٭۔۔۔۔۔۔ خالص ترین سونا اور چاندی 24قیراط ہوتے ہیں پھر جوں جوں ملاوٹ کا تناسب بڑھتا ہے کیرٹ کم ہوتا چلا جاتا ہے
٭۔۔۔۔۔۔ متعدد بار حکومت کو لکھ چکے ہیں کہ سونے کی ''ہول مارکنگ'' کی جانی چاہیے
٭۔۔۔۔۔۔ لاہور سے سونے کی ہول مارکنگ کا کام شروع ہورہا ہے
سونے کی قیمتوں پر متوقع عالمی جنگوں کے اثرات
جنگیں اگر شاہوں کا بزنس کہلاتی ہیں تو دوسری طرف ملکوں کی تجارت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہیں۔ ہم نے پوچھا: ''کیا یہ درست ہے گولڈ کی قیمتوں کے گرنے میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی متوقع جنگ بھی سبب کے طور پرموجود ہے، امریکا اس جنگ کی تیاری کے لیے سونا ذخیرہ کر رہا ہے، سونے کی قیمتوں پر اس قسم کی جنگوں کا کیا اثر ہے اور مذکورہ بالا پیشن گوئیوں کی کیا حقیقت ہے؟'' صدر صرافہ مارکیٹ کہنے لگے: ''جنگوں کا اثر دیگر بہت سی چیزوں کی طرح سونے پر بھی پڑتا ہے، مثلاً: ایران پر اگر حملہ ہوتا ہے تو سونے کا بحران وجود میں آسکتا ہے۔''
کھرے کھوٹے کی پہچان کیسے ہو؟
اب جوہر رہے نہ جوہری کہ کھوٹے کو کھرے سے الگ کر دکھاتے۔ اب تو دھوکہ بازی میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا ہی کمال ٹھہرا ہے۔ اگر خرید و فروخت بھی سونے کی ہو تو خدشات کا ایک طوفان دماغ میں امڈ ا چلا آتا ہے۔ سوچا: کیوں نہ ایک ماہر زر شناس سے اس کی پہچان پوچھ لی جائے۔ سوال سن کر بابائے گولڈ کہنے لگے: ''میں اخبار میں اکثر یہ بیان دیتا رہتا ہوں ، ہرسال ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک ادارہ ہے: آل پاکستان جیم اینڈ جیولرز ڈیویلپمنٹ کمپنی۔ یہ حکومت سے منظور شدہ ادارہ ہے۔ مگر یہاں بندر بانٹ کا راج ہے۔ ہمارا سونا ایکسپورٹ تو ہورہا ہے، مگر ''ہول مارکنگ'' نہیں ہورہی۔ خریدنے والے کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا لے رہا ہے؟ 18 کیرٹ یا 12 یا 22یا 24۔ میں اپنے کاریگروں سے صاف کہتا ہوں: کسی بھی زیور وغیرہ پر غلط مہر نہ لگاؤ، تم اﷲ کے ہاں جواب دہ ہو۔ پہلے ''سنار'' پر بھرپور اعتماد ہوتا تھا۔ بچی کی شادی اس وقت تک طے نہ کی جاتی تھی، جب تک کہ سونا کسی سنار سے خریدا نہ گیا ہوتا تھا۔ ان سناروں پر اتنا اعتماد تھا کہ ان کا دیا ہوا سونا، خاموشی سے پوٹلی میں باندھ کر سسرال کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ مگر اب اس شعبے میں ''انویسٹر''گھس آئے ہیں۔ وہ دھوکہ، فراڈ اور دو نمبری کا بازار گرم کیے ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ خاندانی لوگوں نے اس کاروبار کو چھوڑدیا ہے۔ وہ اپنے طریقے سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایسی حرکت کرتے بھی نہیں۔ کھوٹ، ملاوٹ اور فراڈ وغیرہ عام طور پر سونے کے کاروبار سے منسلک غیر خاندانی لوگ اور پیشہ ور انویسٹر ہی کرتے ہیں۔''
کھوٹ کی پہچان کے تین آسان طریقے
مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار تھا کہ ایک عام گھریلو خریدار کیسے پتہ لگائے کہ کون سا سونا کھوٹا اور کون ساکھرا ہے؟ نیز مختلف کیرٹ کیسے پتہ چلائے جائےں؟ الحاج صاحب نے اب واضح بتلایا: خریدار یہ توخوب سمجھتا ہے کہ یہ گولڈ ہے اور وہ ڈائمنڈ۔ اب رہی خالص، ناخالص کی بات تو اس کی پہچان یوں ہوگی کہ سوچا جتنا اچھا ہوتا ہے، وہ وزن زیادہ رکھتا ہے، جگہ کم گھیرتا ہے۔ جتنا ہلکا سونا ہوگا، وہ وزن کم رکھے گا، جگہ زیادہ گھیرے گا۔ کیرٹ کا فرق سونا ہاتھ میںلینے او ر ذرا تجربہ رکھنے سے پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قیمت کے فرق سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پرنٹ او ر الیکٹرانک میڈیا کی تیز رفتاری کے باعث ہر شخص قیمت کی تازہ تبدیلی سے واقف ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا اگر اسے کہیں سے غیر معمولی کم قیمت کے ساتھ سونا مل رہاہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیاہے کہ وہ انتہائی کھوٹا ہے۔ انٹرنیشنل طور پر ہر کیرٹ کے الگ الگ ریٹ ہیں۔ یوں کیرٹ پوچھ کر اور عالمی مارکیٹ کی قیمت سے موازنہ کر کے اچھی قسم کا سونا دریافت کیا جاسکتا ہے۔
اصل وجہ یہ ہے کہ صرافہ مارکیٹ کے لیے بھی ''چیک اینڈ بیلنس'' کا فقدان ہے۔ اگر یہاں بھی قانون کی صحیح حکمرانی ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ سونا ہر کیرٹ کے حساب سے نشان زد ہو، جو درست بھی ہواور مسلسل نگرانی کے ذریعے اس کے معیار کو شفاف رکھا جائے۔ جیسے عرب ممالک میں ''ہول مارکنگ'' ہوتی ہے۔ اگرآپ وہاں جائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہاں کی شہری انتظامیہ سونے کو مکمل طور پر پہلے چیک کرتی ہے، پھر سرٹیفیکٹ جاری کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس طرح ہو تو سونا اپنے اصل کیرٹ کے اعتبار سے ملنے لگے گا۔دیگر بہت سی وجوہ کی طرح عمومی دھوکے کا ایک سبب چیک اینڈ بیلنس کافقدان بھی ہے۔'' اگر کوئی گاہک یا فروخت کنندہ ہمارے پاس اس قسم کی شکایت لے کر آئے تو ہم اس کا یہ مسئلہ بھی حل کرتے ہیں۔
یہ دہرے پیمانے کیسے؟
چلیے مان لیا کہ سونا کبھی سستا ہوتاہے، کبھی مہنگا۔ یہ بھی کہ عالمی مارکیٹوں کا تسلط ہے اور ملکی انویسٹر گھپلے باز۔ مگرایک بات سمجھ سے بالاتر لگتی ہے کہ اگر سونا خریدنے جائیں تو مہنگا ہوتا ہے، مگر اسی قسم، اسی کیرٹ کو دوبارہ بیچنے چلے جائیں تو قیمت ایک دم دھڑام سے نیچے آرہتی ہے؟ جہاندیدہ صدر صراف اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن اس بابت کیا سمجھتے ہیں؟ ''اس کی وجہ بھی دراصل چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا ہے۔ '' انہوں نے مختصر جواب دیا۔
کیرٹ کا چکر کیا ہے؟
''طویل گفتگو میں18،22 اور 24 کیرٹ کا ذکر آیا۔ عوام النا س کے لیے اس کی وضاحت ہوجائے؟'' بتلایا گیا: ''بنیادی طور پر سونے کی ایک ہی قسم ہوتی جسے انگلش میں 24کیرٹ (Carrot)، عربی میں 24 قیراط کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے خالص سونا یا پانسے کا سونا کہا جاتا ہے۔ضرورت کے مطابق اس میں ملاوٹ کرکے اس کے کیرٹ کو کم کردیا جاتا ہے۔ جس سے اس کی مختلف اقسام وجود میں آجاتی ہیں۔پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک کی منڈیوں میں خالص سونا دو شکلوں میں دستیاب ہے۔ سونے اور چاندی کے خالص ہونے کو قیراط کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ خالص ترین سونا اور چاندی 24 قیراط ہوتے ہےں۔پھر جوں جوں ملاوٹ کا تناسب بڑھتا ہے، کیرٹ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثلا:گیارہ ماشے خالص سونا+ایک ماشہ ملاوٹ=ایک تولہ سونا 22کیرٹ۔۔۔۔۔۔ساڑھے دس ماشے خالص سونا+ڈیڑھ ماشہ ملاوٹ=ایک تولہ سونا 21 کیرٹ۔۔۔۔۔۔ دس ماشے خالص سونا+دوماشہ ملاوٹ= ایک تولہ سونا 20 کیرٹ ۔۔۔۔۔۔ نو ماشے خالص سونا+تین ماشے ملاوٹ=ایک تولہ سونا 18 کیرٹ۔''
ٹیکس کی صورت حال
تاجر برادری کو حکومت سے سب سے بڑا گلہ بے جا و بے تحاشا ٹیکس عائد کرنے کا ہوتا ہے۔ آپ حکومت سے جیولرز برادری کے مسائل بھی ڈسکس کرتے رہتے ہیں تو آپ پر لاگو ٹیکس کی کیا صورت حال ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محترم چاند صاحب کہنے لگے: ''ہمارے اوپر ٹیکس تو صرف ''انکم ٹیکس''ہی ہے یا پھر ایکسپورٹ یا امپورٹ پر ہولڈنگ ٹیکس ہوتا ہے۔ ''
ہول مارکنگ کیا، کیوں اور کیسے؟
بتایا گیا کہ ہول مارکنگ سونے کی شفاف تجارت کا ایک عالمی طریق کار ہے اور پاکستان میں اس کاوجود نہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے اس ہول مارکنگ کی وضاحت کردی جائے۔ اس درخواست پر انہوں نے وضاحت کی: ''سونا جوزیور کی صورت میں بنتا ہے، اسے پہلے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے بعدسرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ پھر کیرٹ کے حساب سے 22,24وغیرہ نمبر لگا دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے سے گزر کر لگایا گیا نمبر بالکل درست ہوتا ہے۔ میں نے اس حوالے سے خاصی کوشش کی ہے۔ حکومت کو لیٹر بھی بھیجے۔ اخبارات اور انٹرویوز میں آواز بلندکی۔ کچھ د ن قبل میں نے سی او سے ہول مارکنگ کے لیے بات کی۔ انہوں نے یہ خبردی ہے کہ ہم لاہور سے اس کا آغاز کررہے ہیں۔ اﷲ کرے یہ جلد شروع ہوسکے۔ آمین۔
صرف پاکستان میں اس کے لیے ابھی تک کوئی ادارہ وجود میں نہیں آیا، لیکن میری معلومات کے مطابق پوری دنیا میں اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ یورپ میں تو اس کے سوا چارہ نہیں۔ امریکا میں جو 9 کیرٹ سونا بکتا ہے، اس کی بھی ہول مارکنگ کی گئی ہوتی ہے۔''
سونا کتنا حکومتوں کے پاس؟ کتنا عوام کی ملکیت میں؟
''سوال یہ ہے کہ کتنا سونا اس وقت حکومتوں کی ملکیت میں ہے اور کس قدر عوام الناس کے پاس؟'' محترم ہارون رشید نے جواب دیا: ''میرے اندازے کے مطابق سب سے زیادہ امریکا کے پاس ہے، مگر اس کی ویب سائٹ دیکھیے تو کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرے نمبر پر چائنا نے محفوظ کیا ہوا ہے، جبکہ سونے کی خریداری میں تیسرا درجہ انڈیا کا ہے۔ یہ دونوں ایشیا میں ہیں۔ علاوہ ازیں یورپ اور آسٹریلیا کے پاس بھی سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ انڈیا کے پاس اس قدر ذخائر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ان کے ہاں کرنسی کو مذہبی حیثیت حاصل ہے۔ ہمارے ہاں بس اتنا ہے کہ سونے کی منتقلی وراثت کے ذریعے ہوتی ہے۔ شادی کے موقع پر بچی کو دے دیا جاتا ہے، اس طرح سونااگلی نسل میں منتقل ہوجاتا ہے۔''
