جناب محمود رنگون والا ’’نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسڑی‘‘ کے صدر ہیں۔ ’’ٹیری ورلڈ ٹیکسٹائلز‘‘ نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ آپ گزشتہ 20 سال سے کاروبار کی منصوبہ بندی، مارکیٹنگ اور بزنس آئیڈیاز میں مہارت کے ذریعے مختلف کمپنیز اور ایکسپورٹ کے معاملات کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ ’’ٹاولز مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن‘‘ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں۔ ’’کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘‘ کی ایکسپورٹ کمیٹی کے ممبر ہیں۔

آپ کی طویل کاروباری نیز ’’تاجر سیاست‘‘ سے وابستگی کے پیش نظر آپ سے تجارت اور تاجر کے مسائل پر ایک مفید گفتگو ہوئی۔ امید ہے قارئین کے لیے بصیرت کا باعث ہو گی۔

 

شریعہ اینڈ بزنس:

 کاروبار کی طرف کیسے آئے؟


٭… ایس آر او کلچر ختم ہونا چاہیے، عبارت ذومعنی ہونے کے سبب تاجر بلیک میل ہوتے ہیں ٭… نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا تقریبا سو انڈسٹریز پر مشتمل ہے، 2 لاکھ سے زائد ملازمین ہیں ٭…کامیاب بزنس مین بننے کے لیے نیت اچھی اور لین دین کے معاملے میں بالکل صاف ستھرا ہونا چاہیے ٭…میرا زندگی کا تجربہ ہے صرف ایک ایمانداری اختیار کر لیں، اللہ آپ کی ہر مشکل میں مدد کرے گا ٭


محمود رنگون والا:
ہمارا خاندانی پس منظر کاروبار سے ہی جڑا ہوا ہے۔ میرے والد صاحب کارٹن کا کاروبار کرتے تھے۔ میرا انڈسٹری کی طرف رجحان تھا۔ چنانچہ میں نے ٹیکسٹائل کے بزنس سے آغاز کیا۔ بزنس کی طرف آنے کے ساتھ ساتھ میں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر بھی کیا۔ کاروبار کی طرف آنے کا میرا ذاتی ارادہ نہیں تھا۔ میری خواہش تھی کہ یونیورسٹی میں لیکچرار یا پروفیسر بنوں۔ تاہم کچھ حالات اور کچھ فیملی بیک گراؤنڈ کے باعث مجھے کاروبار سے منسلک ہونا پڑا۔ گریجویشن کرتے ہی کاروبار کی طرف آیا۔ ایم اے دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ کیا۔ ابتدا میں تو میں نے کچھ عرصہ بزنس کیا۔ کچھ عرصہ احمر ٹیکسٹائل اور پھر ٹیری ورلڈ ٹیکسٹائل کے نام سے کاروبار کر رہے ہیں۔ بھائی ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس:
بزنس پالیٹکس کی طرف کیسے آئے؟

محمود رنگون والا:
میں سمجھتا ہوں عام سیاستدانوں سے ہمارے بزنس لیڈر زیادہ حساس اور ذمہ دار ہیں۔ پالیٹکس کا حصہ بننے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس علاقے میں آپ نمائندہ ہوتے ہیں، انفرادی حیثیت سے آپ اس کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا تقریبا سو انڈسٹریز پر مشتمل ہے۔ تقریباً 2 لاکھ سے اوپر لوگ یہاں کام کرتے ہیں۔ جب لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال موجودہ حالات سے بھی بدتر تھی۔ ہمارا علاقہ محفوظ اور مامون تصور کیا جاتا تھا۔ ہم نے کرائم مانیٹرنگ سیل بنایا ہوا ہے۔ کیمرے لگے ہوئے ہیں جو 24 گھنٹے مانیٹر کر رہے ہیں۔ الحمد اللہ! یہ فوائد اسی بزنس پالٹیکس سے ہی ہمیں اور یہاں کے عوام کو حاصل ہوئے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
بزنس پالیٹکس کی طرف شوقیہ آئے یا حادثاتی طور پر؟

