شریعہ اینڈ بزنس
سب سے پہلے ہم آپ کا تعارف اور تعلیمی پس منظر جاننا چاہیں گے؟
ریاض الدین
میرا نام ریاض الدین ہے۔ میں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں اسکول اور فیڈرل اسکول سے حاصل کی۔ کچھ ایڈوانس کورسز IBA سے بھی کےے، پھر ہالینڈ سے ایکسپورٹ مارکیٹنگ ایڈمنسٹریشن میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ مختلف یونیورسٹیز اور اداروں سے مینجمنٹ کے ایڈوانس کورسز ہوتے رہے۔
٭… ہمارے والدین اپنے کندھوں پر بیگ، بستہ لٹکا کر دکان دکان گئے اور آرڈر بک کروا کر اس کام آ غاز کیا۔
شریعہ اینڈ بزنس
تجارت کی طرف کیسے آنا ہوا؟
ریاض الدین
ہمارا کاروبار فیملی بزنس کے قبیل سے ہے۔ ڈالر انڈسٹریز پرائیوٹ لمیٹڈ ہمارا نام ہے۔ 1954ء میں ہمارے دادا مرحوم محمد صدیق صاحب نے اس کا آغاز کیا تھا۔ پھر ان کے صاحبزادگان کاروبار میں آ گئے اور اسے مزید وسعت دی۔ اب ہماری یہ تیسری نسل ہے جو اس فیملی بزنس کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اللہ کے فضل سے چوتھی نسل میں سے کچھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کچھ حاصل کر چکے ہیں اور عملاً کاروبار میں شریک ہو چکے ہیں۔ باقی یا تو اس کے شیئرز ہولڈرز ہیں یا اپنے والدین کی نسبت سے اس کے شیئر ہولڈرز ہوں گے۔
شریعہ اینڈ بزنس
ابتدائی مراحل کے بارے میں کچھ بتائےے کہ بزنس کس طرح پروان چڑھا؟
ریاض الدین
ابتداء میں یہ چھوٹے اور محدود پیمانے پر شروع ہوا تھا۔ جہاں پر آج ریڈیو پاکستان کی عمارت ہے، اس کے پیچھے اس وقت Small Scale Indurstry ہوا کرتی تھی۔ وہاں اس کا آغاز ایک چھوٹے سے گھر نما دکان میں کیا گیا تھا۔ دادا مرحوم اور ان کے ایک صاحبزادے نے مل کر سیاہی (ink) کی تیاری کا کام شروع کیا تھا اور ان کے دیگر صاحبزدگان نے خرید وفروخت کا ذمہ اٹھایا۔ بعد ازاں جب کاروبار بڑھ گیا تو کسی نے ink کی تیاری کی ذمہ داری لی، کسی نے خام مال کی خریداری کا بیڑا اٹھایا۔ کسی نے گھر گھر پہنچانے Selling کا کام شروع کیا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے والدین اپنے کندھے پر بیگ بستہ لٹکا کر دکان دکان گئے اور آرڈر بک کروا کر اس کام کا آغاز کیا۔
اس وقت ڈالر کو کوئی نہیں جانتا تھا، لوگ درآمد شدہ سیاہی ہی استعمال کرتے تھے۔ یہ سیاہی جرمنی اور فرانس سے درآمد کی جاتی تھی۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا، ٹیکنالوجی کی کمی تھی اور باہر سے بھی فارمولے نہیں منگوائے جا سکتے تھے۔ اس لےے اپنے ہی طور پر تحقیق کر کے کچھ فارمولے بنائے اور یہ سیاہی تیار کی۔ پھر کراچی میں دکان دکان جا کر فروخت کی گئی۔ بعد ازاں ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ سیاہی پہنچتی گئی۔
شریعہ اینڈ بزنس
لوگوں کی جانب سے ابتدا ہی سے ریپانس ملتا رہا یا کسی دور میں کوئی خاص گرم بازاری اس کا سبب بنی؟
ریاض الدین
