٭۔۔۔۔۔۔ ا ﷲ جب ہمیں اتنا کچھ عطا کررہا ہے تو ہم اس کے نام پر دینے سے کیوں پیچھے ہٹیں
٭۔۔۔۔۔۔الحمدﷲ خوشی ہوئی کہ ''شریعہ اینڈ بزنس'' دینی اور تجارتی دونوں طرح کی رہنمائی کے مقصد سے عمدہ معیار کے ساتھ پہلی بار میدان میں اترا ہے
٭۔۔۔۔۔۔ میں نے بڑے بڑے بزنس مینوں کی سوانح عمریاں پڑھ کر یہ سمجھا کہ کامیابی کے وہی اصول ہیں جواسلام نے بتائے ہیں
حافظ محمد آصف اعوان کی اَن کہی داستان اپنے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے بہت دلچسپ ، سبق آموز اور اثر انگیز حصّے میں داخل ہوگئی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کسی مزید تعارفی کلمات کے بغیر آپ بلاواسطہ زیر نظر قسط ملاحظہ کریں۔ محتر م اعوان بتارہے تھے: ''ریلش نمکو'' کے نام سے ہم جس کا روبار کا آغاز کرنے جارہے تھے، خوب ترمعیار ہماری اوّلین ترجیح تھا۔ اسی مقصد کے لیے رشوت سے بچنے کی کوشش کے بعد اگلے مرحلے میں ہمیں تلاش تھی کہ ''نمکو'' کے لیے سب سے بہتر خام مٹیریل استعمال کیا جائے۔ میں عرض کرتا چلوں کہ نمکو میںدو طرح کا بیسن استعمال ہوتا ہے: دال چنے کا اور دال مٹر کا۔ دال چنے کا بیسن کینیڈا سے آتا ہے۔ کافی سستا ہوتاہے۔ نمکو کی اصطلاح میں اسے ''ڈن پیس'' بھی کہا جاتا ہے۔ اگلا مرحلہ آئل کا تھا۔ لوگ مختلف کیمیکلز والے گیلن کھانے کی چیزوں کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہم نےسب سے پہلے مارکیٹ سے اچھی قسم کے گیلن خریدے اور پھر آئل ڈلوایا۔ تیسری احتیاط ہم نے یہ کی کہ نمکو بنانے کے لیے کچھ بیسن اور کچھ میدہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگ ایک کام یہ بھی کرتے ہیںکہ آخر میں جو چاول بہت باریک رہ جاتے ہیںتو اسے پیس کر دوبارہ نمکو میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے اس سب کے بجائے الحمدﷲ! خالص بیسن استعمال کیا۔ چوتھے درجے میں کاریگر بھی ہم نے اچھے منتخب کیے۔ جو پیشہ وارانہ مہارت کے مالک تھے۔ یوں ہم اﷲ کے فضل سے ایک معیاری نمکو بنوانے میں کامیاب رہے۔ سپلائی کے حوالے سے ہم نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ ایک چنگ چی رکشہ خریدا۔
٭۔۔۔۔۔۔ ا ﷲ جب ہمیں اتنا کچھ عطا کررہا ہے تو ہم اس کے نام پر دینے سے کیوں پیچھے ہٹیں ٭۔۔۔۔۔۔الحمدﷲ خوشی ہوئی کہ ''شریعہ اینڈ بزنس'' دینی اور تجارتی دونوں طرح کی رہنمائی کے مقصد سے عمدہ معیار کے ساتھ پہلی بار میدان میں اترا ہے ٭۔۔۔۔۔۔ میں نے بڑے بڑے بزنس مینوں کی سوانح عمریاں پڑھ کر یہ سمجھا کہ کامیابی کے وہی اصول ہیں جو اسلام نے بتائے ہیں