محمود رنگون والا:
شوق مجھے ابھی ہے نہ ہی پہلے تھا۔ اچھے اور سنجیدہ لوگوں کی یہ ایک ضرورت ہے۔ اس کے لیے خصوصی طور پر وقت دینا پڑتا ہے۔ کہیں ہمیں مشکل اور تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر اچھے لوگ اس طرف آئیں تو بہت کچھ بہتری کی امید ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے ’’صدر‘‘ بننے کا میرا بالکل بھی ارادہ نہ تھا، لوگوں کے اصرار پر یہ عہدہ قبول کر لیا۔

شریعہ اینڈ بزنس:
اس سے پہلے کسی اور عہدے پر بھی رہے؟

محمود رنگون والا:
اس سے پہلے نارتھ کراچی کا چیئرمین رہا۔ چیمبر آف کامرس نارتھ کراچی کے نمائندہ کی حیثیت سے منیجنگ کمیٹی کا ممبر رہا۔ اپنی برادری کا صدر بھی رہا۔ اس وقت میمن فیڈریشن کے ہاؤسنگ بورڈ کا چیئرمین بھی ہوں۔ گزشتہ تین سالوں سے یہ عہدہ میرے پاس ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ کی ایسوسی ایشن حکومتی حوالے سے کیا وزن رکھتی ہے؟ آپ کی تجاویز کس حد تک قابل قبول سمجھی جاتی ہیں؟

محمود رنگون والا:
کراچی کی تین ’’ٹاؤن ایسوسی ایشنز‘‘ ایسی ہیں، جن کی ماتحتی میں گورنمنٹ کی منیجنگ کمپنیاں بنی ہوئی ہیں۔ ان کو سندھ گورنمنٹ کی طرف سے 25,25 کروڑ گرانٹ ملی ہے۔ اس کی مدد سے ہم نے علاقے کی سڑکیں بنوائی ہیں۔ میرا خیال ہے اگر حکومت خو دکرنا چاہتی تو 75 کروڑ میں بھی مکمل نہ ہو سکتا۔ جو ہم نے صرف 25 کروڑ میں کر لیا۔

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ نے جن تین ایسوسی ایشن کا ذکر کیا، ان میں آپ کے علاوہ دیگر دو کون سی ہیں؟

محمود رنگون والا:
’’فیڈرل بی ایریا‘‘ اور ’’کورنگی۔‘‘

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ کی ایسوسی ایشن میں آپ کے آنے کے بعد کیا نمایاں تبدیلی آئیں؟

محمود رنگون والا:
مجھے آئے بھی کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوا، تاہم آج سے سات، آٹھ سال پہلے اس کا دائرہ کار محدود تھا۔ صوبائی اور قومی سطح پر اس کی ویلیو اتنی نہ تھی، جتنی آج ہے۔ الحمد للہ! اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے کے صنعت کار بہت زیادہ متحد اور فعال ہیں۔ اپنے حق کے حصول کے لیے کھڑے ضرور ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں جا کر مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ مؤثر مطالبہ کرنے پر حکومت سننے پر مجبور بھی ہوتی ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ کے علاقے کے کون سے ایسے مسائل ہیں، جو آپ کے خیال میں حکومت کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں؟

محمود رنگون والا:
دیکھیں! سب سے بڑا مسئلہ تو وہی ہے جو پورے کراچی کا ہے۔ یعنی لاء اینڈ آرڈر کی خراب ترین صورت حال۔ میں تو کہتا ہوں ’’فارن انویسٹر‘‘ کی بات کرتے ہیں، اس صورت حال میں تو لوکل انویسٹر کا رہنا بھی مشکل ہے۔ یہ تو اپنے آپ سے جھوٹ بولنے والی بات ہے۔ دوسری جانب حکومت اس حوالے سے بحالی کے لیے کوئی فنڈ بھی نہیں دے رہی۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے پہلے بھی یہی تھا، اب بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ پراپرٹی ٹیکس کا وہ حصہ جو Road Maintenance کے لیے ہوتا ہے، وہ ہمیں دیا جائے۔ تاکہ ہم کیے گئے ترقیاتی کاموں کو بحال اور برقرار رکھ سکیں۔ کیونکہ Maintenanceرکھنا، بنانے کی بہ نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
ٹیکسز کے حوالے سے حکومت کی موجودہ پالیسیوں پر کیا کہنا چاہیں گے؟

