حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ صفر 1385 ھ جولائی 1965 ء کے ''ماہنامہ بینات'' میں تحریر فرماتے ہیں:


…2002ء میں ابتدا کرنےوالی اسلامی بینکاری آج پھلتے پھولتے مجموعمی 1738 شاخوں تک پہنچ گئی ہے

''انتہائی مسرت کا مقام ہے کہ پاکستان ہی کے ایک صالح نوجوان شیخ احمد ارشاد ایم اے نے سالہا سال تک ملک کے اندر اور باہر رہ کر بینکاری کی مکمل قابلیت و تجربہ حاصل کرنے کے بعد بینکاری نظام، سودی کاروبار کی تباہ کاریوں اور اسلامی نظام مالیات کی رفاہیت آفرینی پر پہلی مرتبہ قابل قدر کتاب ''بلاسود بینکاری'' کے نام سے تصنیف کی اور گزشتہ سال اس کا انگریزی ایڈیشن اور اس کا اردو ایڈیشن شائع کیا ہے اور عملا ًبھی ''دی کو آپریٹو انویسٹمنٹ اینڈ فنانس کارپوریشن لمیٹڈ'' کی بنیاد رکھی ہے، تاکہ جلد سے جلد اس اسلامی نظام کے تجربات بھی سامنے آ جائیں۔ موصوف ہر طرح تہنیت، تبریک اور حوصلہ افزائی کے مستحق اور پاکستان کی لےے قابل فخر ہیں کہ انہوں نے تمام اسلامی ملکوں سے پہلے پاکستان میں اسلامی نظام کی عظمت کی لےے بروقت یہ قدم اٹھایا اور اس سنت حسنہ کی بنیاد رکھی۔ اب ضرورت ہے کہ پاکستان کا مسلمان کاروباری طبقہ دل کھول کر اس کی معاونت اور حوصلہ افزائی کی طرف ہاتھ بڑھائے۔۔۔۔۔۔'' (ماخوز از غیر سودی بینکاری، مفتی تقی عثمانی: 25، 26)
یہ آج سے 50 سال پرانی بات ہے۔ سود سے بچنے کے لےے ہونے والی ایک جزوی کوشش پر علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں۔ تاجروں کو تعاون کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب غیرسودی بینکاری پر بات ہوتی تھی تو لوگ ہنستے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے بینکاری بغیر سود کے چل سکے!؟ لیکن علما کرام اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جب بینکاری ایک معاشی ضرورت ہے، تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک ضرورت کو پورا کرنے کا صرف حرام راستہ ہی ہو۔
سود کے بغیر بینکاری ممکن ہی نہیں قابل عمل بھی ہے، وقت نے یہ بات ثابت کر دکھائی اور آج اسلامی بینکاری ایک عالمی حقیقت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی مالیات کا حجم جو 2014 ء میں 1.8 ٹریلین امریکی ڈالر تھا، 2018 ء تک 3 ٹریلین امریکی ڈالر تک ہو جانا متوقع ہے۔ جب ایک انڈسٹری ترقی کرتی ہے تو اس سے متعلق تعلیم بھی نصاب کا حصہ بنتی ہے۔ تھامسن راؤٹر کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 378 ادارے اسلامی مالیات کی تعلیم کی سہولیات دے رہے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سود کے بغیر نظامِ مالیات کی فراہمی ممکن ہی نہیں، بلکہ قابل عمل بھی ہے۔
آئیے! ہم پاکستان میں رائج اسلامی بینکاری کی ماضی قریب کی کارکردگی اور مستقبل قریب کی توقعات کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ ایک تاجر ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس بات احساس ہو سکے کہ اسلامی بینکاری حقیقت ہے۔ مستقبل صرف اسلامی بینکاری کا ہی ہے، سودی بینکاری میں مسلسل کمی آئے گی اور ایک نہ ایک دن ہمیں اسلامی بینکاری کی طرف آنا پڑے گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس وقت اسلامی بینکاری کا ساتھ دیں جب وہ اپنے ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ یاد رکھیے! اسلامی بینکاری کی ترقی کے لےے کوشش کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ تو آئیے! دیکھتے ہیں۔