نمکو کی تھیلیاں اس کے مختلف حصّوں میں لٹکاکر بازار کا رخ کرتے۔ جس نے بھی ہماری نمکو ایک بار خریدی اس نے دوبارہ ضرور مطالبہ کیا۔ سلسلہ بہت بڑھنے لگا تو ایک گاڑی کی ضرورت ہوئی۔وہ بھی ہم نے حاصل کرلی۔ ایک وقت آیا کہ ہمارے لیے اعلیٰ معیار برقرار رکھنا مشکل نظر آنے لگا۔ اچانک خام مٹیریل کے ریٹ بہت چڑھ گئے۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ خالص چیز ملنا کس قدر مشکل ہو چکا ہوگا۔ ہم اپنا یہ مسئلہ ایک دوست کے پاس لے گئے۔ وہ بھی بیکری کے میدان کے آدمی تھے۔ ان کا کام بھی بہت معیاری انداز میں چل رہا تھا۔ انہوں نے بہت ہی مختصر الفاظ میں ہماری الجھن رفع کردی۔ صرف اتنا کہا: ''دیکھیں! اچھی اورمعیاری چیز لے کر اگر آپ جنگل میں بھی جا بیٹھیں تو بھی لوگ آپ تک پہنچیں گے۔ اس کے برعکس اگر چیز غیر معیاری ہے تو خواہ آپ اسے لے کر لوگوں کے پیچھے پیچھے پھرتے رہیں تو بھی کوئی نہ لے گا۔''
ان کے یہ الفاظ ہمارے دل کو لگے۔ یہ بات سنی ہم نے نہ صرف یہ کہ پرانے معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا، بلکہ معیار کو مزید اوپر لے گئے۔ اس کا اثر ہر چیز پر پڑا۔ دال مٹر کے بجائے دال چنے کا بیسن خریدنا شروع کیا۔اس میں ہمیں 37 کلو کے ایک تھیلے پر ایک ہزار اضافی دینا پڑ رہے تھے۔ اس فیلڈ کے لوگ تصور نہیں کرسکتے کہ خالص دال چنے کے بیسن سے نمکو تیار کروانے کا بوجھ برداشت کیا جائے۔ اسی طرح آئل کے معیار کو یوں اوپر لے گئے کہ بجائے کھلا آئل خریدنے کے پیک آئل خریدنے لگے۔ نمکو والے اسے بھی شاید بعید از قیاس خیال کریں۔ سو، ہمارا یہ اصول، لازوال ہے کہ تھوڑی چیز، اچھی چیز۔ معیار پر سمجھوتا گوارا نہیں۔ قیمتیں بھی بہت زیادہ نہیں، مگر عمومی نرخوں سے کچھ اضافی اس لیے ہیں کہ اس کا مٹیریل الحمدﷲ! بہت معیار ی ہے۔ اﷲ کا شکر کس زبان سے ادا کریں کہ اس تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم الحمدﷲ! ایک ایسے کاروبار کے مالک ہیں، جس پر ہمیں دلی اطمینان ہے۔ سکون کی دولت بھی اﷲ نے عطا کرکھی ہے۔ سائیکل پر مارکیٹنگ کے لیے نکلا کرتے تھے، آج اﷲ نے گاڑیوں کی فراوانی عطا کی ہے۔ اس موقع پر اپنے تاجر بھائیوں سے کہوں گا، خوب سمجھتے ہیں کہ مال کا شکر صرف زبان سے ادا کرنا کافی نہیں ہوتا۔ اس میں سے اﷲ کا مقرر کردہ حصّہ جب تک آپ نہ نکالیں، آپ نے خدا کا حق اد ا نہیں کیا۔ میں اپنے قارئین کی ترغیب کے لیے عرض کروں گا کہ الحمدﷲ! میں پابندی سے زکوٰۃ ادا کرتا ہوں۔ اس میںسالانہ کبھی ناغہ ہوا نہ ہی کمی واقع ہوئی۔ یہ شیطان کا بہکاوا ہوتا ہے کہ آدمی زکوٰۃ کو نقصان سمجھ لیتا ہے۔ مجھے دیکھیے! ہر سال پوری زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، کبھی ایک روپے کانقصان محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ میں تو یہ عرض کروں گا کہ زکوٰۃ کا جو مال آپ نہیں نکالتے، اس کی مثال ایک ناسور کی سی ہے۔ جو اندر ہی اندر جسم کو گلاتا رہتا ہے۔ ہم تاجر برادری کی آج کل کی پر یشانیاں، نقصانات، بے چینی، بے سکونی ، بیماریاں، پرہیز ی خوراک، اتنی بڑی دولت کا مالک ہو کر ڈاکٹروں کی طرف سے دن بھر چند لقمے کے علاوہ کی اجازت نہ ہونا، یہ سب اس مال کی نحوست ہے جو ہم اپنے منافع میں سے الگ نہیں کرتے اور غریب حق داروں تک نہیں پہنچاتے۔ آپ ذرا ہمت تو کیجیے! میرے جیسا دلی سکون نہ ملے تو کہنا!
