٭۔۔۔۔۔۔ ہم اس پر آمادہ نہ ہوئے کہ آغاز ہی میں اپنے بزنس کورشوت کی لعنت سے آلودہ کریں ٭۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے صلوۃ الحاجت پڑھنے سے آدمی کو بہت ہی اطمینان نصیب ہوجاتا ہے
محمد آصف اعوان کی اگلی گفتگو نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صلہ رحمی (رشتے، ناتے جوڑنے ) والا حکم یاد دلایا۔ جسے وہ

خوب نبھا رہے تھے۔ نیز اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والا انعام بھی ان کے ہاں موجود نظر آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ''جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت دی جائے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔'' آئیے! ریلش فوڈ کے ڈائریکٹر کی زبانی ۔۔۔۔۔۔ان کے خود بیتے۔۔۔۔۔۔ اسی نوعیت کے تین واقعات سنتے ہیں۔ وہ فرمارہے تھے: ''میرا ایک چچا زاد ان دنوں بے روزگار تھا۔ اس کی شادی ہوچکی تھی اور لااُبالی بہت تھا۔ میرے چچا اسے کاروبار کے لیے رقم دیتے، وہ شہر چلا جاتا۔ کچھ دنوں بعد پیسے ختم کر کے خالی ہاتھ واپس آجاتا۔ میں گاؤں گیا تو میرے چچا نے کہا: میرے اس بیٹے کی اہلیہ مجھے کہتی ہے، جب تک آپ زندہ ہیں ، تب تو گزارا چل سکتا ہے۔ میرے شوہر کی یہی حالت رہی تو آگے چل کر میرا کیا بنے گا؟ اس بات کا میرے ذہن پر بڑا اثر ہوا۔ میں نے اپنے چچا، اس کی اس بہو اور اپنے غافل چچا زاد کے لیے کچھ کرنے کا عزم کیا۔


٭۔۔۔۔۔۔ ہم اس پر آمادہ نہ ہوئے کہ آغاز ہی میں اپنے بزنس کورشوت کی لعنت سے آلودہ کریں ٭۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے صلوۃ الحاجت پڑھنے سے آدمی کو بہت ہی اطمینان نصیب ہوجاتا ہے

میں نے چچا سے کہا: اب جب وہ واپس آئے تو اسے پیسے نہ دیں۔ صرف راولپنڈی کا کرایہ دے کر میرے پاس بھیج دیں۔ میرا یہ چچا زاد اپنی حرکتوں کی وجہ سے خاندان بھر میں بدنام ہوچکا تھا۔ میںخود بھی راولپنڈی میں ماموں کے ہاں رہتا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو ماموں نے اسے کافی سخت سست کہا۔ یہ ماموں کے ہاں سے مایوس لوٹ رہاتھا کہ رستے میں میری اس سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھے کہا: آپ کا بہت شکریہ، آپ نے اخلاص کے ساتھ بلایاتھا، مگر میں ماموں کے رویّے سے دلبرداشتہ ہوگیا ہوں اور اب واپس جانا چاہتا ہوں۔ میںنے اس سے حد درجہ اپنائیت کا اظہار اس طرح کیا کہ اب یا تو آپ یہیں ٹھہر جائیں یا پھر میںبھی آپ کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوجاتا ہوں۔ میں نے اسے راضی کیا اور ماموں کو بھی اس کے حوالے سے قائل کرلیا۔ اس کے لیے میرے ذہن میں یہ آئیڈیا آیا کہ جن کمپنیوں سے ہم ''بریڈ'' لیتے ہیں، اس کا رابطہ ان سے کروا دیتے ہیں۔ یہ ان سے خرید کر دکانوں پر سپلائی کرتا رہے گا۔ میں نے جاکر ایک کمپنی سے بات کی اور کہا کہ ہم سیل کے لیے مزید بریڈ آپ سے لینا چاہتے ہیں ، آپ قیمت کچھ کم کریں ۔ وہ راضی ہو گئے۔ اتنا طے کرنے کے بعد میں موٹرسائیکل پر اس کے کاروبار کی مارکیٹنگ کے لیے نکلا۔
