٭۔۔۔۔۔۔ میرا تجربہ ہے جب تک آپ کاروبار کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہوجاتے، آپ ہر گز اسے ترقی نہیں دے سکتے
٭۔۔۔۔۔۔ آدمی کو ابتدئی اور چھوٹے چھوٹے نقصانات پر نظر نہیں کرنی چاہیے، ان کے ذریعے آپ اپنا اعتماد قائم کرلیں، پھر اپنی اور اپنے کاروبار کی اڑان دیکھیں
٭۔۔۔۔۔۔ اعتماد کی مسلسل بہتر ی کے لیے میں نے ترجیحی بنیادوں پر ''پیمانے'' کو شفاف بنایا اﷲ سے ملانے والے راستے بے حد و

حساب ہیں۔ ولایت کا کیف اگر تجارت کے واسطے سے کسی کو نصیب ہو سکتا ہے تو میرے خیال میںاس کی مثال وہی شخصیت تھی، جس سے ہم اُس وقت مخاطب تھے۔ لمحہ بہ لمحہ ''الحمدﷲ!''کی صدا، دم بہ دم ''سبحان اﷲ!''کے ورد اور وقفے وقفے سے ''ان شاء اﷲ!'' کی تکرار نے گفتگو کے ماحول کو کشت زعفران ہی بنا دیا تھا۔ کیا تجارتی اخلاقیات و اقعتا تجارت کی ترقی کا ایک فلسفہ قرار دی جاسکتی ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان پوری مارکیٹ اور خاندان کی مخالفت مول لے کر اور عدالتی مقدمات کا سامنے کر کے بھی سنت، شریعت اور اصول تجارت پر کار بند رہے؟ اس سے بڑھ کر وہ دل سے مانتا اور تجربے سے جانتا ہو کہ بلا شبہ سود، جھوٹ اور فریب سے پاک بزنس ہی کامیابی کا اصل راز ہے؟ نیز کیا اس دور میں بھی گاہک کی خدمت، پارٹنر کے ساتھ دیانت اور تجارت کو عبادت بنا کر دنیا و آخرت کی راحتیں سمیٹی جا سکتی ہیں؟ گفتگو کے اختتام تک ہمیں اپنی مطلوبہ شخصیت مل چکی تھی۔ یہ داستان آپ بھی پڑھیے کہ آج کی کاروباری اندھیر نگریوں میں اخلاقیات کا چراغ کیسے روشن کیا جا سکتا ہے۔ ریلش فوڈ ز کے مثالی منیجنگ ڈائریکٹر نے گفتگو کا آغاز اپنے تعارف سے کیا۔ ''میرا نام حافظ محمد آ صف اعوان ہے۔ ''ریلش (Relish)فوڈز'' کے نام سے ہم کاروبار کررہے ہیں۔ کاروبارمیں میرے پارٹنر محمد شعیب انور اعوان ہیں۔ 2003ء میں ہم نے بہت چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا آغاز کیا۔ راولپنڈی کے ایف سی سرسیّد کالج میں، میں نے سی ایس ایس کے لیے داخلہ لیا۔ یہ کالج پنجاب کے ٹاپ کلاس تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ آرمی افسران کے بچے اس میں پڑھتے ہیں۔ محدود نشستیں سو یلین کی بھی ہوتی ہیں۔ میں بھی اچھی استعداد کا حامل تھا۔ سویلین کے کوٹے میں مجھے بھی داخلہ مل گیا۔ ''پولیٹیکل سائنس'' میرا خصوصی مضمون تھا۔ دین داری کی طرف رجحان کا سبب علاقے میںموجود ایک دینی مدرسہ بنا۔ صرف حفظ کی تعلیم وہاں ہوتی تھی۔ تربیت او ر ذہن سازی پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ وہاں پڑھتے ہوئے آدمی کی طبیعت محنت کی عادی بن جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں کے پڑھے ہوئے اسکول میں ٹاپ کرتے تھے۔ میں نے وہاں حفظ کیا تھا۔ لہٰذا شروع سے ہی میں نے درست سمت پر اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی۔ ''