سچ یہ ہے کہ اﷲ کی راہ میں جتنا خرچ کرتے جائیں، ذرا کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ اﷲ کا یہ وعدہ سامنے نظر آتا ہے کہ وہ ایک کے بدلے دس عطا کرتا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ شیطان نے ہمیں قدم قدم پر ڈگمگانے کی کوشش کی۔ جب زکوٰۃ کی رقم 35 ہزار روپے سے بڑھنے لگی تو میرے دل میں ذرا سا برا خیال آیا۔ میں نے اسے بوجھ سمجھ لیا۔ اﷲ جزائے خیر دے میرے پارٹنر محمد شعیب انور اعوان کو، انہوں نے ہمت بڑھائی اور کہا کہ ا ﷲ جب ہمیں اتنا کچھ عطا کررہا ہے تو ہم اس کے نام پر دینے سے کیوں پیچھے ہٹیں۔
ہم اس وقت نمکو کے اس بزنس میں 9 افراد کام کرتے ہیں۔ آپ چاہیں تومیں آپ کو اپنے کسی بھی ورکر یا کسٹمر کا نمبر دے دوں اور میں اسے آپ کے متعلق کچھ بتاؤں نہ ہی اسے کوئی ہدایت دوں۔ پھر آپ ان سے ہمارے کام سے متعلق پوچھ لیں۔ آپ کو ان شاء اﷲ! وہی کچھ سننے کو ملے گا، جو میں نے اب تک عرض کیا ہے۔ اب میں اپنے روزمرہ کاروباری معلومات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہم دو ساتھیوں میں سے ایک صبح 7 بجے، جبکہ دوسرا 11 بجے آتا ہے۔ ہم ایک جگہ بیٹھ کر پہلے ''فضائل اعمال'' کی تعلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعدا ﷲ سے دعا کرتے ہیں: اے اﷲ ! ہم آپ کے پاک نام سے کاروبار کا آغاز کررہے ہیں، آپ اس میں برکت عطا فرمادیں۔ پاک اور حلال روزی ہمارے مقدر میں لکھ دیں۔ ہمیں اس طرح مال بنانے کی توفیق دیں، جس سے آپ کی مخلوق کو فائدہ ہو۔ اس دعا اور تعلیم میں ہمارے سب ورکر بھی شامل ہوتے ہیں۔ کتاب بند کرنے کے بعد ہم سب کام کا آغاز کردیتے ہیں۔ ظہر یا ظہر کے کچھ دیر بعد تک کام کو موقوف دیتے ہیں۔
آپس کا رویہ الحمدﷲ! بالکل بھائیوں جیسا ہے۔ کھانا اجتماعی پکتا ہے۔ نماز کے بعد دستر خوان لگا دیا جاتا ہے۔ ہم اس پر ورکرز کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں سے بھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ۔ لوگوں کو اکثر معاشرے سے شکوہ رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ساری دنیا ایک دم ان کی دشمن بن کر رہ گئی ہے۔ کوئی بھی اچھا انسان نہیں ہے، مگر ہمارا احساس اس کے برعکس ہے۔ ہمیں کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔ معاشرے میں سے چنے ہوئے اچھے لوگ ہمارے پاس ہیں۔ ہم معاشرے سے بالکل خوش ہیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں ہم نے دیکھا تک نہیں۔ مگر ہمارا ان سے لین دین کا معاملہ ہے۔ وہ ہماری پروڈکٹ خریدتے اور ایمانداری کے ساتھ ہمارے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرا دیتے ہیں۔ ورکر بھی ہماے ساتھ بے انتہا مخلص ہیں۔ بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہم نے انہیں کہہ رکھا ہے: پیسے کی کمی کی وجہ سے کبھی نہیں گھبرانا۔ جب کبھی ان کی تنخواہ کم ہونے لگے، ہم ہدیے کی رقم سے ان کا تعاون کرتے ہیں۔ ان کی تربیت کرتے اور انہیں اپنا لباس پوشاک اچھا رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
