سوال:
اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم و تربیت کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
شیخ عوض العدنی:
میں نے کبھی ملازمت نہیں کی۔ شروع ہی سے کاروبار کرتا چلا آ رہا ہوں۔ میری پیدائش ’’بللسمر‘‘ کی ’’غاشرہ‘‘ نامی بستی میں ہوئی۔ وہیں پلا بڑھا۔ بچپن کی حسین یادوں کے نقوش اب پوری طرح مستحضر نہیں، البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ میری ابتدائی زندگی انتہائی مشکل اور پُر مشقت تھی۔ بھیڑ، بکریوں کی گلہ بانی میری دن بھر کی مصروفیت ہوتی۔ اُس وقت لوگوں میں گلہ بانی کارواج عام تھا۔
بھیڑ، بکریاں ہی لو گوں کے معاش کا اہم ذریعہ تھیں۔ لوگ اپنے ریوڑ’’تہامۃ‘‘ اور ’’حجاز‘‘ کے درمیان چراتے تھے۔
جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو افسو س کہ میں تعلیم حاصل نہ کر سکا۔ نہ تو مجھے کسی مکتب یا مسجد میں پڑھنے کی توفیق ہو سکی اور نہ ہی جدید نظامِ تعلیم کے زیر انتظام کچھ حاصل کر سکا۔ شاید حالات اور غمِ روزگار نے مجھے اس بات کی اجازت نہ دی کہ میں پڑھنے لکھنے کے لیے فارغ ہو سکتا۔
٭… ابتدائی زندگی انتہائی پُر مشقت تھی، بھیڑ، بکریوں کی گلہ بانی میری دن بھر کی مصروفیت ہوتی ٭… اس دور میں تجارت پہلے کی بنسبت بے حد پیچیدہ ہو گئی ہے ٭… آ پ اچھے اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آئیں تو لوگوں کو بہت زیادہ اپنے قریب پائیں گے ٭
سوال:
عام طور پر جو شخص کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے، وہ بالکل صفر سے آغاز کرتا ہے۔ اس صورت میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ اس با رے میں کیا رائے دیں گے؟
شیخ عوض العدنی:
یہ بات درست ہے۔ شروع شروع میں تاجر کو بہت زیادہ تھکان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرا موجودہ بزنس ’’کافی‘‘ کا ہے۔ اس سے پہلے اشیائے خوردنی کی تجا رت بھی کر چکا ہوں۔ مجھے بھی شروع میں ایسی صورت حال کاسامنا کرناپڑا، مگر میں نے اس پر صبر کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میرے لیے راہیں کھول دیں اور تجارت میں مجھے اچھی خاصی سوجھ بوجھ حاصل ہو گئی۔ میں تو یہ کہوں گا کہ جو شخص بھی اس دور میں تجارت میں قدم رکھنا چاہتا ہے، اسے ضرور بہت سی چیزوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ انسانی زندگی نے ایک گھمبیر صورت حال اختیار کر لی ہے۔ البتہ ایسے لو گ بھی ہیں جنہیں اس میدان میں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بالخصوص مملکتِ سعودیہ میں جہاں لوگوں نے مملکت کی صنعتی اور اقتصادی تر قی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پیشۂ تجارت کو اختیار کیا۔
سوال:
تجا رت کا آغاز کر تے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
شیخ عوض العدنی:
میں نے جب باقاعدہ تجا رت کا آغاز کیا تو اس وقت میری عمر تقریباً 20 سال تھی۔
سوال:
آپ نے کسی سے تجارتی رہنمائی حاصل کی یا آپ کے عزیز و اقارب میںسے کو ئی تجارت کے شعبے سے وابستہ رہا، جس کے تجارتی طور و طریق کے آپ وارث ٹھہرے ہوں؟
شیخ عوض العدنی:
بالکل نہیں! میں شروع ہی سے تجا رت میں کسی دوسرے پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے نفس پر بھروسہ کرتا آ رہا ہوں۔ میرے رشتہ داروں میں سے نہ تو کسی کو اس میدان میں مجھ پر فوقیت حاصل ہے اور نہ ہی اس میدان میں میرا کوئی شریکِ کار ہے۔
سوال:
اپنے سابقہ کاروبار کے با رے میں کچھ بتلائیے۔
شیخ عوض العدنی:
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اس وقت زندگی کی صورت حال سخت اور مشکل ہے۔ میں اپنی ذات کی بات کرنا چاہوں گا۔ میں خود تجا رت سے قبل اور تجا رت کے بعد مشکل حالات سے گزر کر آیا ہوں۔ اس وجہ سے میں کہتا رہتا ہوں کہ ہر شخص کو کڑے وقت، مشکل اور نامساعد حالات میں خود اعتمادی سے کام کرنا چاہیے۔ اب آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں۔ میں نے اپنے کا روبار کا آغاز مال مویشیوں سے کیا۔ میرے پاس مال مویشیوں کا ایک ریوڑ تھا، جنہیں میں خود چراتا تھا اور انہی جا نوروں میں سے وقتاً فوقتاً کچھ جانور فروخت کر کے اپنے کاروبا ر کو چلاتا تھا۔ ایک عرصہ تک اس کا روبار سے وابستہ رہا۔ لیکن پھر میں نے یہ کا م چھوڑ دیا، کیونکہ جانوروں کی دیکھ بھال میں انسان کو غیر معمولی تھکان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میںنے سوچا: اپنی قسمت کو اب کسی دوسرے میدان میں آزمانا چاہیے۔