محمود رنگون والا:
ہمارے علاقے میں اکثریت ایکسپوٹر کی ہے، ’’ایکسپورٹ اورینٹڈ‘‘ کے ساتھ ’’فکسڈ ٹیکسز‘‘ کا تھوڑا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ ’’ٹیکسپشن‘‘ کے حوالے سے کوئی بڑا سیریس مسئلہ نہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس:
بزنس کمیونٹی کو عام طور پر SRO,s کا مسئلہ رہتا ہے۔ اس قسم کے کوئی ایشوز ہیں؟

محمود رنگون والا:
میں آپ کو بتاؤں کہ پاکستان میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ SRO جب بھی آتے ہیں، وہ ذومعنی ہوتے ہیں۔ ایک گورنمنٹ نے ایک تناظر میں یہ جاری کیے ہوئے ہیں، دوسری حکومت آ کر اس کا دوسرا مفہوم لے کر بزنس مین کو بلک میل کر لیتی ہے۔ پھر کبھی ایف آئی آر کے کیسز بھی بن جاتے ہیں۔ یوں رشوت کا بازار دوبارہ گرم ہو جاتا ہے۔ لہذا SRO کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ اس حکومت نے وعدہ تو کیا ہے، مگر سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص انفرادی ذمہ داریاں پوری کر ے تو یہ مسئلہ نہ رہے۔ اگر ایک بار SRO پوری تفصیل و تشریح کے ساتھ آ جائے تو ذومعنی الفاظ سے فائدہ اٹھانے کی ریت بھی ختم ہو جائے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
اس قسم کے ایشوز کو آپ کس فورم پر اٹھاتے ہیں؟

محمود رنگون والا:
صوبائی اور فیڈرل گورنمنٹس کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں ہم اسے ضرور ڈسکس کرتے ہیں۔ مگر SRO کا مسئلہ بہت اعلی سطح کا مسئلہ ہے۔ اس میں سنٹرل گورنمنٹ کا سیریس ہونا بہت ضروری ہے، خاص طور پر منسٹری آف فائنانس اور منسٹری آف کامرس کا۔ جو بھی SRO آئے، وہ بڑا کلیئر ہو اور اس سے بزنس مین ڈبل مائنڈ نہ ہو۔

شریعہ اینڈ بزنس:
ایکسپورٹرز کو عام طور پر شکایات کم ہوتی ہیں۔ امپورٹر کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امپورٹر کے بڑے بڑے مسائل کیا ہیں؟

محمود رنگون والا:
ہمارے علاقے میں امپورٹر بہت کم، بلکہ ہے ہی نہیں۔ لہذا مجھے ان کا پوری طرح ادراک نہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ نے جن تین ایسوسی ایشن کا ذکر کیا، ان میں آپ کے علاوہ دیگر دو کون سی ہیں؟

محمود رنگون والا:
’’فیڈرل بی ایریا‘‘ اور ’’کورنگی۔‘‘

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ کی ایسوسی ایشن میں آپ کے آنے کے بعد کیا نمایاں تبدیلی آئیں؟

محمود رنگون والا:
مجھے آئے بھی کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوا، تاہم آج سے سات، آٹھ سال پہلے اس کا دائرہ کار محدود تھا۔ صوبائی اور قومی سطح پر اس کی ویلیو اتنی نہ تھی، جتنی آج ہے۔ الحمد للہ! اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے کے صنعت کار بہت زیادہ متحد اور فعال ہیں۔ اپنے حق کے حصول کے لیے کھڑے ضرور ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں جا کر مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ مؤثر مطالبہ کرنے پر حکومت سننے پر مجبور بھی ہوتی ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
آپ کے علاقے کے کون سے ایسے مسائل ہیں، جو آپ کے خیال میں حکومت کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں؟

محمود رنگون والا:
دیکھیں! سب سے بڑا مسئلہ تو وہی ہے جو پورے کراچی کا ہے۔ یعنی لاء اینڈ آرڈر کی خراب ترین صورت حال۔ میں تو کہتا ہوں ’’فارن انویسٹر‘‘ کی بات کرتے ہیں، اس صورت حال میں تو لوکل انویسٹر کا رہنا بھی مشکل ہے۔ یہ تو اپنے آپ سے جھوٹ بولنے والی بات ہے۔ دوسری جانب حکومت اس حوالے سے بحالی کے لیے کوئی فنڈ بھی نہیں دے رہی۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے پہلے بھی یہی تھا، اب بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ پراپرٹی ٹیکس کا وہ حصہ جو Road Maintenance کے لیے ہوتا ہے، وہ ہمیں دیا جائے۔ تاکہ ہم کیے گئے ترقیاتی کاموں کو بحال اور برقرار رکھ سکیں۔ کیونکہ Maintenanceرکھنا، بنانے کی بہ نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
ٹیکسز کے حوالے سے حکومت کی موجودہ پالیسیوں پر کیا کہنا چاہیں گے؟