مروجہ اسلامی بینکاری کی ابتدا وارتقائ:
باقاعدہ ایک کمرشل بینک کے قیام کے لےے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دسمبر 2001 ء میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر بینک قائم کرنے کا طریقہ کار جاری کیا، جس کی بنیاد پر ''میزان بینک'' 2002 ء میں وجود میں آیا۔ میزان بینک پہلا بینک تھا، جس کا بینکاری ماڈل اسلامی اصولوں کے مطابق تھا اور قابل قدر ماہرین شریعت اس کی نگرانی کر رہے تھے۔
2002 ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کے لےے اسلامی بینکنگ برانچز کا طریقہ کار جاری کیا، جس کے بعد کمرشل بینک بھی اسلامی بینکنگ کی طرف آ گئے۔
2003 ء میں باقاعدہ اسٹیٹ بینک کا اسلامی بینکنگ ڈپارٹمنٹ وجود میں آیا۔ اسی سال بینک آف خیبر، ایم سی بی اور بینک الفلاح نے بھی اسلامی بینکاری کا آغاز کیا۔
2004ء میں البرکہ اسلامی بینک نے ایک مکمل اسلامی بینک کے طور پر پاکستان میں اپنے آپریشن شروع کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ حبیب بینک اے جی زیوریج، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، میٹروپولیٹن بینک اور سونیری بینک بھی اسلامی بینکاری کی مارکیٹ کا حصہ بنے۔
2005ء میں حبیب بینک اور بینک الفلاح نے اسلامی بینکاری کا آغاز کیا۔
2006ء میں دبئی اسلامی بینک اور بینک اسلامی پاکستان نے مکمل اسلامی بینکوں کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ مزید اے بی این ایمرو، عسکری، نیشنل اور یونائیڈڈ بینک نے بھی اسلامی بینکنگ آپریشن کا آغاز کیا۔
2007ء میں داؤد اسلامی جو اب برج بینک ہے، اسی طرح ایمرٹس گلوبل اسلامی بینک جو بعد میں البرکہ اسلامی بینک میں ضم ہو گیا، نے مکمل اسلامی بینکوں کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔
اس طرح 2007 ء تک اسلامی بینکنگ کی برانچیں 289 ہو چکیں تھیں۔
2007ء میں ہی اسٹیٹ بینک نے اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاؤنٹنگ اور آڈٹنگ اسٹینڈرڈ بنانے والے عالمی ادارے کے ساتھ الحاق کر لیا، جس کے نتیجے میں مرابحہ کے اکاؤنٹنگ اسٹینڈرڈ، اسٹیٹ بینک نے اسی سال نافذ کر دیے۔
اسلامی بینکنگ کی ترویج کے لےے 2008 ء میںاجارہ صکوک جاری کیے گئے، مزید صکوک جاری کرنے کے لےے شریعہ کمپلائنس گائیڈ لائنز جاری کی گئیں۔
2009ء میں اسٹیٹ بینک نے اجارہ سے متعلق اکاؤنٹنگ اسٹینڈرڈ پاکستان کے اسلامی مالیاتی سیکٹر پر نافذ کر دیے۔
اگر ہم 2002 ء سے شروع ہونے والی اسلامی بینکاری کا 2010 ء میں جائزہ لیں تو 2010 ء تک 6 مکمل اسلامی بینک موجود تھے۔ 14 اسلامی ونڈوز موجود تھیں اور 2002ء میں 0% مارکیٹ شئیر سے ابتداء کرنے والے اسلامی مالیاتی سیکٹر کا مارکیٹ شئیر 5% تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2013 ء میں انوسٹمنٹ صکوک اور شرکت سے متعلق عالمی اسلامی مالیاتی معیارات پاکستان میں نافذ کر دےے۔
آج سے 13 سال قبل شروع ہونے والی مروجہ اسلامی بینکاری کی کارکردگی بہت حوصلہ افزا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ستمبر 2015 ء کی رپورٹ کے مطابق اسلامی بینکاری کے اثاثے 1,511 ارب روپے کے ہیں، جن کا بینکنگ انڈسٹری میں مارکیٹ شیئر 11.2 فیصد بنتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی بینکوں کے ڈپازٹ 1,271 ارب روپے کے ہیں، جن کا مارکیٹ شیئر 13.1 فیصد بنتا ہے۔