تبلیغ میں ابھی تک صرف ایک ہی ''چلّہ'' لگا سکا ہوں۔ میں ابتدا میں باشرع حلیے اور مسنون لباس سے محروم تھا۔ پھر اﷲ نے ایک بزرگ کی دعا میرے حق میں قبول فرمائی اور مجھے ہدایت نصیب ہو گئی۔ چکوال کے قریب ایک بزرگ رہتے ہیں۔ ''غازی احمد'' ان کا نام ہے۔ ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ ان کی خدمت میں حاضری ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا: آپ کے لیے میں کیا دعا کروں؟ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ میرے لیے ہدایت کی دعا کردیں۔ انہوں نے فرمایا: میں ابھی بھی دعا کرتا ہوں اور ان شاء اﷲ! تہجد میں بھی آپ کے لیے ہدایت کی دعا کروں گا۔ بس ان کے پاس سے جونہی نکلا، دل میں پختہ عزم کیاکہ اب کبھی ڈاڑھی نہ کٹواؤں گا۔ اسی طرح پھر داعیہ پیدا ہوا کہ لباس بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم والا پہنا کروں۔ میں نے اپنا لباس مسنون کر لیا۔ قرض سے خصوصی اجتناب کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے حساب لگایا تو ہمارے ذمے لوگوں کو دینے کے لیے چند ہزار سے زیادہ نہ تھا، جبکہ جو لوگوں سے وصول کرنا تھا، وہ بہت بڑی رقم تھی۔
آخر میں چار باتیں عرض کرکے گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔ پہلی، یہ کہ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ علمائے کرام اپنے کورس میں بزنس کے مضامین شامل کریں۔ عالم جب فارغ التحصیل ہو تو وہ اس میدان کے نشیب و فراز سے بھی خوب واقف ہو۔الحمدﷲ! اب میں دیکھ رہا ہوں کہ علما نے اس مقصد کے لیے باقاعدہ ادارے تک بنا لیے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں نے بڑے بڑے بزنس مینوں کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں۔ میں نے یہ سمجھا ہے کہ کامیابی کے وہی اصول ہیں جو اسلام نے بتائے ہیں۔ الفاظ کے ہیرپھیر، اصطلاحات کی رنگا رنگی اور اسلوب کی الٹ پلٹ کے علاوہ ان کی کتابوں اور زندگیوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھتا ہوں، ان اصولوں پر جس نے بھی عمل کیا، اسے یقینا کامیابی ملی کافر ہو یا مؤمن۔ لہٰذا ہم اوّلاً تو ان سے کبھی مرعوب نہ ہوں، دوسرے ان اصولوں کو ضرور اپنائیں کہ ہم محتاج بھی ہیں اور ان کے حقیقی وارث بھی۔ تیسری بات یہ کہ کسی بھی
بزنس کی کامیابی کے لیے چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
1 رائٹ پروڈکٹ: آپ کی چیز بالکل ٹھیک ہونی چاہیے۔ آپ ہمیشہ پر اعتماد طریقے سے خرید و فروخت کے معاملات کریں گے۔
2 رائٹ پرائس: آپ اپنی لاگت کے مطابق قیمت لگائیں۔ نہ زیادہ لگائیں کہ آپ دوسروں کی حق تلفی کرنے لگیں۔ نہ مارکیٹ سے خوف کھا کر قیمت کم لگائیں کہ کاروبار یا کم از کم معیار برقرار رکھنا مشکل ہو جائے۔
3 رائٹ پلیس: چیزکو فروخت کرنے کے لیے موزوں ترین جگہ کا انتخاب کریں۔ چیز کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں تبدیلی آئے گی، مگر اصول یہی رہے گا۔
4 رائٹ ٹائم: چیزاپنے سیزن کے مطابق، موقع شناسی سے کام لے کر مارکیٹ میں لانی چاہیے۔ چوتھی بات آپ کے خوبصور ت میگزین کے حوالے سے ہے۔ جب میں نے بزنس پڑھا اور اس کے بعد عملاً شروع کیا تو میں سمجھتا تھا کہ اس میدان میں علما کو عملی طور بھی پر شرکت کرنی چاہیے، تاکہ وہ اس کو ہر پہلو سے جان سکیں۔ اب آپ حضرات کی ''شریعہ اینڈ بزنس'' کی صورت میں اس قابل قدر کاوش دیکھا تو اپنا وہ خواب بڑی حد تک پورا ہو تا محسوس ہوا۔ یہ رجحان دوسرے ممالک میں بڑی حدتک پایا جاتا ہے کہ مختلف تنظیمیں معاشرے کی مذہبی رہنمائی کے لیے مختلف انداز سے خدمات انجام دےتی ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں اس کا تناسب بہت کم ہے، الحمدﷲ خوشی ہوئی کہ ''شریعہ اینڈ بزنس'' دینی اور تجارتی دونوں طرح کی رہنمائی کے مقصد سے اس معیار کے ساتھ پہلی بار میدان میں اترا ہے۔ آپ کے میگزین کے ذریعے براہ راست، بر محل اور تجربات کی روشنی میں رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ جو ہر قسم کے تاجر کے لیے بہت اہم اور مفید ہے۔