سوال:
تب نئی قسمت آ زمائی کے لیے آپ نے کس میدان کو چنا؟
شیخ عوض العدنی:
میں نے ’’اثنین‘‘ بازار کے ایک گوشے میںایک چھوٹی سی دکان حاصل کر لی۔ وہاں میں نے اشیائے خوردنی کا کاروبار شروع کیا۔ اس وقت اس پورے علاقے میں تنہا میں ہی اشیائے خوردنی کا ڈسٹری بیو ٹر تھا، بلکہ پو رے ’’بللسمر‘‘ اور ’’بللحمر‘‘ میں کوئی دوسرا ڈسٹری بیوٹر نہ تھا۔ تمام لوگ مجھ ہی سے خرید و فروخت کرتے تھے۔
سوال:
اشیائے خوردنی کی تجا رت سے ہا تھ کھینچنے کی کیا وجہ بنی؟
شیخ عوض العدنی:
جی ہاں! میں اس تجارت کو بر قرار نہ رکھ سکا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ میں ایک طرف گاہکوں کو ادھار پر اشیائے صرف فراہم کیا کرتا تھا تو دوسری جانب لوگوں دگرگوں معاشی صورت حال کے پیشِ نظر اشیا کے دام کم رکھتا تھا۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کا حجم بڑھتا گیا۔ قرضوں کی وصولی کے لیے میں قرض دہندگان سے مطالبا ت کرتے کرتے تھک گیا، مگر وہ برابر پس و پیش اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ بعض اشیائے خوردنی جن کی مارکیٹ میں بڑی مانگ اور طلب تھی، اُن کی وہ مانگ اور طلب باقی نہ رہی۔ ان وجوہ سے مجھے اچھا خاصا نقصان اٹھاناپڑا۔ مزید یہ کہ لوگوں نے نئی نئی دکانیں کھولنی شروع کیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بازار میں غذائی مواد کے بڑے بڑے تجارتی مراکز بن گئے۔ ان وجوہات کی بنا پر میں نے اس کاروبار سے علیحدگی میں ہی عافیت سمجھی۔
سوال:
نئے کاروبار کی طرف پیش رفت کن حالات میں ہوئی؟
شیخ عوض العدنی:
پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ میں نے اشیائے خوردنی کی تجارت چھوڑ نے سے پہلے 1392ھ میں ’’اثنین‘‘ بازار کی سابقہ دکان چھوڑ کر بازار کے شمالی سمت میں ایک نئی دکان لے لی۔ یہ دکان میری موجودہ دکان کے بالکل سامنے پڑتی ہے۔ اس دوسری جگہ جانے پر مجھے وہاں کے دوست احباب نے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ اُن کا کہنا تھا : میں انہیں چھوڑ کر دور چلا گیا ہوں، حالانکہ یہ نئی جگہ کوئی دو سو میٹر سے بھی کم مسافت پر واقع تھی۔ دراصل انسان اپنی فطرت میں اجتماعیت اور قربت پسند واقع ہوا ہے۔ اگر آ پ لوگوں سے اچھے اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آئیں گے تو اُنہیں اپنے بہت قریب پائیں گے۔ یہی وجہ ہے میری تھوڑی سی دوری بھی دوستوں کی تشویش اور ناگواری کا باعث بنی۔ ان کو یوں لگا جیسے میں علاقے کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
سوال:
’’کافی‘‘ کا کاروبار اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟
شیخ عوض العدنی:
جہاں تک ’’کافی‘‘ کی تجارت اختیار کرنے کا سوال ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس تجارت کے تجربے سے بھی گزرنا چاہتا تھا، کیونکہ میں نے لوگوں سے اس کاروبار کے بارے میں حوصلہ افزا باتیں سنی تھیں۔ خود مجھے بھی اس کاروبار کے نفع بخش ہونے کا کچھ اندازہ تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ جب میں نے اللہ کا نام لے کر اس کاروبار کا آغاز کیا تو میں نے اسے بہت ہی سودمند اور نفع بخش پایا۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں قہوہ ایک مرغوب اور دل پسند مشروب ہے۔ لوگ اسے بڑے ذوق و شوق سے پیتے ہیں۔ میں نے بیرون ملکوں سے بھی قہوہ کی مختلف انواع و اقسام منگوا کر اپنی تجا رت کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دی۔
ہاں! اس کاروبا ر کو اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بنی کہ میں نے دیکھا کہ مستقبل میں اس کاروبار کے مندا ہونے یا اس کے مزاج پر کسی اور چیز کے اثر انداز ہونے کے خدشات تقریباً ناپید تھے۔ مزید یہ کہ اس علا قے میں کوئی بھی دوسرا شخص یہ کاروبار نہیں کر رہا تھا۔ (جاری ہے)