مولانا شیخ نعمان دینی تعلیم میں مہارت رکھنے کے ساتھ ایم بی اے کی پروفیشنل تعلیم سے بھی آراستہ ہیں۔ مزیدبھی علم و تحقیق کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔جامعۃ الرشید کراچی کے شعبہ KIMSمیں لیکچرار ہیں۔ حال ہی میںاستنبول میں منعقدہ ’’انٹرنیشنل کانفرنس برائے اسلامی معاشیات و مالیات‘‘ میں اسلامی وقف پر لکھا گیا اپنا مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو کیے گئے۔ 2ہزار خلاصۃ البحث (Abstruct)میں

سے ان کا موضوع تحقیق کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ترقی پذیر برادر اسلامی ملک ترکی میں پاک وطن کی علمی اور اسلامی فلاحی کاوشوں کی کامیاب نمائندگی کر کے لوٹنے پر شریعہ اینڈ بزنس نے آپ سے ملاقات کی۔ مولانا شیخ نعمان نے تفصیلی روداد میں اپنی تعلیم، تحقیق اور تجربے کی روشنی میں اسلامی معاشی اصلاحات کے کئی ایک پہلو واضح کیے ہیں۔ 


٭… ترکی پہنچ کر معلوم ہوا کسی کے پاس معیشت کی تعلیم ہے تو شریعت سے ناآشنا اور اگر عالم ہے تو جدید اقتصادیات سے واقف نہیں ٭… مندوبین کے سامنے جامعہ الرشید کا ماڈل رکھا تو ان کا کہنا تھا باوسائل تعلیم گاہوں کو اس ماڈل پر آنا چاہیے ٭… ترکی نے 2007ء سے لے کر اب تک4.7ملین روزگار کے مواقع پیدا کیے

٭… ترکی پہنچ کر معلوم ہوا کسی کے پاس معیشت کی تعلیم ہے تو شریعت سے ناآشنا اور اگر عالم ہے تو جدید اقتصادیات سے واقف نہیں
٭… مندوبین کے سامنے جامعہ الرشید کا ماڈل رکھا تو ان کا کہنا تھا باوسائل تعلیم گاہوں کو اس ماڈل پر آنا چاہیے
٭… ترکی نے 2007ء سے لے کر اب تک4.7ملین روزگار کے مواقع پیدا کیے

شریعہ اینڈ بزنس:مختصر تعارف اور اپنے تعلیمی پس منظر سے آگاہ فرمائیں؟
مولانا شیخ نعمان:میرا نام شیخ نعمان ہے۔پیدائش و بچپن حیدرآباد سندھ میں گزرا۔مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ دارالعلوم مظاہر العلوم،لطیف آباد حیدرآباد سے درجہ خامسہ تک تعلیم حاصل کی۔ ساتھ ساتھ انٹر پری انجینئرنگ سے الفلاح کالج لطیف آباد سے کیا ۔درجہ سادسہ سے دورہ حدیث تک کی تعلیم جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی سے حاصل کی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی اور M.Sc(Economics)شروع کیا۔ شادی 2006ء میں خاندان میں ہی ہوگئی تھی جس وقت،درجہ سادسہ میں تعلیم جاری تھی اور عصری تعلیم انٹر تک تھی۔ باقی تعلیم شادی کے بعد حاصل کی۔ اس کے بعدKIMSکے پروگرام ایم بی اے برائے گریجویٹ علمائے کرام پر لبیک کہا اور ایم بی اے پہلی پوزیشن کے ساتھ مکمل کیا ۔اس کے بعد KIMSمیںہی اپنی خدمات پیش کردیں اور بی اے،بی کام،بی بی اے،ایم بی اے کے مختلف مضامین کی تدریس کرتا رہا۔MBAکی تکمیل کے بعد2009ء میں تخصص فی فقہ المعاملات میں داخلہ لیا، لیکن شام(Evening)میں اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سینٹر ،جامعہ کراچی سے MAS (Economics) کے جاری ہونے کی وجہ سے تخصص چلا نہیں سکا اور اساتذہ سے سماع کی اجازت لی اور مجلۃ الاحکام العدلیہ ، شامیہ ، قواعد الفقہیہ اور آداب فتوی کے دروس کا سماع کیا اور قدوری کی شرح پر کیے جانے والے کام میں باب الرہن،باب الوقف ،باب الکفالہ اور باب الحوالۃ پر کام ذمے لیا۔2012ء میں MAS(Economics) کی تکمیل کے بعد PAF-KIET میں عارضی (Visiting) بنیادوں پر تدریس شروع کی اور وہاں اسلامی مالیات و فقہ المعاملات کے اسباق کی تدریس جاری ہے۔اعمال میں کمزوری کی تشنگی پورا کرنے کے لیے حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب کے خلیفہ مجاز حضرت کمال الدین صدیقی صاحب دامت برکاتہم سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور حال ہی میں IBA کے پروگرام MS(ECO) leading to P,hd میں داخلہ لیا ہے۔