2002ء میں ابتدا کرنے والی پہلی اسلامی بینکاری کی برانچ آج پھلتے پھولتے کل 1738 برانچز تک پہنچ گئی ہے، جن میں 1102 مکمل اسلامی بینکوں کی برانچز ہیں، جبکہ روایتی بینکوں کی اسلامی بینکنگ کی برانچز کی تعداد 681 ہے۔ ان کے علاوہ 1013 ونڈوز بھی اسلامی بینکاری کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔
اسلامی بینکنگ: مستقبل کی توقعات
ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں اسلامی بینکاری کی شرح نمو 17 فیصد سالانہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی اسلامی بینکاری کی ترویج کے لےے کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں امید ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں اسلامی بینکاری کی نمو کی شرح 20 فیصد سالانہ تک رہے گی۔
اسلامی بینکنگ کے بارے میں ترقی کی امیدیں ہوا میں تِیر نہیں ہیں، بلکہ اس کی ٹھوس بنیادیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو روایتی بینکوں کی مکمل اسلامی بینکاری کی طرف پیش رفت ہے، جیسے: فیصل بینک اور سمٹ بینک مکمل اسلامی بینکاری کی طرف منتقل ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دوسری وجہ روایتی بینکوں کی برانچوں سے بڑھ کر ذیلی اسلامی بینکوں کے قیام کی طرف پیش رفت ہے، جیسے: ایم سی بی بینک اپنا ایک ذیلی اسلامی بینک بنانے کا اعلان کر چکا ہے۔ تیسری وجہ اسلامی بینکوں کا نئے کسٹمرز بنانا ہے، کیونکہ اب تک ایک بڑی آبادی بینکوں میں سود کی وجہ سے بینکاری کرنے سے باز تھی، جو اب اسلامی بینکاری کے شروع ہونے کی وجہ سے بینکاری کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امید کی جا رہی ہے کہ اگلے سال اسلامی بینک 400 نئی برانچوں کے لےے درخواستیں دیں گے۔ اس پھیلاؤ کے لےے اسلامی بینکاری کی بنیادی تربیت حاصل کیے ہوئے 1800 اور اسلامی بینکاری کی اعلٰی تربیت کے حامل 200 افراد کی ضرورت پڑے گی۔ اسلامی بینکوں کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی تکافل کے سیکٹر میں بھی پھیلاؤ آئے گا اور اس کے لےے بھی تربیت یافتہ لوگ چاہیے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اسلامی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کرنے والے فنڈز کی ترقی کے نتیجے میں بھی اسلامی مالیات کی تربیت حاصل کیے ہوئے اسٹاف کی ضرورت پڑے گی۔
میرے قابل قدر قارئین! یہ ہےں اسلامی بینکاری کے بارے میں اعداد و شمار کے ساتھ کچھ زمینی حقائق۔ بہت امیدیں ہیں، بہت سے خدشات ہیں، لیکن یاد رکھیے! سود سے بچنا، سود سے بچنے کے لیے کوششیں کرنا اور مالیاتی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
میں یہاں علامہ بنوری رحمہ اللہ کی بات پر ہی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں: ''اب ضرورت ہے کہ پاکستان کا مسلمان کاروباری طبقہ دل کھول کر اس کی معاونت اور حوصلہ افزائی کی طرف ہاتھ بڑھائے۔''
علامہ بنوری رحمہ اللہ کی یہ صدا ایک کوشش پر تھی جو مختلف وجوہات سے کامیاب نہ ہو سکی، یہی صدا آج بھی تاجر برادری سے ہے کہ اسلامی مالیاتی نظام کے لیے ہونے والی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اپنے تعلقات اسلامی بینکوں سے رکھیں اور سودی بینکوں سے بچیں۔ اللہ پاک سود سمیت ہمیں ایک ایک گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔


اس تحریر کی روشنی میں فیصلہ کیجیے! کیا آپ کی کمپنی کو صرف منیجر کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کسی لیڈر کی ضرورت نہیں ہے؟