ڈاکٹرمحمد اطہر صدیقی کراچی اسکول آف بزنس اینڈلیڈرشپ (KSBL) میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آرگنائزیشنل بی ہویئر اور ہیومن ریسورس مینجمنٹ آپ کے اختصاصی موضوعات ہیں اور انہی کی تدریس سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا خصوصی موضوع لیڈنگ آرگنائزیشن ہے۔ یہ موضوع آپ مختلف اداروں میں پڑھاتے اور اس حوالے سے کورسز بھی منعقد کرتے ہیں۔ University Strathclyde, UK سے پی ایچ ڈی کیا ہے، جبکہ SZABIST, Karachi سے ایم فل اور ایم ایس کیا ہے۔ لیڈرشپ اور ایچ آر ایم سے آپ کے طویل تعلیمی پس منظر کی وجہ سے شریعہ اینڈبزنس نے آپ سے گفتگو کی۔ لیڈرشپ کے موضوع پر آپ کے معلومات افزا خیالات ملاحظہ ہوں۔
٭…میری نظر میں لیڈرشپ میں دو اوصاف Vision اور Humanity کا پایا جانا نہایت ضروری ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ''لیڈر بنتا کیسے ہے؟''
ڈاکٹر محمد اطہرصدیقی
لیڈر بننے کا کوئی مخصوص طریقہئ عمل نہیں ہے۔ ایک طریقہ تو وہ ہے جو مینجمنٹ اور بزنس ایجوکیشن کی کتابوں میں درج کیا گیا ہے۔ دوسرا طریقہ سیاست کے حوالے سے ہے۔ ہم لوگ کسی سیاسی لیڈر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ عظیم لیڈر ہے یا نہیں ہے؟ اسی طرح سوشل سائنس میں اس کی کچھ تھیوریز ملتی ہیں۔ وہاں اس قسم کے سوالوں کا جواب دیا گیا ہے کہ لیڈر کون ہوتا ہے؟ کیسے بنتا ہے؟ وغیرہ۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ کون سا لیڈر کامیاب لیڈر کے طور پر مشہور ہوا اور کون سا ناکام لیڈر کے طور پر؟ ہم ان کے حالات سے پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کریں۔ انہی وجوہ سے لوگوں کے تصورات بھی الگ الگ ہو گئے ہیں کہ لیڈر کیسے بنتا ہے؟ لیڈرشپ کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟ وغیرہ۔ اسی تناظر میں ایک بحث یہ چلتی ہے کہ لیڈر پیدائشی ہوتا ہے یا بعد میں کوشش سے بنا جا سکتا ہے؟ اس قسم کے سوالات مختلف فورمز پر اٹھائے جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ لیڈرشپ کی کچھ انسانی خوبیاں ہیں اور یہ کامن سینس کی باتیں ہیں، مثلاً: انسان کا ایمان دار ہونا، اخلاق کا اچھا ہونا، لوگوں سے برتاؤ میں سلیقہ شعار ہونا وغیرہ۔ انہیں Personality Characteristics کہتے ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ ہر آدمی سمجھتا ہے کہ ایک لیڈر میں ہونی چاہےےں۔ اس سے آگے بڑھ کر مخصوص ذہنی صلاحیتوں کا موجود ہونا اچھی لیڈرشپ کے لیے ضروری ہے، یعنی آدمی اگرچہ اچھے اخلاق کا مالک ہے، مگر لیڈر کے لیے درکار ذہنی صلاحیتوں سے عاری ہے تو یہ لیڈر بننے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کارکنوں کو خوش رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں لوگوں کو خوش رکھنا چاہےے، ادارہ تو چلتا ہی رہے گا۔بس خالص دوستانہ ماحول میں کام ہونا چاہیے، جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کام پر زیادہ فوکس کرتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ لوگوں سے ذرا سختی کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک چیز ''اعتدال'' ہے۔ ہمیں اسلام اعتدال ہی سکھاتا ہے۔
لہذا اب تک کی تفصیل کی روشنی میں سمجھ آیا کہ لیڈر وہ ہے، جو انسانی اوصاف سے بھی متصف ہو، ذہنی صلاحیتیں اور اعلیٰ قابلیت بھی موجود ہو، اچھا منیجر بھی ہو کہ کام کو پورا کروانا اپنا فرض سمجھے۔۔۔۔۔۔ اور اس سب کے ساتھ ساتھ وہ انسان دوست بھی ہو۔ ہر ایک کے ساتھ نہایت نرم خوئی اور خوش اسلوبی سے پیش آئے۔ لوگ اس کے ساتھ کام کرنا پسند کریں۔ ایسا شخص ہی قیادت کا اہل ہے۔
یہ تو لیڈرشپ سے متعلق اصولی بات ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھنے کی ایک چیز اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ حالات اور اسباب کی موافقت کے ساتھ لیڈر کا خوش بخت ہونا بھی بڑا معنی رکھتا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لیڈر بھر پور اسباب جمع کرتا ہے، مگر پھر بھی اہداف کو چھو نہیں سکتا۔ دوسری طرف ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو ناتمام اسباب کے باجوود ہمیشہ اعلیٰ درجے کی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔یہ فرق خوش قسمتی کی وجہ سے ظاہر ہوتاہے۔