شریعہ اینڈ بزنس:سفر ترکی کی روداد تفصیل سے بیان فرمائیں؟
مولانا شیخ نعمان:پچھلے سال نومبر کی بات ہے۔ میرے اسلامی معاشیات کے استاذجناب ڈاکٹر محبوب الحسن صاحب فرمانے لگے کہ اگلے سال ستمبر میں یہ کانفرنس ہوگی۔ اس کے لیے کوئی پیپر تیا ر کرو۔ایک شاگرد ہونے کی حیثیت سے میں نے ان سے کہا کہ کس موضوع پر پیپر لکھنا ہے تو انہوں نے کہا کہ وقف کے موضوع پرلکھو۔دسمبر کی کوئی تاریخ خلاصۃ البحث (Abstruct)جمع کروانے کی تاریخ تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے پیپر کا خلاصۃ البحث بھیجا جس میں مفید تبدیلیاں کر کے ڈاکٹر صاحب نے واپس بھیج دیا اور مقررہ تاریخ سے پہلے میں نے خلاصۃ البحث بھیج دیا۔ الحمد للہ مارچ میں انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے میل آئی کہ 2000 خلاصۃ البحث میں سے 600 مکمل پیپر کے لیے قبول کیے گئے ہیں، ان میں آپ کو بھی مکمل پیپر بھیجنے کی دعوت دی جاتی ہے۔اس کے بعد پیپر پر کام شروع کر دیا۔ جس میں عالمگیر ویلفیئرٹرسٹ انٹر نیشنل کا تجزیہ کرتے ہو ئے اس نتیجے پر پہنچنا تھا کہ وقف ادارے معاشرے میں پائیدار ترقی لانے کے ضامن ہیں۔ اس حوالے سے عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے کوڈینیٹر جناب نثار احمد صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔اور مئی میں یہ پیپر تیار ہوگیا جسے پھر ڈاکٹر صاحب کو دکھانے اور مفید تبدیلیوں کے بعد بھیج دیا۔15جولائی 2013ء کا دن میری زندگی میں یادگار ہوگیا کہ ا س دن مجھے میل وصول ہوئی کہ آپ کا پیپر 9ویں انٹرنیشنل کانفرنس برائے اسلامی معاشیات و مالیا ت میں پیش کرنے کے لیے قبول کرلیا گیا ہے ۔ممتحنین (Reviewers) کی جانب سے کچھ تجاویز تھیں جنہیں شامل کرکے پیپر بھیج دیا۔
ویزے کے لیے درخواست بھیجی جو روانگی سے 2 دن قبل کم مالیاتی ثبوت کی وجہ سے رد کردی گئی ۔پھر منتظمین سے رابطہ کیا تو 24 گھنٹوں کے اندرترکش قونصلیٹ کراچی سے میل آگئی کہ باوجود ہفتہ کا دن جو کہ چھٹی کا ہے، آپ آکر اپنا ویزا وصول کرلیں۔8ستمبر کو علی الصبح 4بجے روانگی تھی ۔فلائٹ براستہ قطر جارہی تھی۔مجھے علم تھا کہ اس کانفرنس میں ڈاکٹر اسد زماں اور ڈاکٹر ارشد زماں بھی جارہے ہیں، لیکن ان دونوں حضرات سے پہلے ملاقات نہ تھی۔ قطر ائیرپورٹ اترے تو ڈاکٹر ارشد زماں سے ملاقات ہوئی ۔ تعارف ہوا توبڑے خوش ہوئے کہ جامعۃ الرشید کے ایک عالم اس کانفرنس میں جارہے ہیں ۔مقالہ کے موضوع سے متعلق گفتگو ہوئی اور پھر وہیں ڈاکٹر اسد زماں صاحب جو کہ اسلام آباد سے آرہے تھے ان سے بھی ملاقات ہوگئی ۔وہیں ایک اور پاکستانی سلیمان محمد علی، جوکہ میزان بینک کے وائس پریزیڈنٹ برائے پروڈکٹ ڈویلپمنٹ ہیں ان سے بھی ملاقات ہوئی اور آخر تک ان کے ساتھ اچھا وقت گزرا۔


