٭۔۔۔۔۔۔ اسلامی تمویلی اداروں کی مجموعی تعداد 300 سے زائد ہے اور ان کے مجموعی اثاثے 1.2 ٹریلین ڈالرز سے زائد ہیں
٭۔۔۔۔۔۔ اسلامی بینکاری میں اضافے کی شرح 20 فیصد، جبکہ سودی بینک کی شرح 7 فیصد ہے
٭۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے اسلامی بینکاری نظام میں میزان بینک کا حصہ 33 فیصد تک پہنچ گیا ہے
تعارف
مولانا ڈاکٹر محمد عمران اشرف عثمانی جسٹس ریٹائرڈ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی کے فرزند ہیں۔ آپ نے جامعہ دارالعلوم کراچی سے درس نظامی اور تخصص فی الافتاء کیا ہے۔ اس کے علاوہ عصری علوم میں آپ نے ایل ایل بی، ایم فل اور اسلامک فنانس میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ ڈاکٹر عثمانی ''حرا فاؤنڈیشن'' اسکول کے سربراہ ہیں۔ آپ میزان بینک کے شرعی ایڈوائزر اور گروپ ہیڈ آف پروڈکٹ ڈویلپمنٹ شریعہ کمپلائنس ہیں۔ آپ 1990
سے تاحال دارالعلوم کراچی میں فقہ اور حدیث سمیت اہم اسباق پڑھا رہے ہیں۔ 1997ء سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ بینک آف لندن مڈل ایسٹ کویت، بی ایم آئی بینک بحرین، الخلیج بینک قطر، ساراسن بینک سوئیٹرز لینڈ کے علاوہ دیگر متعدد فنانشل اداروں سے وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ آپ AAOIFI دبئی شریعہ سپروائزری بورڈ آف انٹرنیشنل اسلامک فنانشنل مارکیٹ (IIFM) بحرین، انٹرنیشنل سینٹر فار ایجوکیشن ان اسلامک فنانس (INCEIF) ملائشیا، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) کراچی اور سینٹر فاراسلامک اکنامکس (CIE) کراچی کی منتظمہ کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ دنیا کی معروف درس گاہوں جیسے ہارورڈ، LSE، LUMS اور IBA میں لیکچر دینے کے لیے گاہے بہ گاہے آپ کو بلایا جاتا ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
اسلامی بینکاری کے بنیادی تعارف سے گفتگو کا آغاز ہو جائے؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
اسلامی فائنانس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کی تمویلی (Financing) ضرورت کو ایسے طریقہ کار کے ذریعے پورا کیا جائے جس میں کوئی شرعی قباحت لازم نہ آئے۔ نیز لوگوں کو سرمایہ کاری کے ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جن کے ذریعے وہ جائز آمدنی کماسکیں۔ اسلامی فائنانس لوگوں کو نہ صرف سود کی خرابی سے محفوظ رکھتی ہے، بلکہ دیگر تمام شرعی خرابیوں، مثلاً: سود ، جوا ، سٹہ بازی، غرر، ناجائز اشیا کی تجارت، غیر اخلاقی معاملات وغیرہ سے بھی بچاتے ہوئے انہیں جائز سرمایہ کاری اور تمویل کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
اسلامی بینکاری کی ترقی کی شرح اور اسباب کیا ہیں؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
اسلامی کمرشل بینکا ری کا آغاز اب سے تقریباً 50 برس قبل1960 کی دہائی میں دبئی اسلامی بینک سے ہوا، اس کے بعد سے متواتر اس نظام پر مبنی نئے اسلامی بینک وجود میں آرہے ہیں۔ موجودہ اسلامی بینکاری کے نظام کی تیز رفتار ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ترقی کی شرح 15 سے 20 فیصد ہے، جبکہ موجودہ سودی بینکاری کی ترقی کی شرح 7.1 فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس کے علاوہ اب اسلامی بینک اوراسلامی تمویلی اداروں (Islamic Financial Institutions) کی مجموعی تعداد 300 سے زائد ہے اور ان کے مجموعی اثاثے 1.2 ٹریلین (Trillion) ڈالرز سے زائد ہیں۔ جس کے بارے میں یہ تخمینہ ہے کہ 2013ء کے آخر تک 1.8 ٹریلین سے تجاوز کرجائے گی۔
پاکستان میں بھی اسلامی بینکاری کی شرح نہایت حوصلہ افزا ہے اور پاکستان کے بینکاری نظام میں اس کا حصہ 10 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس کے مجموعی اثاثہ جات 837 ارب سے تجاوز کر چکے ہیں اور اس کے ڈپازٹ کی ترقی کی شرح تقریباً60 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کے اسلامی بینکاری نظام میں میزان بینک کا حصہ33 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