لیڈرشپ کی کامیابی یا ناکامی میں کبھی ٹیم، سپورٹ سسٹم اور ریسورسز وغیرہ کا بھی دخل ہوتا ہے۔ لیڈرشپ کا اینلسز کرتے وقت ان چیزوں کو پیش نظر رکھنا چاہےے۔ تاہم انفرادی حیثیت میں لیڈر کے اندر وہ اوصاف ہونا ضروری ہےں، جن کا ذکر میں نے پہلے کر دیا۔
شریعہ اینڈ بزنس
آپ نے لیڈرشپ Traits کی بات کی، ہمارا اگلا سوال یہ ہے کہ ان اوصاف و خصوصیات میں سب سے اہم کیا چیز ہے؟ کوئی ایک ایسا فیکٹر جو لیڈر کی نمایاں علامت ہے او راسی سے اچھے لیڈر کا پتا لگایا جاتا ہو، ایسی خوبی کون سی ہے؟
ڈاکٹر محمد اطہرصدیقی
ایک چیز جس کے بارے میں آج کل بہت بات کی جاتی ہے، وہ یہ کہ آپ کا ''وژ ن'' کیا ہے؟ آپ اپنی اگلی نسل کو کیا تصور دے کر جا رہے ہیں؟ آپ نے سوچ کیا پیدا کی؟ یہ چیز بہت اہم ہے۔ اس کے علاوہ چند اور چیزیں بھی بہت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں تکبر نہ ہو۔ وہ انانیت کاپتلانہ ہو، بلکہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا اس میں حوصلہ ہو۔
بہت سارے لیڈر بڑے باصلاحیت ہوتے ہیں، لیکن اپنے کام سے کام رکھنے کے عادی ہوتی ہےں۔ لوگ انہیں اسی وجہ سے ناپسند کرنے لگتے ہیں تو یہ ایک کامیاب لیڈر نہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ لیڈر ''ملنسار'' ہو، بااخلاق ہو۔ جب اہداف و مقاصد کی بات ہو تو یہ ''میں''، ''میں'' نہ کرے، بلکہ اس کامیابی میں سب کو شریک کرے۔ الغرض! میری نظر میں Vision اور Humanity دو چیزیں بہت اہم ہےں۔
شریعہ اینڈ بزنس
آپ کی نظر میں کون سی شخصیت ہے، جن کا مطالعہ انسان کو کامیاب لیڈر بننے میں مدد دے سکے؟
ڈاکٹر محمد اطہرصدیقی
پڑھنے کے لےے ضروری نہیں آپ صرف کسی بزنس لیڈر کو ہی پڑھیں۔ کسی بھی حوالے سے جنہوں نے دنیا کی قیادت کی ہے، آپ ان کو ضرور پڑھیں۔ سیاست کے میدان میں ''نیلسن منڈیلا'' ہیں، سوشل موومنٹ میں امریکی میلکم ایکس، اسی طرح محمد علی (باکسر) مرحوم وغیرہ کو آپ پڑھےے۔ کامیاب لیڈروں میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مخصوص فیلڈ سے ہٹ کر بھی کوئی کردار ادا کیا ہوتا ہے، مثلاً: نیلسن منڈیلا نے پالیٹکس سے ہٹ کر پوری نسل کے لےے جدوجہد کی۔ اسی طرح محمد علی باکسر کو دیکھےے کہ یہ نہیں کہ وہ صرف ایک عظیم باکسر تھا، بلکہ اس نے اپنے کیرئیر کے تین سال بلیک امریکیوں کے حقوق کے لےے وقف کر دےے۔
بہرحال! جن لوگوں نے بطور مجموعی زندگی مثالی انداز میں گزاری ہو، ان کا مطالعہ کرنا چاہےے۔ یہ ضرور ذہن میں رہے کہ دنیا کے سب سے بڑے لیڈر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
بزنس لیڈرشپ کو جاننے کے لےے اہم بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچے؟ اس سفر کے دوران انہوں نے کیسے کیسے وقت گزارا؟ آپ بزنس کے میدان میں Steve Jobs کو دیکھ لیں، جو Apple کے بانی ہیں۔ ان کی زندگی کا خلاصہ یہ تھا کہ ''You Connect the dot backwards.'' کیونکہ ایسا شخص جب اپنی اسٹوری لکھتا ہے تو کامیابی اور ناکامی کی تفصیلات لکھتا ہے، جس سے ہمیں بہت سے قیمتی راز ہاتھ آئے ہیں۔ مطالعہ کرنے میں ہم مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بھی نہ کریں۔ آپ بعض چیزوں سے اتفاق نہ بھی کرتے ہوں، مگر انہیں اپنے مطالعے میں ضرور لے آئیں۔ یہ چیزیں انسان کی سوچ کو وسیع کرنے میں بہت اہم ہیں۔
آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ کے بعد کے زمانے کی لیڈرشپ اور آج کی لیڈرشپ میں کیا فرق ہے؟ جواب یہ ہے کہ آج کل لیڈرشپ کے موضوع پر بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔ کورسز بھی بہت کےے جا رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ لوگ آج کل لیڈرشپ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جب آپ کسی چیز کو Chase کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے مقاصد میں ایک ''Material Gain'' شامل ہو جاتا ہے۔