1950ء سے 1960ء تک درآمدات پر بہت زیادہ پابندیاں تھی۔ حکومت کی جانب سے اس پر بہت زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ اس کے لےے امپورٹ لائنسنس ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کی فارن ایکسچینج پوزیشن اتنی اچھی نہیں تھی، امپورٹڈ اشیا کی لاگت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ ان کو منگوانے اور بار برداری کا خرچہ بھی کافی زیادہ تھا۔ پھر لوگوں کے پاس آج کل کی طرح سرمایہ بھی اتنا نہیں ہوتا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر باہر سے سامان منگوا سکیں۔ آج کل تو درآمدات بڑے پیمانے پر منگوا کر تقسیم کی جاتی ہیں۔ آج بزنس لورلائز ہو گئی ہے، WTO بھی آ گیا ہے اور Free Trade بھی ہے، جن کی وجہ سے خام مال اور تیاری شدہ اشیا کے امپورٹ ٹیکس میں زیادہ تفاوت نہیں ہے۔ اس زمانے میں تفاوت زیادہ تھا، مثلاً: تیار شدہ مال پر 150 سے 200 فیصد تک ٹیکس ہوتا تھا۔ خام مال پر 50 سے 75 فیصد تک ڈیوٹی ہوا کرتی تھی۔ اس لےے مقامی سطح پر پروڈکٹس تیار کرنا ضروری تھا۔ وسائل کی عدم دستیابی اور ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی کا سامنا تھا۔ خام مال کے درآمد کرنے میں بھی اتنے مسائل کا سامنا تھا جتنا کہ تیار شدہ مال میں۔
ابتدا میں درآمد شدہ سیاہی سے ایک تہائی کم قیمت میں سیاہی صارفین تک پہنچانے کے لےے کوالٹی میں کچھ کمی تھی، مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر قابو پا لیا گیا۔ قیمت کے ساتھ ساتھ کوالٹی بہتر ہوتی گئی۔ اس وقت سیاہی کی 144 بوتلز سوا چھ روپے میں بیچا کرتے تھے۔ مناسب قیمت اور درآمد شدہ سیاہی کی طرح معیاری ہونے کی وجہ سے اسے مارکیٹ میں کافی پذیرائی ملی۔
شریعہ اینڈ بزنس
اس کنورژن (تبدیلی کے عمل) کے پروسیس سے کب گزرے؟
ریاض الدین
جب کاروبار میں برکت اور وسعت ہوئی تو کراچی کے مختلف علاقوں میں اپنی پروڈکٹس یونٹس کا قیام عمل میں آیا۔ ایوب خان کے زمانے میں جب اس نے سائٹ کی بنیاد رکھی اور ایشیا کا سب سے بڑا انڈسٹریل اسٹیٹ قائم ہوا تو ہماری کمپنی کو 85th پلاٹ الاٹ کیا گیا۔ اس لےے اس کو آج D:85 کہا جاتا ہے۔ یہ پانچ ایکڑ کا پلاٹ ہے۔ آج کراچی اور کراچی سے باہر دیگر شہروں میںبھی اس کے یونٹس موجود ہیں، مگر مین پلانٹ آج بھی اسی جگہ قائم ہے، اسی میں ترقی ہوتی رہی۔
وقت کے ساتھ ساتھ فونٹین پننگFountain Penning کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد Glues کا اضافہ ہوا۔ پھر اسٹمپ پیڈز کو شامل کیا گیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھDisposable Writing Instruments آ گئے، جیسے ماکرز، بال پوائنٹ، فائن لائنرز وغیرہ، ان کو بھی اپنی پروڈکٹس میں شامل کیا گیا۔ درمیان میں ایک اہم پروڈکٹ ''کاربن پیپر'' ہم نے شروع کی تھی، پھر رفتہ رفتہ وہ ختم کر دی گئی۔ اس زمانے میں چونکہ ٹائپ رائٹرز ہوا کرتے تھے، اس لےے ان کا بہت زیادہ رواج تھا۔ تقریباً 15 سالوں تک ہم اسے بناتے رہے۔ ہم سے پہلے کاربن پیپر کراچی میں KCR والے بناتے تھے۔ یہ پارسی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ بعدمیں وہ کینیڈا چلے گئے۔ اس کے بعد صرف ڈالر کا پلانٹ رہ گیا تھا۔ ہم نے بھی بعدمیں اس کو اپنی پروڈکٹس لائن سے نکال دیا، کیونکہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ ان ادوار میں پروڈکٹس کے عمل میں مشینوں کا استعمال بتدریج بڑھنے لگا۔ کام میں جدت لائی گئی۔ اب معاملہ ربورٹس تک آپہنچا ہے۔ بے شمار اشیا انسان کے ہاتھ لگائے بغیرہی بنتی ہیں۔ اگرچہ آخر میں انسان ہی استعمال کرتا ہے۔
