سوال: اپنے بارے میں بتائیے؟ جواب: میرا نام عبد المحسن المیمونی ہے۔ سعودی عرب کے جنوب مغرب میں واقع باحۃ شہر سے میرا تعلق ہے۔
سوال
آپ شہد کے معروف و ممتاز تاجر ہیں، اللہ تعالی کی اس نعمت سے متعلق کیا فرمائیں گے؟

جواب
شہد انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔انسان ہر دور میں اسے دوا، غذا اور ذائقے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ شہد جس طرح انسانوں کو ملتا ہے وہ بھی ایک بڑی دلچسپ و عجیب بات ہے۔ شہد فطرت کی دیگر نعمتوں کے برعکس قدرتی طور پر دستیاب نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص قسم کی مکھی کی ذہانت، صلاحیت اور محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ عمل اتنا غیر معمولی ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ بیان کیا ہے :’’ ہم نے شہد کی مکھی پر اس پورے عمل کو وحی کیا ہے۔‘‘ (النحل)اس عمل میں شہد کی مکھی فطرت کے دسترخوان سے ان گنت پھولوں کا رس چوستی ہے اور پھر اسے شہد میں تبدیل کر کے انسانوں کے لیے فراہم کرتی ہے۔


معہدالرشید، جامعۃ الرشید، کراچی ٭…شہد کی اعلیٰ خصوصیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ شہد کس پھول کے رس سے بنایا گیا ہے ٭…آج کل جتنا شہد بنایا جاتا ہے، اس سے سو گنا زیادہ مارکیٹوں میں فروخت ہوتا ہے ـ جو جعلی ہوتا ہے ٭…چین دنیا میں شہد کی پیداوار میں اوّل نمبر پر ہے،اس کے بعد امریکا ، ارجنٹائن اور ترکی ہیں

 

سوال:
شہد کا تاجر ہونے کے ناطے ہمیں بتائیں کہ شہد کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟
جواب:
جن علاقوں میں گھنے جنگلات ہوتے ہیں، وہاں مختلف قسموں کا شہد ملتا ہے۔ بیری کے درخت کا شہد، ببول کے درخت کا شہد اور اسی طرح گرم اور سرد علاقوں کے لحاظ سے بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس میں موسم بدلنے کا بھی بڑا دخل ہے۔ الحمد للہ !ہمارا شہد عالمی مارکیٹوں تک مشہور ہے لیکن افسوس یہ کہ ہم ابھی تک سب انواع جمع نہیں کر سکے۔
سوال:
کیا آپ نے شہد کی مکھیاں بھی پال رکھی ہیں یا صرف تیار شدہ شہد کا کاروبار کرتے ہیں؟
جواب:
میرے پاس مکھیوں کے چھتے بھی ہیں اور ویسے کھلے شہد کا کاروبار ہے۔ میں صرف بااعتماد اشخاص سے شہد خریدتا ہوں تاکہ ہمارے معیار اور اعتماد میں فرق نہ آئے۔ ملاوٹ شدہ شہد بیچنے سے نہ صرف انسان بیمار ہوتے ہیں بلکہ یہ گناہ، خیانت اور گاہکوں کو دھوکہ دینے کے مترادف بھی ہے۔
سوال
شہد اور شہد کی مکھیوں کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب
اِس سلسلے میں جرمنی کے ماحولیاتی تحقیق کے ادارے ہیلم ہولس سینٹر نے فرانسیسی محققین کے ساتھ مل کر نئے تحقیقی اندازے لگائے ہیں۔ کیمیاوی کھاد کے مسلسل استعمال سے شہد کی مکھیوں کے مرنے کا عمل شروع ہو چکاہے۔ جرمنی میں شہد کی مکھیاں پالنے والوں کی تعداد بھی محدود ہونے لگی ہے۔ اس کی وجوہات بہت متنوع ہیں۔ ان میں شہد کی مکھیوں کی حفاظت سے لے کر بازاروں میں کئی اور ملکوں سے درآمدہ کردہ شہد کی دستیابی شامل ہے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ پچاس سال قبل جرمنی کے کچھ علاقوں میں ایک مربع کلومیٹر رقبے پر شہد کی مکھیوں کے چھ سے سات ڈیرے دیکھنے میں آتے تھے۔ اب یہ تعداد کم ہوتے ہوتے صرف تین تک پہنچ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی میں شہد کی مکھیاں پالنا ایک منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ اِس کاروبار سے منسلک پچانوے فی صد ایسے افراد شوقیہ مکھیاں پال رہے ہیں۔