اس کی تیز رفتار ترقی جہاں مسلمانوں کی سود سے بچنے کی خواہش کی ترجمان ہے، وہیں اسلامی تمویلی نظام نے اپنے آپ کو سودی تمویلی نظام کے مضبوط متبادل کے طور پر منوایا ہے۔ نیز یہ ثابت کردیا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں کاروبارِ زندگی کی تمام ضرورتوں کا جائز حل موجود ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
عالمی کساد بازاری کے بعد اسلامی معیشت کی طرف رجحان بڑھا، ایسا کیوں؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
عالمی کساد بازاری کی بنیادی وجہ قرضوں کی خرید وفروخت اور حقوق ِ مجردہ (Derivatives & Options) کی خریدو فروخت تھی۔ اسلامی بینکاری کا نظام چونکہ حقیقی اثاثہ جات کی خریدو فروخت پر مبنی ہوتا ہے اور حقوقِ مجردہ اور قرضوں کی خرید وفروخت اس میں نہیں کی جاسکتی، لہٰذا عالمی کساد بازاری کے دور میں اسلامی تمویلی ادارے بحران سے محفوظ رہے، جس کی وجہ سے عوام الناس کا رجحان اور اعتماد بڑھ گیا۔
شریعہ اینڈ بزنس
اسلامی بینکاری میں غیر مسلموں کی دلچسپی کے اسباب کیا ہیں؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
چونکہ اسلامی معاشی نظام نے شرعی اصولوں پر عمل کرنے کی وجہ سے بہت مختصر عرصے میں خود کو ایک مستحکم نظام کے طور پر منوایا ہے، لہٰذا غیر مسلم بھی اپنے سرمایہ کو محفوظ اور منافع بخش کاروبار میں لگانے کے لیے اسلامی بینکاری کے نظام کو اپنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کے مسلمانوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے موجودہ سودی بینک بھی اپنے صارفین کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے ہاںاسلامی بینکاری کی برانچ وغیرہ کھولنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اسلامی بینکاری اور سودی بینکاری میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
اسلامی بینکاری اور سودی بینکاری کا ہر ہر معاملہ ہی مختلف ہے، لیکن ہم اختصاراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ سودی بینکوں میں عوام الناس جو رقم ڈپازٹ کراتے ہیں وہ قرض کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس پر حاصل کیا جانے والا نفع شرعاً سود ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی بینکاری میں عوام الناس مضاربت یا مشارکت کی بنیاد پر رقم جمع کراتے ہیں، جس پر حاصل کیا جانے والا نفع شرعاً جائز ہے۔ اسی طرح سودی بینک گاہکوں کی تمویلی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض دیتے ہیں اور اس پر سود وصول کرتے ہیں، جبکہ اسلامی بینک اثاثہ جات کی خرید وفروخت کے ذریعے اپنے صارفین کی تمویلی ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو ایک جائز ذریعہ تمویل ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
اسلامی اور سودی بینکوں میں زیادہ فرق کیوں محسوس نہیں ہوتا؟ نیز اسلامی بینکوں اور دیگر بینکوں کا نفع ایک جیسا کیوں ہوتا ہے؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی بینکوں کا تناسب سودی بینکوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے، مثلاً: پاکستان میں اسلامی بینکاری کا تناسب تقریباً 6.5 فیصد ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں سودی بینکاری کا تناسب تقریباً 93 فیصد ہے۔ لہٰذا ان کی مارکیٹ کا تناسب کم ہونے کی بنا پر یہ اپنا کوئی بہت مختلف شرحِ نفع نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے کاروبار اور تمویل اسی ریٹ پر ہوتے ہیں جس پر سودی ادارے کرتے ہیں جس کی وجہ سے کم و بیش اتنا ہی نفع اسلامی بینکاری کے ڈیپازیٹر کو بھی ملتا ہے۔ البتہ چونکہ اسلامی بینک کو حاصل ہونے والا نفع جائز طریقہ کار کے مطابق کیے جانے والے معاملات کے ذریعہ ہوتا ہے، محض نقدی قرض دینے کی بنیاد پر نہیں ہوتا، اس لیے اسلامی بینکوں سے حاصل ہونے والا منافع حلال اور جائزہوتا ہے جبکہ سودی بینکوں سے حاصل ہونے والا منافع سود کی تعریف میں داخل ہوتا ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