ہر دکان پر جاکر تعارف کرواتا کہ یہ میرے کزن ہیں۔ میں ان سے کہتا: آپ ا بتدائی طورپر ہر روز ان سے تین بریڈ خرید لیا کریں۔ یوں فرداً فرداً ملاقات کے نتیجے میں اچھی خاصی مارکیٹنگ ہوگئی۔ کمپنی سے میں نے پہلے ہی رعایتی قیمت اس کے لیے منظور کروالی تھی۔ اپنے لیے الگ ریٹ سے خریدتے، چچا زاد کے لیے الگ ریٹ کے ساتھ۔ اس نے بتائے گئے طریقے پر سپلائی شروع کردی۔ کزن کے کاروبار کو مزید بہتر بنانے کے لیے میں نے ایڈور ٹائزنگ کا ایک ذاتی طریقہ اختیار کیا۔ سادہ کاغذ پر قلم کے ذریعے بریڈ، سپلائی کا طریقہ اور خصوصیات وغیرہ لکھ کر جگہ جگہ اشتہار نما اعلان چسپاں کروا دیے۔ یہ چیز لوگوں کے لیے خاصی کشش کا باعث بنی۔ کیونکہ اس قسم کی ایڈورٹائز نگ عام طور پر کم ہوتی تھی۔ اﷲ نے اس کے کاروبار کو چار چاند لگادیے۔ اس کی سیل کچھ یوں بڑھی کہ صبح سے شام تک آرڈر پورے کرنا مشکل ہوگئے۔ وہ بریڈ سپلائی کرتا تھک جاتا۔ چھوٹے دکاندار گلی میں کھڑے ہو کر میرے کزن کی آمد کا انتظار کرتے تھے۔ یہ بھی عرض کردوں کہ اس سے پہلے سائیکل پر سپلائی کا تصوّرنہیں تھا۔ صرف گاڑیاں سامان پہنچاتی تھیں۔ گاڑی بھی صرف وہیں پہنچاتی، جہاں روڈ کی سہولت ہوتی۔اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر کمپنیوں کو یہ چیز کھٹکنے لگی۔ انہیں اپنا کاروبار متأثر ہوتا نظر آیا۔ ایک کمپنی نے میرے کزن کو پُرکشش آفر کی کہ آپ ہمارے ہاں ملازمت اختیار کرلیں۔ اس نے ان کی پیشکش کو ٹھکرادیا۔
اسی طرح کا ایک اورواقعہ بھی ہے۔ ہمارے گھر میں کام کرنے والی ایک ماسی کا شوہر بے روزگار تھا۔ ماسی نے مجھے کہا کہ میرے شوہر کوبھی کسی طرح اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرلیں۔ میں نے اس کے شوہر سے کہا تم سائیکل لے کر خالی ہاتھ میرے کزن کے ساتھ جایا کرو۔ اس سے آپ کو کام کی سمجھ آئے گی۔ کچھ وقت کے بعد میں نے اسے ''بن''دینا شروع کیے، آپ مختلف دکانوں پر یہ''بن''فروخت کیا کرو۔ اس نے اس طریقے پر چلنا شروع کیا تو اس کی اچھی خاصی نہ صرف پہچان بن گئی، بلکہ اس کا گھر آسانی سے چلنے لگا۔ اسی نوعیت کے ایک تیسرے شخص نے بھی ہم سے تعاون چاہا۔ انہیں بھی میں نے اسی لائن پر لگادیا۔ اﷲ نے ان پر بھی اپنے رزق کے دروازے کھول دیے۔ ''
