شریعہ اینڈ بزنس:
’’میڈیا‘‘ میں وہاں کے مسلمانوں کا کیا کردار ہے؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
سرکاری ریڈیو پر پانچ وقت کی اذان نشرہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر پروگرامات میں بھی بلایا جاتا ہے۔ کسی خاص مسئلے میں رائے دینی ہو تو پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔
مسلم جماعتوں میں سے جماعۃ الاسلام کا ایک جریدہ بھی نکلتا ہے۔ جمعیت العلما کا ایک چارماہی جریدہ ’’صوت العلما ء‘‘ پہلے چھپتا رہا ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس:
’’جمعیت العلمائ‘‘ کی کوئی خدمت’’ معیشت و تجارت‘‘ کے حوالے سے بھی ہے؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
مسائل پوچھنے پر ان کا تحقیقی جواب دیتے ہیں۔ ’’فتویٰ‘‘ دینے کے علاوہ کوئی خاص صورت خدمت کی نہیں۔ تاہم آپ حضرات کے ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ جیسی صورت فی الحال زیر غور نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تا حال اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
شریعہ اینڈ بزنس:
جمعیت کے تحت عصری تعلیم کا کوئی نظم قائم ہے؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
وہاں کے مدارس دینیہ ہی عصری تعلیم کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ’’جمعیت‘‘ نصاب وضع کرنے میں ضرور شریک رہتی ہے۔اس حوالے سے ہم نے پوری کوشش کر کے مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت پوری کرنے کا انتظام کیا ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس:
حکومت نے اس نظام کو قبول کیا ہے؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
دینی و عصری علوم پر مشتمل یہ نصاب حکومت نے قبول کیا ہے۔ ہماری طرف سے جاری کردہ سند حکومتی اداروں میں چلتی ہے۔
٭… 25 لاکھ یعنی آبادی کا 8 فیصد مسلمان سری لنکا میں ہیں، اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ٭…میں سمجھتا ہوں ہر تاجر کو شریعہ اینڈ بزنس خرید کر مطالعے میں رکھنا چاہیے ٭… اگر ہم دین کے مطابق بزنس کریں گے تو اجر بھی ملے گا اور پرافٹ بھی ٭
شریعہ اینڈ بزنس:
نصاب کتنے سال کا ہے؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
سات سال کا۔’’نصاب‘‘ سے متعلق میں ایک اور اہم بات ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل ہمارے ہاں پہلے اس قسم کے مدارس عربیہ تھے کہ وہاں عصری تعلیم کی کوئی شمولیت نہ تھی۔ ایک مدیر جس ادارے کے فاضل ہیں، وہی نصاب اور نظام لے کر مدرسہ قائم کرتے اور سلسلہ جاری رہتا۔ یہ سلفی یا صوفی کہلاتے تھے۔ اس سند کی تعلیم کی ملک میں کوئی حیثیت نہ ہوتی۔ اس سند کو لے کر وہ کسی سرکاری ادارے میں امتحان دینا چاہتا تو اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ ایک مسلمان وزیر نے اس کا اچھا حل نکالا۔ انہوں نے ’’مولوی عالم سرٹیفکیٹ‘‘ کے نام سے ایک امتحانی نظام پیش کیا۔ اس کے مطابق انہوں نے ’’پارٹ ون‘‘ اور ’’پارٹ ٹو‘‘ کی تقسیم کی۔ کہا: آپ اپنے مدارس میں جو کچھ پڑھویا پڑھاؤ۔ اس امتحان سے گزرنا لازمی ہے۔
پارٹ ٹو عصری نظام تعلیم کا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک مدرسے سے فارغ التحصیل دونوں تعلیموں کا نہ صرف امتزاج حاصل کر لیتا ہے، بلکہ اس کی تعلیم عام عصری تعلیم والے سے زیادہ باوقعت ہو گئی ہے۔
اس پر معمولی اختلاف ہوا، مگر کچھ ہی عرصے میں اتفاق رائے ہو گیا۔ صرف ایک چیز پر اختلاف باقی تھا۔ عقیدے کی کون سی کتاب شامل کی جائے؟ بعض نے کہا: اشعریہ کی ’’جوہر التوحید‘‘ ہونی چاہیے، بعض نے کہا: ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ تو کچھ نے صرف ’’متن الطحاوی‘‘ کا نام لیا۔ اس اختلاف کا حل صرف ایک لفظ کے ذریعے نکال لیا۔ وہ ہے: ’’أو‘‘ یعنی دونوں کتابیں شامل نصاب کی جاتی ہیں۔ دونوں میں سے جو چاہے اختیار کر لے۔ یوں الحمد للہ ہم بجائے لٹکے رہنے کے ایک نتیجے تک پہنچ گئے۔ امتحان کے پارٹ ٹو میں ایسی کتابیں شامل کی گئیں جو حکومت کے نزدیک پسندیدہ ہو سکتی تھیں اور ان کے نظام تعلیم کے مقصد کو پورا کرتی تھیں۔