مالیاتی اداروں میں شریعہ ایڈوائزر کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
ہر اسلامی بینک کے معاملات کی شرعی نگرانی کے لیے ایک شرعی مشیر (شریعہ ایڈوائزر) یا علماء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جسے ''شریعہ بورڈ'' کہاجاتا ہے۔ اس میں بھی عموماً ان علماء کرام کو مقرر کیا جاتا ہے جنہیں نہ صرف شرعی اور فقہی علوم پر بصیرت ہو، بلکہ وہ انگریزی، موجودہ معاشیات اور جدید بینکاری سے بھی کما حقہ واقفیت رکھتے ہوں۔ شریعہ ایڈوائزرز یا شریعہ بورڈ اسلامی بینکوں کی تجارت اور اس کی مختلف پروڈکٹس کی تشکیل میں اہم کام سر انجام دیتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اسلامی بینکوں میں اکثر مرابحہ پر ہی کیوں عمل کیا جاتا ہے؟ مضاربہ و مشارکہ عملی طور پر زیادہ کیوں نہیں ہے؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی بینک چھوٹے تاجروں اور کمپنیوں کے ساتھ شرکت و مضاربت کرنے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ کہیں اسلامی بینکوں کا سرمایہ و نفع ڈوب نہ جائے، کیونکہ متعدد وجوہ، مثلاً: دہری اکاؤنٹنگ کا نظام ، مالی بے قاعدگیاں، کرپشن اور ٹیکس وغیرہ کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ان چھوٹی کمپنیوں یا تاجروں کے ساتھ شرکت ومضاربت کرکے ان پر کنٹرول کرنا موجودہ اسلامی بینکوں کے چھوٹے سیٹ اپ کے ساتھ انتہائی مشکل ہے۔ نیز قصیر المیعاد فائنانسنگ میں بھی مشارکہ بہت مشکل ہے اور بڑی کمپنیاں اور تاجر اسلامی بینکوں سے مشارکہ یا مضاربہ اس لیے نہیں لیتے کہ انہیں اکثر سودی بینک سستے ریٹ پر قرضہ فراہم کردیتے ہیں، لہٰذا وہ اسلامی بینکوں کو اپنے نفع میں شریک کرکے مہنگا سودا نہیں کرنا چاہتے ۔
شریعہ اینڈ بزنس
کیا میزان بینک وغیرہ سو فیصد حلال منافع دے رہے ہیں؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
جی ہاں! ان کا 100 فیصد کام شریعہ ایڈوائزر سے منظور شدہ ہے۔ ان کا باقاعدگی سے شریعہ آڈٹ بھی کیا جاتا ہے، اور جو عقود ناجائز سامنے آتے ہیں ان کے نفع کو صدقہ کردیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جو نفع عوام الناس کو دیا جاتا ہے وہ حلال ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس
کیا اسلامی بینکاری سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ فراہم کررہی ہے؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
ایسا ہر گز نہیں ہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام ااستحصال پر مبنی ہے، جس کے برے اثرات مجموعی معیشت پر پڑتے ہیں، جبکہ اسلامی بینکاری کا نظام مرابحہ، اجارہ اور دوسرے جائز طریقہِ تجارت پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے ملک کی حقیقی تجارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ملکی اشیا کی تجارت اور خرید و فروخت میں اضافہ ہوتا ہے تو ملک کی مجموعی معیشت پر بھی مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
میزان بینک میں شریعہ ڈیپارٹمنٹ کا کیا کردار ہے ؟
ڈاکٹر عمران عثمانی
میزان بینک میں شریعہ ڈیپارٹمنٹ مختلف امور انجام دیتا ہے، جن میں نئی پراڈکٹ ڈیویلپمنٹ کے لیے تحقیق، بینک کے معاملات کی شریعہ کمپلائنس، شریعہ آڈٹ، ٹریننگ اور شریعہ ایڈوائزری کے امور شامل ہیں اور اس کے لیے 25 سے30 علما، وکلا اور بزنس اور اکاؤنٹنگ گریجویٹس پر مشتمل ایک ٹیم موجود ہے۔