ہونہار بُرواکے چکنے چکنے پات۔ اس سے پہلے کہ ہم تعلیم سے بزنس کے اکھاڑے میں اترنے کا سبب پوچھتے، انہوں نے خود بات آگے بڑھا دی۔ سن 96ء میں بی اے کرنے کے بعد میرے ذہن میں آئیڈیا آیا کہ ہمارے علاقے وادی ''سون سکیسر'' میں زراعت کا بہت کام ہے۔ اس وقت ہمارے گاؤں میں ٹریکٹر اور ٹیوب ویل بہت زیادہ استعمال میں تھے۔ 40کے قریب ٹریکٹر اور متعدد مقامات پر ٹیوب ویل لگے تھے۔ لوگوں کو تیل خریدنے کے لیے دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا۔ اس کے پیش نظر میں نے اسٹاک خرید لیا اور یہیں سے میرے بزنس کا آغاز ہوا۔ لوگوں کا بھرپور رجحان ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں ہماری یہ ایجنسی مشہور ہوگئی۔ لوگ دور دور سے آکر ٹرک اور ٹرالی میں گیلن بھر کے لے جانے لگے۔ میں پیمانہ بہت اچھا استعمال کرتا تھا۔ گاڑی کا ڈرم اگر پٹرول پمپ والے 235لیٹر کے ذریعے بھرتے تھے تو میرے پاس 215 لیٹر میں بھر جاتا تھا۔ یہی چیز شہرت کا باعث بنی۔ میرے گھر والے بھی اس کے حق میں نہیں تھے، اسی طرح قریب کے پٹرول پمپ والوں نے بھی میرے خلاف کیس کیے۔''
شور تو بہت مچتا ہے، سینے میں دل کا۔ ہر تاجر ''آپ کی خدمت میں پیش پیش''، ''تجارت نہیں، خدمت انسانیت'' کے بلند بانگ نعرے لگاتا ہے، مگر بات جب بنے، جب ایسا کر کے دکھائیے ۔ آصف اعوان اس وعدے کو خوب وفا کیے ہوئے ہیں۔ گفتگو آگے بڑھی تو گویا ہوئے: ''بزنس کو مزید وسعت اس طرح دی کہ میں نے اعلان کیا: جہاں کہیں تھریشر مشینیں لگیں گی، ہم بلامعاوضہ تیل وہیں پہنچائیں گے۔ یعنی ترسیل کا خرچہ ہم نہیں لیں گے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ فصل کی کٹائی کے زمانے میں کسان بھائیوں کے پاس رقم نہیں ہوتی۔ ا سی کے پیش نظر ہم نے مزید یہ کہا کہ تیل بھی انہیں ادھارمل سکتا ہے، فصل فروخت کرکے رقم ادا کردیں۔ جس کے دوران میں یہ بزنس جاری رکھے ہوئے تھا، میرے کوئی خاص اخراجات نہ تھے۔ سرمایہ ''ری انویسٹ'' ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی توجہ کسٹمر کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے پر مرکوز رکھی۔ میرے مذکورہ اقدامات کے باعث گاہکوں کا اعتماد دن بدن تیزی سے بڑھ رہا تھا۔''


میرا تجربہ ہے جب تک آپ کاروبار کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہوجاتے، آپ ہر گز اسے ترقی نہیں دے سکتے ٭ آدمی کو ابتدئی اور چھوٹے چھوٹے نقصانات پر نظر نہیں کرنی چاہیے، ان کے ذریعے آپ اپنا اعتماد قائم کرلیں، پھر اپنی اور اپنے کاروبار کی اڑان دیکھیں

کاروبار کی دنیا میں اصول اور تجربے کا بڑا دخل ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں، ہر چیز کی طرح اصول بھی ''امپورٹڈ'' ہونے چاہییں ۔ کیا ہی بہتر ہو اگراﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ اصولوں کو ہم حرف آخر مانیں۔ اپنی یہ آرزو بھی ہمیں ریلش فوڈز کمپنی کے سربراہان کے ہاں مجسم شکل میں دکھائی دی۔ وہ بتا رہے تھے: ''اعتماد کی مسلسل بہتر ی کے لیے میں نے ترجیحی بنیادوں پر ''پیمانے'' کو شفاف بنایا۔ اسی مقصد کے لیے کبھی دو نمبر چیز فروخت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس زمانے میں ایک مخصوص کمپنی کا آئل جو یقینا دو نمبر تھا، لوگ دھڑا دھڑ فروخت کرتے تھے، میں نے اس کا قطعی بائیکاٹ کیا اور بالکل خالص چیز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ لوگ دور دور سے آتے، کبھی تو بیچارے مشقت برداشت کر کے آتے۔ ایک دفعہ ایک کار والا پیٹرول ڈلوانے آیا۔ بالکل اجنبی تھا۔ پوچھا: کیسے پہنچے؟ اس نے بتایا: راستے میں ایک آٹو والے نے آپ کا پتہ دیا اور کہا کہ اگر خالص چاہتے تو فلاں آدمی کے پاس چلے جاؤ۔''