کئی اور ملکوں میں شہد کی مکھیاں پالنے والے مختلف پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں۔ مثلاً برازیل میں وار روا مائٹس میں مبتلا مکھیوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔ اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اب وہاں کی مکھیوں نے جیسے ’’زندہ رہنے کا حق، سب سے طاقتور کے لئے‘‘ جیسا محاورہ سیکھ لیا ہے اور اس پیراسائٹ کے خلاف جنگ کرنے لگی ہیں۔ اقوام کی مشترکہ کوششوں سے ہی کیڑوں سے پودوں کے اتصال کا عمل دوام پا سکتا ہے اور اِسی کے باعث فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔
سوال
شہد کو بطور دوا یا بطور غذا کیسا پاتے ہیں؟
جواب
شہد انتہائی شیریں اور صحت افزا غذا ہے۔ ـ اس کا اپنا ایک منفرد ذائقہ ہوتا ہے۔ ـ اس میں شامل غذائی اجزا میں کاربو ہائیڈریٹس، شکر، ریشہ پروٹین اور پانی شامل ہیں۔ ـ
شہد کو مٹھاس، شکر اور دیگر مرکبات کا آمیزہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ـ اس میں حیاتین ب حیاتین ج کیلشئیم مینگا نیز میگ نیزئیم فولاد فاسفورس پوٹاشئم سوڈئیم اور جست شامل ہیں۔ ـ
شہد کی کسی بھی اعلیٰ خصوصیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ شہد کس پھول کے رس سے بنایا گیا ہے۔ ـ
سوال
شہد کی اقسام میں مختلف پھولوں کا کیا کردار ہے؟
جواب
شہد کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر بازار سے دستیاب شہد مختلف قسم کی شہد کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ـ شہد کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو مختلف قسم کے پھولوں کو منتخب کر کے بنائی جاتی ہے۔ ـبعض اوقات کسی ایک ہی قسم کے پھول سے شہد بنایا جاتا ہیـ۔ ایسی صورت میں شہد کی مکھیاں پالنے والے چھتے کو ایک ہی قسم کے پھولوں کے پاس رکھتے ہیں۔ ـان پھولوں کو ان کی مخصوص خصوصیات کے حساب سے چُنا جاتا ہے۔ ـ
سوال
اصل شہد کی پہچان سے متعلق کوئی گر بتائیے۔
جواب
آج کل جتنا شہد بنایا جاتا ہے، اس سے سو گنا زیادہ مارکیٹوں میں فروخت ہوتا ہے ـ جو جعلی ہوتا ہے۔ اصل شہد کی پہچان یہ ہے ـنمک کی ڈلی شہد میں گھمائیں۔ آپ جتنی دیر چاہیں ہلائیں شہد میں نمک کا ذائقہ نہیں آئے گا ـ۔ ان بُجھے چونے کی ایک ڈلی لے کر اس کو شہد میں ڈبوئیں۔ اگر تو کچھ نہ ہو تو یہ تازہ شہد ہے ـ اور اگر چڑ چڑ کی آواز آئے تو نقلی شہد ہے۔ ـ
اس کی ایک پہچان یہ ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو اس کا استعمال کروا کے شوگر لیول چیک کریں تو تو لیول نارمل آئے گا، بڑھے گا نہیں۔ ـ
آگ سے جلے نشان پر شہد لگانے سے نہ صرف جلن میں فرق محسوس ہوتا ہے بلکہ زخم کا نشان بھی نہیں رہتا ـ۔
سوال
شہد کی مکھیوں سے متعلق کچھ بتلائیے۔
جواب
شہد مکھی، مکھی کے خاندان کا ذیلی مجموعہ ہیں، جو شہد کی پیداوار اور ذخیرہ کرنے، سالانہ موم کے گھونسلہ بنانے کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ ان کی سات بنیادی اور 44 ذیلی انواع ہیں۔ ’’شہد مکھی‘‘مکھیوں کی بیس ہزار قسموں میں سے صرف چند ہیں۔’’اپیس‘‘ نوع کی شہد مکھی پھولوں پر جاتی ہیںاور پودوں کی وسیع اقسام کی زیرگی (Pollination) کرتی ہیں۔ کچھ اقسام کو تجارتی بنیادوں پر زیرگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تجارت اربوں ڈالر کی سالانہ مالیت بنتی ہے۔ چین دنیا میں شہد کی پیداوار میں اوّل نمبر پر ہے۔اس کے بعد امریکا ، ارجنٹائن اور ترکی ہیں۔
سوال:
آپ تجارت کے فروغ کے لیے تجارتی میلوں کے قائل ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
جواب:
میں اس قسم کی نمائشوں میں شرکت کرتا رہتا ہوں۔ ایسے میلے پروڈکٹ کو مشہور کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس سے ہمیں نئے گاہک بنانے اور شائقین کا ذوق دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ تاجروں کے درمیان اپنے مال کے معیار پر مقابلہ بازی ہوتی ہے۔ بازاروں کے ریٹ معلوم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی نمائشیں تاجروں کے لیے بڑی فائدہ مند ہوتی ہیں۔ کسٹمرز کومثلا شہد کی مختلف انواع دیکھ کر اچھا شہد خریدنے میں آسانی ہوگی۔ آج کل شہد میں ملاوٹ کا شبہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے کسٹمرز جلد مطمئن نہیں ہوتے۔نمائشیں انہیں اپنی پسند تلاش کرنے اور دل کو مطمئن کرنے کا موقع دیں گی۔