وہاں کے Expo Centreچلے گئے ۔وہاں حلال فوڈز پر نمائش لگی ہوئی تھی۔اس کا دورہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ ترکی کے عوام حلال و حرام کے بارے میں کافی آگاہ ہیں۔اور کھانے پینے کے کی اشیا میں بڑی احتیاط کرتے ہیں،جس کی وجہ سے کمپنیاں قابل بھروسہ اداروں سے حلال سرٹیفکیشن کروانے پر مجبور ہیں۔اگلے دن کانفرنس شروع ہوئی۔ ابتدائی سیشن میںپروفیسر سیواس ایلفےProf. Savaº Alpay,، پروفیسر اعظمی عمر اور ڈاکٹر طارق اللہ خان نے منتظم اداروں کی جانب سے خوش آمدیدی تقریریں کیں ۔اس کے بعد دنیا کے چنیدہ اسلامی اقتصادیا ت کے ماہرین جن میں،ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی،پروفیسر عمر چھاپرا،ڈاکٹر منظر کہف بھی شامل تھے۔


اس ابتدائی سیشن کے بعد مجمع چار کمروں میں بکھر گیا۔ کیوں کہ اب متوازی پریزنٹیشنز ہونی تھیں۔میں اس سیشن میں چلاگیا جس میں ڈاکٹر اسد زماں کی پریزنٹیشن تھی۔اس سیشن میں ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی ،حفص فرقانی، ڈاکٹر ارشد زماں،محمد اکرم،ڈاکٹر اسد زماں،کی پریزنٹیشنز تھیں۔جس میںڈاکٹر عبدلعظیم اصلاحی صاحب نے اسلامی معاشیات کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور حفص فرقانی کا موضوع اسلامی معاشیات کے ایک الگ علم کی شاخ ہونے سے متعلق تھا۔ ڈاکٹر اسد زماںصاحب نے اسلامی معاشیات کی دوبارہ تعریف کیے جانے پر زور دیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلامی معاشیات کو جدید معاشیات کے پیوند کی ضرورت نہیں۔وہ بذات خود ایک الگ علم کی شاخ ہے جس کا بنیادی فلسفہ الگ ہے۔اس کے ادارے الگ ہیں۔ اس میں موجود انسانوں کے رویے الگ ہیں،لہذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ جدید معاشیات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھنا اسلامی معاشیات ہے، بلکہ اس کی تعریف دوبارہ کرنی ہوگی۔یہ ایک الگ علم کی شاخ ہے۔


دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ وقت ان مقالوں کی پریزنٹیشن میں گزرا جن کا موضوع وقف تھا، کیوںکہ میرا موضوع بھی وقف تھا اور پریزنٹیشن دوسرے دن تھی۔کانفرنس کے وقت کے بعد رات کا کھانا صبحۃ الزعیم یونیورسٹی میںتھا جس میں لے جانے اور لانے کا انتظام کیا گیا تھا، پر تکلف دعوت تھی۔یونی ورسٹی کے تعارف سے معلوم ہوا کہ یہ ترکی کی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں اسلامی بینکاری و مالیات پر باقاعدہ کام شروع ہوا ہے اور ماسٹر پروگرام شروع کیا ہے اور جس جگہ یہ یونی ورسٹی ہے وہ سلطان محمد بن فاتح کے پوتے کی وقف کردہ ہے، تبرکا اس احاطے میں اسلامی بینکاری و مالیات کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔یہاں ڈنر پر وہاں کے مرکزی بینک،اسلامی بینک کے عمائدین سے ملاقات ہوئیں۔ واپسی پر اپنی پریزنٹیشن کی تیاری کی، کیونکہ میری پریزنٹیشن دوسرے دن تھی ۔
دوسرے دن مختلف موضوعات جن میں اسلامی بینکاری اور روایتی بینکاری کا مختلف حوالوں سے تقابل،اسلامی ممالک میں عالمی معیشت کے اثرات،اسلامی مائیکروفائی نینس جیسے موضوعات شامل تھے،پر مقالے سنتا رہا۔ چائے کے وقفے کے بعد اپنی پریزنٹیشن دی،جس میں جاپان،ملائشیا،بنگلادیش،افریقہ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے سامعین شامل تھے جن میں ڈاکٹر ارشد زماں اور سلیمان محمد علی بالخصوص موجود تھے جن سے اپنی پریزنٹیشن کے بارے میں مثبت رائے ملی۔اس کے بعد مختلف یونیورسٹیوں جن میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،صبحۃ الزعیم یونیورسٹی ترکی،درھم یونیورسٹی برطانیہ،انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی ملائشیا،انٹرنیشنل سینٹر آف اسلامک فائی نینس ملائشیا،کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سعودی عرب اور زکریا یونیورسٹی ترکی،کے عمائدین نے اپنی یونیورسٹیز میں اسلامی معاشیات اور مالیات کی تعلیم کے حوالے سے گفتگو کی۔ جس سے معلوم ہوا کہ ان کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ جن کے پاس اسلام کا پختہ علم ہے تو وہ معاشیات اور مالیات کے ماہر نہیں ہیں اور جو مالیات و معاشیات کے ماہرین ہیں ان کے پاس اسلام کا علم نہیں ہے۔ان حضرات کی تقاریر کا حاصل یہ تھا کہ ہمیں ایسا نصاب تعلیم ترتیب دینا چاہیے جس سے اسلام کی تعلیم، جس میں فقہ المعاملات سب سے اہم ہے ، بھی ملے اور جدید معاشیات و مالیاتی نظام کا علم بھی گہرائی سے ہوسکے۔اس وقت ہمیں انسانی وسائل کی تعلیم و تربیت کے فقدان کا سامناہے۔اس موقع پر مجھے جامعہ کا تخصص فی فقہ المعاملات یا دآیا جہاںیہ دونوں باتیں بہت بہتر انداز میں موجود ہیں اور اس کو کرنے والے عملی مسلمان بھی ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہمایوں ڈاردینی مدارس میں جدید علوم نہ ہونے پر فکر مند نظر آئے تو میں ان کے سامنے جامعہ الرشید کا ماڈل رکھا ۔ اس پر کہنے لگے دیگر مدارس بالخصوص جن کے پاس وسائل ہیں، انہیں اس ماڈل پر آنا چاہیے۔


اگلے دن کی افتتا حی تقریر ترکی کے صدر عبداللہ گل نے، جس میں انہوں نے مروجہ مالیاتی نظام کی خرابیاں جس میں غیر منصفانہ تقسیم دولت اور بار بار بحرانوں کے سامنا جیسی خرابیوں کو بیان کیا اور اس کے مقابلے میں اصلاحات پیش کیں جن میں مالیات کا اثاثوں کی پشت پناہی ہونا،مالیات شراکت داری کی بنیاد پر فراہم کرنا،تخمینہ کاری کی روک تھام جیسے اقدامات پیش کیے۔ ان کی تقریر میں خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے مروجہ مالیاتی نظام کی خرابیوں کو بیان کر کے جن اصلاحات کا ذکر کیا، وہ ہو بہو اسلامی مالیاتی نظام ہے، لیکن انہوں نے ایک دفعہ بھی اسلامی مالیاتی نظام کی بات نہیں کی، تا کہ تمام دنیاکے لیے قابل قبول ہوسکے۔


اس کے بعد ترکی کے مختلف وزرا کی تقاریر ہوئیں، جنہوں نے ترکی کی ترقی کے بارے میں بتایا۔ جو کہ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے حیرت انگیز تھا،کیونکہ 2002ء سے پہلے، 1950ء لے کر 2002ء تک کسی بھی حکومت کی اوسط عمر 15 ماہ تھی ۔جو ترقی ہوئی ان 11 سالوں میںہوئی ۔اعداد و شمار کے مطابق ترکی نے 2007ء سے لے کر اب تک4.7ملین روزگار کے مواقع پیدا کیے،مزید ترکی کی پیداوار میں پچھلے دس سالوں میں 7.5 فیصدی کی شرح سے اضافہ ہوا ہے، فی کس آمدنی2800امریکی ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 10000امریکی ڈالر ہوگئی ۔افراط زر جو کہ 2002ء سے پہلے 20 فیصد سے بھی زیادہ تھی، اب 5 فیصد ہے۔ یہ سب ترقی نیک نیتی کے ساتھ عوام کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ محنت کا نتیجہ ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامی مالیات کا پروجیکٹ چلا نے والے طارق دیوانی نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ یہ کاغذی نوٹوں سے نکل کہ ہمیں دراہم و دنانیر یا حقیقی زر پر آنا ہوگا اور اسلامی کرنسی کے بغیر اسلامی مالیاتی نظام یا اسلامی معاشی نظام ادھورا ہے ۔ (جاری ہے)