یہ ان کے کاروبارکا بنیادی اصول تھا۔ اب انہوں نے اپنے مزید دو اہم تجربے ذکر کیے: ''آدمی کو ابتدئی اور چھوٹے چھوٹے نقصانات پر نظر نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے ذریعے آپ اپنا اعتماد قائم کرلیں، پھر اپنی اور اپنے کاروبار کی اڑان دیکھیں۔ اﷲ کتنی مدد کرتا ہے، اس کا اندازہ شریعت اور ایمانداری کا خیال رکھ کر چلنے والے کو ہی ہو سکتا ہے۔
تیسرے نمبر پر بالخصوص اپنے ملازمین کو خوش رکھنا ہماری حکمت عملی کا حصہ رہا۔ سب سے پہلے ہمارے ہاں جوکام کرنے آیا، ایک ریٹائرڈ صوبیدار تھا۔ انہوں نے کئی کورسز کیے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ طے کیاجب میں موجود نہیں ہوںگا، آپ ذمہ داری سنبھال لیاکریں گے۔ا نہوں نے ماشاء اﷲ! اخلاص کی انتہا کردی۔ وہ کام کو بالکل ذاتی کام سمجھ کر کرتے تھے۔ میں بھی ان کے احسان کا بدلہ دینے کی کوشش ضرور کرتا تھا۔ وہ جب واپس گاؤں جانے لگتے، گوشت وغیرہ تک کے پیسے انہیں دے دیتا۔ بہر حال! اﷲ کے فضل و کرم سے میں نے اس کاروبار میں جو پالیساں بنائی تھیں۔ و ہ آج بھی لوگوں کے لیے پر کشش ہیں۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی کا ٹریکٹر خراب ہو جائے اور رقم نہ ہو تو وہ مجھ سے رقم لے کر اسے ٹھیک کروالے، بعد میں ادا کردے، کیونکہ میں سمجھتا تھا ، یہ میرا کسٹمرہے اور اس سہولت کی وجہ سے وہ مجھ سے کبھی ٹوٹے گا نہیں۔''
اپنی کامیابیوں کی داستان سناتے سناتے اچانک انہوں نے کہانی کو پھر صفر پر لا کھڑا کیا۔ یوں سمجھیے تندی باد مخالف نے انہیں ایک جھٹکا دیا، جو چلتی ہے اونچا اڑانے کے لیے۔ کہنے لگے: ''پھر ایک وقت آیا مجھے یہ کاروبار چھوڑنا پڑا ۔ اس کے باوجود کہ میرے والدین کاروبار کی حد درجہ مقبولیت اور تیز رفتاری کو دیکھ رہے تھے، مگر وہ میرے لیے تعلیم کو بہتر سمجھتے تھے۔ میری والدہ اسکول ٹیچر تھیں۔ انہوں نے چاہا کہ میں ام القریٰ یو نیورسٹی میں داخلہ لوں اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے وطن واپس آؤں۔
میرے والدین سمجھتے تھے کہ ابھی میری عمر پڑھنے کی ہے، لہٰذاپہلے تعلیم مکمل کرنی چاہیے۔ سعودی عرب کی کوشش کرتے ہوئے میرا فارم لیٹ ہوگیا۔اسی وجہ سے میں راولپنڈی آگیا۔ اپنے گاؤں والا کاروبار کسی اور فروخت کردیا۔'' حافظ محمد آصف اعوان والدین کی آرزو اور اپنے طبعی رجحان کی جس زد میں آگئے تھے، قرعہ فال ان کے اپنے حق میں نکلا اور وہ دوبارہ نئے رخ سے محوِ پرواز ہو گئے۔ بتارہے تھے: ''راولپنڈی میںاپنے جن عزیز کے ہاں پہنچا، انہوں نے ایک بیکری میں حصّہ ڈالا ہوا تھا۔ اتفاق سے یہ بیکری نقصان میں جارہی تھی۔ یہ میرے ماموں کے بیٹے تھے۔ ماموں نے مجھے کہا کہ آپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کا تعاون کریں۔ میں اس وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہ تھا کہ میرے بزنس کے اپنے تجربات اور اصول ہیں، اگر میں نے ان پر عمل کرنا چاہا تو مجھے کاروبار کی تجدید کرنا پڑے گی یا پھر ان سے جدائی اختیار کرنا ہو گی۔ انہوں نے میری والدہ سے سفارش کروائی کہ اسے شامل ہوجانے کا کہیں۔ یہ 97ء کی بات ہے۔ میں ایک لاکھ روپے کے ذریعے ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔''