لہذا جو ہمارا نصاب ہے، یہ زیادہ بھاری ہو گیا ہے۔ کسی کو مزید تعلیمی یا پھرعصری تعلیم کا شوق پورا کرنے کے لیے عصری اداروں میں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے طلبہ خود کو عصری تعلیم یافتگان سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اب اگر یہ اپنی سندلے کر کسی سرکاری ادارے میں چلا جائے تو وہ ’’چشم ما روشن دل ما شاد‘‘ کا مظہر بنے، اس کا استقبال کرتے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس:
نصاب تعلیم انگریزی زبان میں ہے یا مقامی زبان میں؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
صرف مقامی زبان میں ہی نہیں، بلکہ ملک میں بولی جانے والی دو زبان والوں نے اپنی اپنی زبان میں کتابیں شامل نصاب کی ہیں۔ انگریزی صرف ایک کتاب کے طور پر موجود ہے۔ بطور پورے نصاب کی زبان کے نہیں۔ حتی کہ یونیورسٹی لیول کی تعلیم میں بھی مقامی زبان ہی رائج ہے۔ جزوی طور پر بعض اداروں نے انگلش میڈیم نصاب بھی رکھا ہوا ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس:
مسلمان کون سی زبان بولتے ہیں؟
شیخ ہاشم ابراہیم:
مسلمان تین زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں: تامل، سنہالی اور انگریزی۔ دیگر مذاہب میں یہ خوبی موجود نہیںہے۔ شریعہ اینڈ بزنس:
جمعیت کے شعبہ ’’الاقتصاد الاسلامی‘‘ کے تحت آپ کیا خدمات فراہم کر تے ہیں؟
شیخ محمد حارث الرشادی:
رہنمائی کی حد تک۔ بالخصوص اسلامی بینکوں کے حوالے سے۔ کیونکہ وہاں ہر بینک اسلامی میں ایک شریعہ بورڈ ہوتا ہے۔ تین یا چار علماء اس میں ہوتے ہیں۔ یہ حضرات اسلامی بینکوں کومتعلقہ رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جمعیت العلماء کا براہ راست بینکوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ علما جمعیت کے ماتحت وہاں خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہاں کے بہت سے علمائے کرام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی زبیر عثمانی اور مولانا حسان کلیم صاحب وغیرہ کی رہنمائی بھی وہاں کے علما کو حاصل رہتی ہے۔
شریعہ اینڈ بزنس:
آپ اردو بولنے پر بھی قادر ہیں، سری لنکا میں اردو بولی جاتی ہے؟
شیخ محمد حارث الرشادی:
’’کلیۃ الرشاد‘‘ کولمبو سے میں فارغ التحصیل ہوں۔اردو میں نے کلیۃ الرشاد کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں سیکھی۔ وہاں اردو کو باقاعدہ سکھاتے ہیں، کیونکہ یہ دعوت و تبلیغ کی اہم زبان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو بھی اب عالمی زبان بن چکی ہے۔ آپ کے کسی بھی حصہ میں چلے جائیں، دعوت و تبلیغ کی برکت سے اردو دان وہاں پائے جاتے ہوں گے۔ حتی کہ جنوبی افریقا میں بھی اردو بولنے والے موجود ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس:
سری لنکا میں کتنے فیصد مسلمان ہیں؟
شیخ محمد حارث الرشادی:
25 لاکھ یعنی: آبادی کا 8 فیصد مسلمان سری لنکا میں ہیں۔ اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کل آبادی 2 کروڑ ہے۔ ہم نے حالیہ دورہ پاکستان’’افتائ‘‘ اور حلال سے متعلق معلومات کے لیے کیا۔
شریعہ اینڈ بزنس:
شریعہ اینڈ بزنس سے متعلق کیا فرمائیں گے؟
(اس سوال کے جواب میں دونوں معزز مہمانوں نے اپنی اپنی رائے دی)
شیخ محمد حارث الرشادی:
ہم نے اسے ملاحظہ کیا ہے۔ اس کے اہداف و مقاصد بھی ہمارے علم میں آئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رسالہ عوام کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کر رہا ہے۔ اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، معیشت و اقتصاد کا بڑا حصہ اس سے وابستہ ہے۔ 24 گھنٹے کی زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کے لیے یہ تعلیمات ناگریز ہیں۔ اگر ہم دین کے مطابق بزنس کریں گے تو اجر بھی ہو گا اور پرافٹ بھی۔ اس کے بغیر تجارت کی، تو شاید منافع تو مل جائے، مگر اللہ کے ہاں اس کا حساب دینے کے قابل ہم ہرگز نہ ہوں گے۔
ہر بزنس مین کا فرض ہے کہ بزنس شروع کرنے سے پہلے چل کر علمائے کرام کے پاس آئے، اپنی تفصیلات صحیح بتا کر رہنمائی حاصل کرے اور پھر کاروبار کا آغاز کرے۔
شریعہ اینڈ بزنس
یہی کچھ بتاتا ہے، میں سمجھتا ہوں ہر تاجر کو اسے خریدنا چاہیے۔
شیخ ہاشم ابراہیم:
میرا خیال ہے صرف اردو میں ہونے کی وجہ سے اس کا دائرہ کار بہت محدود ہے، آپ اس کا ترجمہ یا مستقل ایڈیشن انگریزی میں شائع کریں۔ہم جیسے لوگ جو سری لنکا یا دیگر ممالک میں ہیں، اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ اس کی شہرت میں اضافہ ہو گا، اس کے فوائد عام ہوں گے۔