کیا سونا دوبارہ عالمی کرنسی بن جائے گا؟
تاریخ خود کو دہرایا ہی کرتی ہے۔ دنیا نت نئے تجربات سے گزرتے ہوئے دوبارہ سے پتھر کے زمانے میں پہنچنے کے لیے پرتول رہی ہے۔ سونے کو اﷲ نے پیدا ہی کرنسی بنا کر کیا ہے، لہٰذایہ ایک بار پھر دنیا بھر کی کرنسیوں کو شکست دے کر منظر عام پر آیا ہی چاہتی ہے۔'' کیا یہ سچ ہے؟ اور کہاں تک ؟'' محترم ہارون رشید چاند نے اپنے تجربے کی روشنی میں اس کا جوا ب کچھ یوں دیا: ''میرا یہ خیال ہے کہ قدیم یونان اور عرب کے سکّوںکی طرح سونا دوبارہ عالمی کرنسی بن جائے گا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سونا جگہ بہت کم گھیرتا ہے۔ اس قسم کا انقلاب ایشیا میں بظاہر مشکل لگتا ہے، کیونکہ یہاں ''پرچیزنگ'' پاور ختم ہوتی جارہی ہے۔''
سود میں کون ملوث ہیں؟
''سونے کی تجارت میں آدمی سود کی غلیظ سرحد میں کیسے داخل ہوجاتا ہے اورکیوں؟''جواب میں کہا گیا: ''تجارت کوئی بھی ہو، سود کے بغیر نہ صرف یہ کہ بالکل ممکن ہے، بلکہ نہایت ثمر آور ہوتی ہے۔ مگر سود جیسی بھونڈی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جو شارٹ کٹ طریقے سے اپنے خوابوںکی تعبیر چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایک فطری اور تدریجی ترتیب سے، سود کا سہارا لیے بغیر چلتے رہیں تو انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو اور نقصان کے کم سے کم اندیشے کے ساتھ صاف، پاک اور بابرکت سونے کی تجارت انہیں میّسرآئے۔''
بزنس کمیونٹی مسائل کے حل کے لیے ذاتی ذرائع سے گریزاں کیوں؟
''یہ ایک رِیت ہے کہ کسی بھی ملک کا صدر یا وزیر اعظم اپنے ہاں کی بزنس کمیونٹی کے اخراجات کے بل بوتے پر منصب تک پہنچتا ہے۔ اس کامطلب ہے اگر بزنس کمیونٹی ساتھ نہ دے تو ان کے لیے جیتنامشکل ہو جائے۔ یہی کچھ صورت حال پاکستان کی ہے۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں بزنس کمیونٹی اپنے مسائل کے حل کے بارے سب سے زیادہ ناراض اور نالاں نظر آتی ہے؟ تب پھر یہ لوگ کسی قسم کی سیاسی ڈونیشن سے پہلے اپنے حقوق کی بحالی اور مسائل کے حل کے لیے کوئی مضبوط معاہدہ کیوں نہیںکرلیتے؟ وہ کوئی لائحہ عمل دےں او ر اس پر عمل کروانے تک پیچھے نہ ہٹےں؟ ایسا کیوں ممکن نہیں ہو سکا؟'' جواب دیتے ہوئے الحاج ہارون رشید صاحب نے کہا: ''اوّلاً تو بزنس کمیونٹی گویا کہ ہائی جیک کر لی جاتی ہے۔ دوسرے، اصل حل یہ ہے کہ خود تاجر برادری اسمبلیوں تک پہنچے، ایسا بھی ابھی تک نہیں ہوسکا۔ کوئی قابل ذکر پرسینٹج پاکستان کی پارلیمنٹ میں بزنس کمیونٹی کی موجود نہیں۔ تیسرے، تاجر دراصل فطرتاً ہی اس چیز سے دور بھاگتا ہے۔ وہ کسی مسئلے کے حل کے جھنجٹ میں نہیں پڑنا چاہتا، وہ جہاں اپنے چار پیسے کا فائدہ دیکھتا ہے، اسی کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ سو، ان وجوہ سے بزنس کمیونٹی سرکاری سطح پر اپنے مسائل کے حل سے قاصر نظر آتی ہے۔''