کاروبار کا آغاز ہمارے دادا مرحوم نے کیا تھا، بعد ازاں ان کے صاحبزادگان نے شرکت کی۔ ان کے بعض صاحبزادگان ٹریڈنگ کی لائن میں چلے گئے۔ اس میں بھی اللہ نے بہت وسعت دی۔ ایک زمانے میںHR & Brothers کا شمار نمایاں امپورٹرز میں ہوا کرتا تھا۔ بعد میں اس کاروبار میں کچھ ایسے حالات کا سامنا ہوا جس میں ٹیکس چوری اور دیگر لوازمات تھے، اس لےے ہمارے بڑوں نے اس کاروبار کو پسند نہیں کیا، لہذا تدریجاً اسے ختم کیا گیا۔ اس لےے بعد میں ساری توجہ مینوفیکچرنگ پر دی گئی۔
تقریباً 1985ء میں خیال آیا کہ بزنس چونکہ پہلی نسل سے دوسری نسل میں آ گیا ہے۔ اس لےے قوانین بنا کر کچھ یونٹس بنا دےے گئے کہ کچھ بھائی اس میں کام کرے اور کچھ اس میں۔ اگرچہ نفع مشترکہ طور پر تقسیم کیا جاتا تھا، لیکن انتظام وانصرام کی رو سے کچھ نے برآمدات اور ٹریڈنگ پر توجہ دی اور کچھ نے مینوفیکچرنگ میں کام کرنا چاہا۔ کسی کے بچے آئے تو وہ ان میں سے کسی میںبھی براہ راست دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنا کوئی الگ یونٹ شروع کیا۔
یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ 1985ء میں جا کر یہ سوچ بنی کہ بزنس کو منظم طریقہ کار اور اصولوں پر ازسرنو منظم کیا جائے۔ سوچ وفکر کا عمل جاری رہا بالآخر 1995ء میں یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی۔ اس وقت شاید راجہ عبدالعزیز صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جس میں ہم نے پورے فیملی بزنس میں انتظامیہ اور مالکان Ownership کو الگ الگ کر دیا۔ مستقبل کے لئے اس کی اسٹریٹیجک پلاننگ کر دی، کیونکہ جب کچھ لوگ بزنس کرتے ہیں توساتھ ساتھ مالک بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ انتظام بھی کر رہے ہوتے ہیں، کچھ عملی کارکردگی دکھا رہے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں دکھا رہے ہوتے، کچھ کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے اور کچھ کی کم ہوتی ہے۔ کچھ کو اللہ نے زیادہ صلاحیتیں دی ہوتی ہیں اور کچھ کو کم۔ شروع شروع میں تقسیم کا فارمولہ برابر رہتا ہے کہ جو ضروریات ہیں وہ سب کی اس سے پوری ہو جایا کریں، لیکن جوں جوں اگلی نسلیں آتی ہیں، عمر میں، صلاحیت میں، عملی کارکردگی میں واضح تفاوت آ جاتا ہے۔ اس لےے مینجمنٹ کو اور اونرشپ کو الگ الگ کیا گیا اور فیملی کے شیئر ہولڈز کا تعین کیا گیا۔
اس حوالے سے ہمارے والدین کو اللہ نے اچھی بصیرت دی تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ترکے کا تعین کر دیا تھا۔ کچھ شیئرز اپنی زندگی میں بچوں کے نام کر دےے تھے اور کچھ اپنے پاس رکھ لےے تھے۔ شیئر ہولڈنگ کا تعین ہونے کے بعد جوائنٹ اونرشپ کی صورت بنی۔ پھر مشورہ ہوا کہ کچھ لوگ اپنی صلاحیتوں کے مطابق مینجمنٹ سنبھال لیں جس کا انہیں اضافی حصہ ملے گا۔ اس عہدے پر ان کا تعین بحیثیت ملازم کر دیا گیا، باقی فیملی ممبرز شیئر ہولڈز کے طور پر رہیں گے۔ الحمد للہ! آج خاندان کے 50 فیصد مرد شیئر ہولڈز ہیں۔