محمود رنگون والا:
ہمارے علاقے میں اکثریت ایکسپوٹر کی ہے، ’’ایکسپورٹ اورینٹڈ‘‘ کے ساتھ ’’فکسڈ ٹیکسز‘‘ کا تھوڑا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ ’’ٹیکسپشن‘‘ کے حوالے سے کوئی بڑا سیریس مسئلہ نہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس:
بزنس کمیونٹی کو عام طور پر SRO,s کا مسئلہ رہتا ہے۔ اس قسم کے کوئی ایشوز ہیں؟

محمود رنگون والا:
میں آپ کو بتاؤں کہ پاکستان میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ SRO جب بھی آتے ہیں، وہ ذومعنی ہوتے ہیں۔ ایک گورنمنٹ نے ایک تناظر میں یہ جاری کیے ہوئے ہیں، دوسری حکومت آ کر اس کا دوسرا مفہوم لے کر بزنس مین کو بلک میل کر لیتی ہے۔ پھر کبھی ایف آئی آر کے کیسز بھی بن جاتے ہیں۔ یوں رشوت کا بازار دوبارہ گرم ہو جاتا ہے۔ لہذا SRO کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ اس حکومت نے وعدہ تو کیا ہے، مگر سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص انفرادی ذمہ داریاں پوری کر ے تو یہ مسئلہ نہ رہے۔ اگر ایک بار SRO پوری تفصیل و تشریح کے ساتھ آ جائے تو ذومعنی الفاظ سے فائدہ اٹھانے کی ریت بھی ختم ہو جائے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
اس قسم کے ایشوز کو آپ کس فورم پر اٹھاتے ہیں؟

محمود رنگون والا:
صوبائی اور فیڈرل گورنمنٹس کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں ہم اسے ضرور ڈسکس کرتے ہیں۔ مگر SRO کا مسئلہ بہت اعلی سطح کا مسئلہ ہے۔ اس میں سنٹرل گورنمنٹ کا سیریس ہونا بہت ضروری ہے، خاص طور پر منسٹری آف فائنانس اور منسٹری آف کامرس کا۔ جو بھی SRO آئے، وہ بڑا کلیئر ہو اور اس سے بزنس مین ڈبل مائنڈ نہ ہو۔

شریعہ اینڈ بزنس:
ایکسپورٹرز کو عام طور پر شکایات کم ہوتی ہیں۔ امپورٹر کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امپورٹر کے بڑے بڑے مسائل کیا ہیں؟

محمود رنگون والا:
ہمارے علاقے میں امپورٹر بہت کم، بلکہ ہے ہی نہیں۔ لہذا مجھے ان کا پوری طرح ادراک نہیں۔

شریعہ اینڈ بزنس:
سب جانتے ہیں سود حرام ہے اور یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود 90 فیصد بینکنگ سودی، جبکہ صرف 10 فیصد اسلامی ہے۔ آپ کے خیال میں کس فورم سے اس کے خلاف مؤثر آواز اٹھائی جا سکتی ہے؟ نیز آپ کی ایسوسی ایشن اس میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟

محمود رنگون والا:
دیکھیے! جہاں تک سودی کاروبار اور بینکنگ کا تعلق ہے، میرا خیال ہے اس حوالے سے ہم سے زیادہ مفتی صاحبان بہتر جانتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایک واضح تصویر ہماری تاجر برادری کے سامنے لائی جائے اور یہ بتایا جائے کہ سودی کاروبار سے بچنے کے یہ راستے ہیں۔ ہر مسلمان یہ چاہتا ہے کہ وہ سودی کاروبار سے نکل جائے، وہ اسے غلط سمجھتے ہوئے ہی کر رہا ہے۔ مگر بہت سی مجبوریاں ہمیں اس قابل نہیں چھوڑتیں کہ سودی بینکوں سے مکمل چھٹکارا پائیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مفتیان کرام اور علمائے دین ہمارے ساتھ بیٹھ کر اب لائحہ عمل طے کریں۔ اس کے بعد ہم مل کر گورنمنٹ پر دباؤ ڈالیں۔

