سوال: آپ کا تعلیمی پس منظر کیا ہے؟ محمد عقیل:میری پیدا ئش ریاض میں ہو ئی۔ سیکنڈری تک تعلیم ریاض میں ہی حاصل کی۔ سیکنڈری کے بعد ’’شاہ فہد یو نیورسٹی‘‘ کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لے کر وہاں سے ڈگری حاصل کی۔ پھر امریکا جا کر ’’جامعۃ بروکلی‘‘ سے ماسٹرز بھی کیا۔ بعد ازاں واپس ریاض لوٹ آیا۔ یہ تقریباً اُنتالیس، چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت علم و فن کی وہ اہمیت نہیں تھی جیسی اہمیت آج کے دور میں ہے۔ تعلیم کے بعد ملازمت اور روزگار کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس کے لیے میں عبداللہ ابو الخیل کے انجینئرنگ کے مشاورتی دفتر سے وابستہ ہوا اور تین سال تک وہاں کام کرتا رہا۔
٭…50 مربع میڑ رقبہ پر قائم ہونے والے مکتبے نے 50 ہزار مربع میڑ پر مشتمل ایک دیو ہیکل ادارے کی شکل اختیا ر کرلی آ ج گا ہک ’’مکتبہ جریر‘‘ میں داخل ہونے کے بعد قلم سے کمپیوٹر اور پرنٹر تک ہر مطلوبہ چیز کو موجود پاتا ہے اپنی افتاد طبع اور بہت ہی بڑے سپنوں کو پورا کرنے کے لیے ملازمت پر تجارت کو ترجیح دی ٭
سوال:
آپ کے تعلیمی کوائف بظاہر تو ملازمت کے لیے ہی سازگار تھے، تجارت کی طرف کیسے آئے؟
محمد عقیل
ان دنوں عرب ممالک میں یک لخت معاشی ترقی کادور دورہ ہوا۔ اسے دیکھتے ہو ئے میں نے محسوس کر لیا کہ انجینئرنگ جسے پڑھ کر میں نے ڈگری حاصل کی اور تین سال تک اُس سے وابستہ رہا، یہ میر ے اُن خوابوں کی تعبیر نہیں، جو میں اپنے مستقبل کی زندگی میں دیکھنا چاہتا تھا۔ میری ہمت اور سوچ اس ملازمت سے کہیں زیادہ تھی۔ میں سمجھتا تھا ذاتی سطح پر آزا د سرگرمیاں ہی کامیابیوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت میرے سامنے تین راستے تھے۔ مجھے ان میں سے کسی ایک کو اپنی مستقبل کی زندگی کے لیے منتخب کرنا تھا: (1) اسی کام اور ملازمت سے وابستہ رہوں۔ (2) ٹھیکیداری (کنٹرکٹنگ) کے میدان میں جگہ بناؤں، جومیری تعلیم اور ہنر کی لحاظ سے موزوں ترین میدانِ عمل ہو سکتا تھا۔ (3) یا پھر کوئی کتب خانہ قائم کر کے کتب، اخبارات و جرائد اور اسٹیشنری بیچنے کا کام کروں۔ سوچ وبچار کے بعد بالآخر میں نے آخری پیشہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔
سوال
مگر تجارت کے لیے کتابوں کا پیشہ ہی کیوں اپنایا؟
محمد عقیل
میں نے دیکھا کہ معاشرے کی توجہ دن بدن اسکولوں کی طرف بڑھتی جا رہی ہے اورلوگ اپنے بچوںکی تعلیم کا پہلے کی بنسبت کہیں زیادہ اہتمام کر نے لگے ہیں۔ دوسری طرف مملکت سعودیہ میں تیز رفتار ترقی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ ان عوامل کی بنا پر میں نے 1979 ء میں ’’مکتبہ جریر‘‘ کا افتتاح کیا۔ دراصل امریکا میں قیام کے دوران ہی اس مکتبے کے قیام کا آئیڈیا میرے دماغ میں آیا تھا۔ مذکورہ حالات کے پیش نظر اب اسے عملی جامہ پہنانے کا وقت آ چکا تھا۔
سوال
مکتبہ جریر سے جریر کمپنی بنانے تک کامیابیوں کا سفر کیسے طے ہوا؟
محمد عقیل