چنانچہ آپ دیکھیں کہ غیر مسلموں میں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت کو اسٹڈی کیا ہے، انہوں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آخری ''خطبہ حجۃ الوداع'' میں اپنے کارناموں کی تفصیل بیان نہیں کی۔ اپنے کارناموں کا دوسروں سے تقابل کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ آپ عام لیڈروں کا حال دیکھیں تو اندازہ ہو کہ وہ اپنی تقریروں میں دو کام کرتے ہیں: اپنے کارناموں کا اس انداز میں تذکرہ کہ گویا انہوں نے بہت کچھ کیا ہے اور دوسرے کی تنقیص کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ گویا خود پسندی اور عُجب کی طرف چلے جاتے ہیں، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جو لوگ خلوص سے خدمت کر گئے، انہوں نے کبھی کام اس لےے نہیں کیا کہ لوگ اس سے کتنے متاثر ہوتے ہیں۔ میرے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے اعزاز سے نوازیں گے، مگر اس کی اپنی نیت اور ارادہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ میری واہ واہ کریں۔
اس وقت جو لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ''لیڈرشپ کرائسز'' ختم نہیں ہورہا، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ خلوص اور نیت کا عنصر ختم ہو چکا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو میں سمجھانا چاہ رہا ہوں۔ ہم یہ دیکھیں کہ ہم لیڈرشپ پر جو لاکھوں کا خرچ کر رہے ہیں، کیا ہم لیڈرشپ کو محضChase (تعاقب)کر رہے ہیں یا ہم اسے اپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں؟ اگر ذمہ داری سمجھتے تو یہ لیڈرشپ اسکولز، سیمینارز اور کورسز وغیرہ یقیناً بڑی تعداد میں لیڈرشپ پیدا کرتے۔
شریعہ اینڈ بزنس
ہر نوجوان لیڈر بننا چاہتا ہے، آپ کے خیال میں نوجوانوں کی یہ آرزو کیسے پوری ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر محمد اطہرصدیقی
اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے تو کسی عہدے، اعزاز اور کریڈٹ کی لالچ ذہن سے نکال باہر پھینکے۔ وہ یہ سوچے کہ مجھے کوئی عہدہ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ میں اپنا فرض ادا کرتا رہوں گا، لوگوں کی خدمت کرنا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ لیڈر بننے کی خواہش اگر اچھی نیت کے ساتھ ہو تو ایک مستحسن کام ہے، تاہم اس نیت کے ساتھ لیڈر بننا کہ مجھے ایک مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے، یہ ناجائز اور نامناسب ہے۔ اگر خراب نیت ہو تو انسان کی صلاحیتیں ایک غلط مقصد پر لگ کر ضائع ہوتی رہتی ہےں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سے غلط فیصلے بھی کرتا ہے۔ اپنی شہرت کی از خود کوشش کرنا، خوشامدی ایڈوائزرز رکھنا اور اپنا ایک برینڈ بنانے کی کوشش کرنا وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ ایسا شخص کبھی صحیح لیڈر نہیں بن سکتا۔
جو شخص اچھا لیڈر بننا چاہتا ہے، اسے چاہےے کہ کسی اچھے لیڈر کے ساتھ وقت گزارے۔ وہ کسی کی تربیت میں آئے۔ وہ مطالعہ کرے۔ پھر وہ کام کا آغاز بہت چھوٹی سطح سے کرے۔ جب آپ طویل عرصہ کسی کے پاس رہ کر لیڈرشپ سیکھیں گے تو اب جو کچھ آپ بولیں گے، وہ آپ کی اپنی آواز ہو گی، اپنے محسوسات ہوں گے، اپنے مشاہدات ہوں گے۔ خلاصہ یہ کہ اگر آپ لیڈرشپ سیکھنا چاہتے ہیں تو دوسرں میں وقت گزار کر تجربے کے ذریعے سیکھیں۔ یہ نہیں کہ کسی سیمینار کے دو چار سیشن اٹینڈ کر لےے، دو چار اصول یاد کر لےے اور سمجھنا شروع کر دیاکہ مجھے لیڈرشپ کی پوری سمجھ آ گئی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ آپ جب چھوٹی سطح سے آغاز کر کے آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جائیں گے تو آپ وہ کام کریں گے جو آپ کے دل کی آواز ہو گا، نہ کہ کہیں سے سنا سنایا ہوا۔