کس طرح برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ایک پارٹنر کن کن چیزوں کا خیال رکھے جو ان کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرے؟
محمود قاسم
میں جو کہنے جا رہا ہوں یہ صرف پارٹنرشپ کے لیے نہیں بلکہ میرے نزدیک ہر رشتے میں دیانت داری اور خیر خواہی ضروری ہے۔ اس سے رشتے اور تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ کاروباری شراکت میں اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ جب تک آپ ایک دوسرے کے ساتھ ایمانداری کا معاملہ کرتے رہیں گے اور خیر خواہی کا دم بھرتے رہیں گے، آپ کا تعلق مضبوط اور دیرپا ہو گا، اگر اس کے برعکس ہوا تو یہ رشتہ کمزور ہوتا چلا جائے گا اور ٹوٹنے پر منتج ہو گا۔
شریعہ اینڈ بزنس
ملازمین اور ورکرز کو کس طرح متحرک اور خوش رکھا جائے کہ وہ دل جمعی اور تن دہی سے کام کریں؟
محمود قاسم
ملازمین کو متحرک اور خوش رکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس طرح وہ کام کرنے میں آسانی محسوس کریں، ان کو اجازت دی جائے اور سختی سے کام نہ لیا جائے۔ اس کے ساتھ ان سے ایسا کام لیا جائے جو ان کی جاب اور ذمہ داری سے میل کھاتا ہو۔ اگر آپ ان سے ایسا کام لیتے ہیں جو ان کی ملازمت کے زمرے میں نہیں آتا تو وہ آپ سے جھگڑے گا، دل جمعی اور شوق سے کام بھی نہیں کرے گا، بلکہ اُلٹا کام بگاڑے گا۔
شریعہ اینڈ بزنس
ملازمین اور باس کے درمیان کس طرح اچھا تعلق قائم کیا جا سکتا ہے؟
محمود قاسم
اس کا یقینی جواب تو مشکل ہے کیونکہ اس کا تعلق بہت سارے عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایک ہی سبب کی وجہ سے معاملہ اٹکا ہوا ہوتا ہے۔ اگر اس وجہ کو دور کر دیا جائے تو سارے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں اور تعلقات بحال ہو جاتے ہیں۔ تاہم میرے خیال کے مطابق باس اور ملازمین کا تعلق بہتر اور خوشگوار اس وقت ہوتا ہے جب دونوں طرف سے ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے اور اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کی جائیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
ہمارے وطن پاکستان کی کوئی ملٹی نیشنل کمپنی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
محمود قاسم
اس کے بہت سارے اسباب ہیں۔ سیاسی مسائل اور حکومتی عدم استحکام کی وجہ سے علاقائی بزنس صحیح طور پر پھل پھول نہیں سکتے۔ یہی بزنس تناور درخت بن کر ملٹی نیشنل کمپنی کی صورت اختیار کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
ایک عام تاجر کس طرح مثالی اور کامیاب تاجر بن سکتا ہے؟
محمود قاسم
ایک اچھا اور مثالی تاجر بننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنا مشن اور وژن طے کرے، اگر اس کا مقصد اعلیٰ ہے اور وہ اسے حاصل کرنے میں مخلص بھی ہے تو یہ اس کے لیے جان توڑ کوششیں کرے گا۔ یہ ہر وہ کام کرے گا جو اس کو منزل مقصود کے زیادہ قریب پہنچا دے اور ہر اس کام سے دور بھاگے گا جو اس کے سفر میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے گا۔ جس طرح ایک مسافر سفر کرنے لگتا ہے تو اس نے پہلے سے اپنی منزل طے کر رکھی ہوتی ہے۔ دورانِ سفر وہ مختلف تماشے دیکھتا ہے، لیکن ان کو دیکھنے میں مگن نہیں ہوتا، بلکہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کسی ایسے کام کا ارتکاب نہیں کرتا جو اس کے لیے مشکلات کھڑی کرے۔
شریعہ اینڈ بزنس
ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس کے قارئین کے لیے کیا پیغام دیں گے؟
محمود قاسم
ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس ہم سب کے لیے معلومات اور ہدایات کا ایک شاندار ذریعہ ہے۔ میں خود ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ کا مطالعہ کر کے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ بزنس میں ہماری ہر طرح کی رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ اسلامی نکتہ نظر سے ہو یاعالمی بزنس کے زاویہ نگاہ سے۔ ٭٭٭