آدمی اصول پر کار بند، عزائم کا شہسوار اور اپنے کام سے مخلص ہو جائے تو اس کے لیے آسمان کے ستارے توڑ لانا کیا مشکل ہوتا ہے، ریلش فوڈز کے ڈائریکٹر نے بھی ایسا کرشمہ کر دکھایا۔ ان کی زبانی سنیے: ''میں نے اس بیکری کا حصّہ بنتے ہی ان وجوہات میں غور کرنا شروع کیا جن کے باعث بیکری خسارے میں جارہی تھی۔ میرا اپنا تجربہ ہے جب تک آپ کسی چیز کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہوجاتے، آپ ہر گز اسے ترقی نہیں دے سکتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ٹینکی میں لیکج آجائے۔ آپ بے خبری میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹینکی کو بھرنا شروع کردیں۔ آپ مسلسل نقصان میں رہیں گے۔ لہٰذامیں نے یہی کیااور کاغذ قلم لے کر بیکری کے نقصانات میں غور کرنا شروع کیا۔ میں نے ایک مہینے کے اندر یہ پیپر ورک مکمل کیا اور بیکری کی اصلاح کے لیے کئی سرے میرے ہاتھ آگئے۔ ان وجوہ میں ایک چھوٹی سی وجہ آپ کو بتاؤں۔ بیکری میں بہت سارے اخبارات آتے تھے۔ اخبار والے نے وہاں اپناٹھیّہ لگا رکھا تھا۔ لوگ آتے، اخبار اٹھا کر پڑھنا شروع کردیتے۔ اسی شام اخبار والے کو قیمت ادا کرنا ہوتی تھی۔ میں نے اندازہ لگانا چاہا کہ اخبار والے کو اس سے کتنا نفع ہوتا ہے؟ پتا چلا کہ اسے اچھا خاصامنافع ہوتا ہے۔ تقریباً 33 فیصد پرافٹ اسے ہوتا تھا۔ میں اخبار والے سے کہا: آپ یہاں اخبار رکھتے ہیں، جس کے باعث آپ کا اخباراچھا خاصا فروخت ہوتا ہے۔ آپ اپنے پرافٹ میں سے ہمیں بھی حصّہ دیں۔ اس نے انکار کیا اورکہا میں کسی اور دکان پر رکھ لوںگا۔ اس کا یہ تجربہ ناکام رہا۔ دوبارہ ہمارے ہاں آیا تو اس نے کہا: میں ہر اخبار پر ایک روپیہ آپ کودوں گا۔
اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ مال پہنچانے والے اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ''بریڈ'' دینے والا آیا۔ آتے ہی بیکری کا ایک خانہ بریڈ سے بھرنے لگا۔ میں نے اسے کہا: ہماری ضرورت تو صرف 10 بریڈ کی ہے۔ اس نے میری بات سنی ان سنی کردی۔میں نے دیگر ذمہ داران سے بات کی۔ انہیں کہا کہ اگر بیکری کو بحال کرنا چاہتے ہیں توکام کرنے کے مکمل اختیارات مجھے دے دیں۔ میں نے اس سے پہلے انہیں اپنی جائزہ رپورٹ دکھاچکا تھا۔ وہ اس پر آمادہ ہوگئے۔ اختیارات حاصل کرنے کے بعد میں نے ہر باریک باریک بات کی فوری اصلاح کا عزم کیا۔
ایک گاہک آتا، اس کی ڈیمانڈ کے مطابق چیز موجود نہ ہوتی تو اسے لکھ لیتا اور آنے والے گاہک کو خود موٹر سائیکل پہ جا کر کہیں سے فوری لادیتا۔ ساتھ ساتھ میں نے معیاری اشیا دکان میں جمع کرنا شروع کیں۔ مہنگی مہنگی چاکلیٹس لا کر رکھیں۔ ساتھیوں نے کہا: اتنی مہنگی کون خریدے گا؟ پھر وقت آیا کہ ہمارے لیے ڈیمانڈ پوری کرنا مشکل ہوگیا۔ یوں بہتری اور اصلاح کا سفر جاری رہا۔ الحمدﷲ! صرف تیسرے مہینے میں ہم نے اندازہ کیا تو ہم نقصان سے باہر آچکے تھے اور ہمارا نفع ہزاروں میں تھا۔ (جاری ہے)