بے شک ذہانت، احباب، اسباب، قوتِ فیصلہ اور ذاتی محنت انسان کو ترقی عطا کرتی ہے۔ مگر برکت یہ ہے کہ تھوڑے اسباب میں بڑے بڑے کام انجام پاجائیں۔ بابرکت ترقی کی طرف آصف اعوان نے قدم کچھ اس طرح بڑھائے۔ بتلا رہے تھے: ''پھر ایک عرصے کے بعد میں نے اس ریٹیل کی بیکری سے اپنی حصہ داری منقطع کرلی۔ میں نے ہول سیل کا کام شروع کر لیا۔ اس کا سبب میراایک اور تجربہ بنا۔ میں جس کمپنی والوں سے بریڈ خریدا کرتا تھا، ان کی فروخت خاصی بڑھ گئی تھی۔ ماموں نے آئیڈیا دیا کہ آپ ا ن کے ساتھ کوئی پر سنٹیج طے کریں۔ اب مجھے یہ تجربہ نہ تھاکہ ایسی صورت میں ان سے کیا ڈیمانڈ کروں۔میں نے دو، تین فیصد کی بات کی تو وہ فوراً اس پر راضی ہوگئے۔ میں نے ایک ماہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ ان کی سیل کی تھی۔ اس پر مجھے جو کمیشن ملا وہ میری توقع سے بہت زیادہ تھا۔ مجھے یہ طریقہ بہت آئیڈیل لگا۔ یوں میں ''ریٹیل''سے ''ہول سیل'' کی طرف آگیا۔ الحمدﷲ! یہ تجربہ پہلے سے بھی بڑھ کر کامیاب رہا۔ اب یوں ہوتا کہ لوگ گاڑی سے سامان اترنے کا انتظار بھی نہ کرتے ۔ گاڑی کو کھڑے کھڑے خالی کردیتے۔''
کیا یہ ممکن ہے معیار کا سودا نہ کرنا آدمی کی طبیعتِ ثانیہ اور دل کی آواز بن جائے؟ جی ہاں! ممکن ہے۔ دیکھتے ہیں۔ جناب اعوان صاحب نے اس ذاتی کاروبار کی طرف بڑھتے ہوئے اس رِیت کو کیوں کر نبھایا؟ انہوں نے بتایا: ''اب میں اپنے ''نمکو''کے کاروبار کی طرف آتا ہوں۔ میرے پارٹنر شعیب اور ان کے چھوٹے بھائی عمیر نے میرے ساتھ مل کر کاروبار کرنا چاہا۔ میں نے انہیں آئیڈیا دیا کہ ہم کہیں سے اچھی نمکو لے کر دکانوں پر فروخت کرنا شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے اسٹاک لے لیا۔ عمیر نے کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی تو شعیب کے کہنے پر میں اس کاروبار میں ان کا باقاعدہ پارٹنر بن گیا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے مارکیٹ میں اچھی قسم کی نمکو تیار کرنے والے کا پتہ لگایا۔ خیال تھا کہ خود اپنی مرضی کی نمکو تیار کرواکے بیچنی چاہیے۔ اس وقت مجھے اپنے سابقہ بزنس سے شام کو فارغ وقت ملتا۔ نمکو کے کاروبارکے لیے وہی وقت طے کر لیاگیا۔ اس معاملے میں ہم نے چیز کے معیار کو بلند رکھنے کی کوشش کی۔ ہم نے نمکو کا یہ کاروبار ذرا مختلف انداز میں شروع کیا تھا۔ ہم دوخانوں والا شیشے کا ایک شوکیس بنواتے۔ جس کے آگے سلائیڈ نگ لگی ہوتی تھی۔ کسٹمر کے لیے یہ چیز خاصی کشش کا باعث تھی۔ وہ دیکھتے اور اس میں دلچسپی لینے لگتے۔''
رشوت جس کے بارے میں واضح فرما دیا گیا کہ لینے اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں۔ہمارے معاشرے میں رشوت کلچر بہت عام ہو چکا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ رشوت کے بغیر کوئی تجارت نہیں ہوسکتی۔ ایسا ہی کٹھن مرحلہ آصف اعوان کی زندگی میں بھی آیا۔ انہوں نے ہمیں ذاتی واقعہ سنایا:
''کاروبار کے آغاز میںہمیں کمرشل میٹر کی ضرورت تھی۔ ایک آدمی سے رہنمائی چاہی تو وہ کسی اور کے پاس لے گیا۔ ساتھ ہی کہا کہ آپ لوگ اسے کچھ پیسے ادا کر دینا، یہ تمہارا کام کر دے گا۔ گویا رشوت دینے کا کہہ رہے تھے۔ ہم دونوں کا ذہن شروع ہی سے مذہبی تھا۔ ہم اس پر آمادہ نہ ہوئے کہ آغاز ہی میں اپنے بزنس کورشوت کی لعنت سے آلودہ کریں۔قریب میں ایک مسجد تھی، ہم اﷲ سے مانگنے کے لیے وہاں چلے گئے۔ صلوٰۃالحاجت ادا کی۔ ساتھ ہی یہ عزم بھی کیا کہ ان شاء اﷲ بالکل صاف اور ستھرے انداز میں کام کو لے کر چلیںگے۔ کوئی غیر شرعی آلودگی اپنے پاس نہ پھٹکنے دیںگے۔ ہم نے قانون کے مطابق کام کو آگے بڑھانے کے لیے پہلے شخص سے رابطہ کیا۔ اس کو واضح بتادیا کہ ہم خالص انداز میں کام کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ بھی تعاون کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس نے اپنے دائرہ اختیار کے مطابق ہمارے لیے'' نوٹس'' تیار کردیا۔ یہاں یہ بتادیں کہ ہم نے اس کے دلی لالچ کو ختم کرنے کے لیے پہلے ہی اسے کافی اعزاز واکرام دے دیا تھا۔ یہاں ہم کامیاب ہوئے۔ اگلا مرحلہ ''کمرشل سروس'' لگانے کا تھا۔ یہاں ہمیں اس آفیسر سے ملناتھاجو راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے ایک ہی تھا۔ کسی سے مشورہ کیا اور اپنے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس نے بتایا چونکہ آپ کا حق ہے، آپ ذرا خود اعتماد ی کا مظاہرہ کرکے ا ن کے سامنے اپنا مدعا واضح طور پر پیش کردیں۔ اﷲ نے ہماری دستگیری کی، ہمیں بات کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔ اس کے ہاں رش بھی بہت تھا۔ اسی وجہ سے ہمیں کامیابی کے چانسز کم نظر آرہے تھے۔
یہاں بھی ہم نے صلوۃ الحاجت کا عمل دہرایا۔ حقیقت یہ ہے کہ صلوۃ الحاجت پڑھنے سے آدمی کو بہت ہی اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ اپنی باری آنے پر میں اندر داخل ہوا اور پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ نپے تلے انداز میں کہا کہ ہم نے ڈیمانڈ نوٹس جمع کروادیا ہے، اب آپ سے سروس لگوانی ہے۔ یہاں تک ہمارے بس کاکام تھا، اس سے آگے اﷲ کی قدرت نے ہماری دستگیری کرنی تھی۔ چنانچہ وہی ہوا۔ جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ اس نے اپنے اسسٹنٹ سے کہا: ان کے لیے سروس لگادو۔ میٹر لگانے والے آئے۔ یہاں بھی ہمیں دھڑکا لگاہواتھا کہ یہ ضرور رشوت مانگیں گے۔ جب وہ آئے تو انہیں واضح بتادیا۔ ساتھ ہی حوالہ بھی دیا کہ اب تک ہم نے اس نام سے کسی کو بھی پیسے نہیں دیے اور نہ دینے کا کوئی ارادہ ہے۔ البتہ آپ کی خدمت دل و جان سے کرنے کو تیار ہیں۔ یوں یہ کام اﷲ کے فضل حسب منشائ، حلال اور پاکیزہ طریقے سے انجام پاگیا۔اس سلسلے سے منسلک لوگ یقینا ماننے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس کام میں جو غریب مزدور کھدائی وغیرہ کے لیے آتے تھے، ہم نے تعاون کی نیت سے کچھ رقم دے کر ان کا دل خوش کردیا۔ '' (جاری ہے)