یک طرفہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دونوں فریق اپنے اپنے فیلڈ کے ایکسپرٹ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب بہت موزوں وقت ہے کہ ہم تاجر لوگ سود سے نجات حاصل کر لیں۔ اس کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں۔

شریعہ اینڈ بزنس:
بہت سے اسلامی بینکوں کے شریعہ ایڈوائزرز سے ہماری بات ہوئی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جو تاجر سودی کاروبار میں ملوث ہے، وہ اس سے نکل کر غیر سودی بینکوں کا تجربہ کرنے کو تیار نہیں۔ اسے یہ بہت بڑا رسک لگتا ہے کہ نہ جانے غیر سودی بینک جا کر میرے ساتھ کیا ہو جائے گا؟

محمود رنگون والا:
میرا خیال ہے یہ انفارمیشن پوری طرح صحیح نہیں۔ جہاں جہاں میری بات ہوئی ہے، بہت سارے تاجر اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ تاہم ایک بات جو تاجر کی نفسیات کے زیادہ قریب ہے، وہ یہ ہے کہ جب وہ ایک بینک کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف جا رہا ہے تو پرافٹ کی شرح میں بڑا فرق اس کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اگر برابر بھی ہو جائے تو مسلمان تاجر ان شاء اللہ سود سے بچنے کی خاطر کچھ نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔

لہذا سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسلامک بینکنگ کی شرح منافع بہت زیادہ ہیں۔ بعض مقامات پر 8،8 فیصد بھی زیادہ ہیں۔ آپ خود سوچیں ایک کاروباری آدمی کیسے آمادہ ہو گا کہ میں 8 فیصد اضافی دوں۔ اس کے باوجود اسلامک بینکنگ کے ڈپازٹ ریٹس بہت کم ہیں۔ یہ بات عملاً اسی طرح رائج ہے۔ اور صنعت کاروں کے ساتھ بیٹھا تو ان کا یہی کہنا تھا کہ اگر ریٹس آج یکساں ہو جائیں تو ہم بلاتاخیر دوسری جانب چلے جائیں گے۔ کاروباری آدمی ایک ایک روپے کا فائدہ دیکھتا ہے۔ اتنا بڑا فرق عام طور پر برداشت کے قابل نہیں ہوتا۔ ایک اور بات جو میں چاہتا ہوں کہ آپ بڑے علمائے کرام کے سامنے بھی رکھیں، یہ ہے کہ ایک ایسا بینک جو بنیادی طور پر سودی ہے اور اس کی ایک برانچ غیر سودی ہے… یہ بات عوام کے لیے بڑی کنفیوژن کا باعث بنتی ہے۔ اب پیسہ لگانے والے کیسے یقین کریں کہ ان کا پیسہ کسی قسم کے سودی مصارف میں جانے سے محفوظ رہا ہے۔ ایسے بینکوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

شریعہ اینڈ بزنس:
کامیاب بزنس مین بننے کے لیے اپنے تجربے کی کوئی بات ذکر کیجیے۔

محمود رنگون والا:
کامیاب بزنس مین بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی نیت اچھی ہونی چاہیے۔ لین دین کے معاملے میں اسے بالکل صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ آج ہماری بدقسمتی ہے کہ یہودی لین دین کے معاملے میں صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ اگر آپ کی نیت صحیح ہے اور آپ لین دین کے معاملے میں لوگوں سے ایمانداری کا معاملہ کرتے ہیں تو آپ سے اچھا بزنس مین کوئی نہیں ہے۔ ایسا بزنس یقیناً عبادت ہے۔ کیونکہ آپ اچھا سلوک کر کے مسلمانوں کا نام اچھا کر رہے ہیں۔ لوگ اسے دیکھ کر کہہ اٹھیں کہ مسلمان بہت ایماندار ہوتا ہے۔ یہ میرا زندگی کا تجربہ ہے کہ صرف ایک ایمانداری آپ اختیار کر لیں، اللہ آپ کی ہر مشکل میں مدد کرے گا۔