اللہ کی توفیق، میری محنت اور ثابت قدمی، خاندان والوں کے تعاون اور بازار کی ضروریات کو مدِنظر رکھنے کی وجہ سے ’’جریر‘‘ کی کامیابیوں کا سفر جا ری رہا۔ چھ سال بعد ریاض میں دوسری شاخ اور 90 ء کی دہائی میں تیسری کا بھی افتتاح کر دیا، لیکن یہ شاخ مملکت کے مشرقی علاقے میں تھی، جہاں کوئی اور مقابل مکتبہ پہلے سے موجود نہ تھا۔ ’’مکتبہ جریر‘‘ نے نہ صرف مملکت کے دیگر علاقوں میں، بلکہ پڑوسی ملکوں میں بھی جال پھیلانا شروع کردیا۔ یوں دارالحکومت میں ایک سڑک کے کنارے 50 مربع میڑ رقبے پر قائم ہونے والے مکتبے نے 50 ہزار مربع میڑ پر مشتمل ایک دیو ہیکل ادارے کی شکل اختیا ر کر لی۔ صر ف سعودیہ میں اس کی یو میہ آمدن2 ہزار ریال سے چالیس، پچاس ہزار ریال ہو گئی۔ اُس کی شاخوں کی تعداد 50 تک، جبکہ اُس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 2 سے 15سو تک جا پہنچی۔ مذکورہ کامیابیوں نے مجھے ’’مکتبۃ جریر‘‘ یا دوسرے کسی نام سے ایک ’’کمپنی گروپ‘‘ قائم کرنے کا حوصلہ دیا۔ میں نے اس گروپ کو ’’جریر‘‘ کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ میری کامیابی کا سہرا ہی’’مکتبہ جریر‘‘ کے نام جاتا ہے۔ چنانچہ 1979 ء میں ’’مکتبۃ جریر‘‘ قائم کرنے کے بعد 1980 ء میں’’شرکۃ جریر للتسویق‘‘ کے نام سے کمپنی قائم کی۔ اس کے بعد1981 ء میں ’’شرکۃ جریر للاثاث‘‘ کی بنیاد رکھی۔1987 ء اور 1993 ء میں بالترتیب ’’شرکۃ جریرللاستثمار‘‘ اور ’’مملکۃ الطفل‘‘ کمپنیوں کی داغ بیل ڈالی۔ 1996 ء میں ’’ریاض سکولز‘‘ کا سلسلہ شروع کیا۔ آج ’’جریر کمپنی گروپ‘‘ مقامی تجارت کا ایک اہم ستون، بازارکاری کا یک مثالی نمونہ اور احترامِ گاہک کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور پڑوسی ملکوں میں یہ اعتماد کا ایک نام ہے۔ سعودی معیشت میں اس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سوال
کتب فروشوں کے فائدے کے لیے اپنے مکتبہ جریر کے مقاصد و اہداف ذکر کر دیجیے
محمد عقیل
’’جریر‘‘ کے چند اہم اور نمایاں مقاصد اور اہداف میں اس طرح عرض کروں گا: _ صارفین کو بہتر خدمات کی فراہمی میں نمایاں کرادار اداکرنا _مناسب نرخوں پر اعلیٰ معیار کی مصنوعات فراہم کرنا _صارفین کی قیمتی آراء اور تجاویز کا احترام اور اُ ن سے استفادہ _کمپنی کا مارکیٹ ، نیز کتابوں ، اسٹیشنری اور جدید وسائلِ تعلیم کی فراہمی میں قائدانہ کردار ادا کرنا _ملازمین کی شخصیت کے اُٹھان کے لیے مواقع کی فراہمی
_مضبوط ملک کی تعمیر اور اعلیٰ معیار کی مہارتیں رکھنے والی انتظامیہ کی تشکیل _نفع وترقی ، مقاصد و اہداف کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے ، لہذااس کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا۔
سوال :
کیا آپ اور آپ کی کمپنی ان اہداف کا خیال بھی رکھتی ہے؟
محمد عقیل
ان مقاصدواہداف میں کامیابی کے لیے سچے دل سے محنت و جانفشانی، ذمہ داری کا احساس، نیز صارفین کو خدمات فراہم کرنے والے ملازمین کے لیے پیشہ ورانہ مہارت انتہائی ضروری ہے۔ ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ہم پو ری کوشش کرتے ہیں۔
سوال
آپ کا سلوگن’’مکتبہ جریر محض ایک مکتبہ نہیں‘‘ بڑا مشہور ہے، اس کا مطلب اور پس منظر کیا ہے؟
محمد عقیل
جریر سرمایہ کاری گروپ کا شمار اُن تجارتی گروپوں میں ہے، جنہوں نے تجارت وسرمایہ کاری کی دنیا میں اپنی راہیں خود نکالی ہیں۔ ’’مکتبہ جریر محض ایک مکتبہ نہیں ‘‘ یہ وہ جو جملہ ہے جسے مکتبہ جریر اپنے نقطئہ آ غاز اور سعودی مارکیٹ میں داخلے کے وقت سے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ جملہ ــ’’ مکتبہ جریر‘‘ کا نشانِ خاص اور ہدف بن کررہ گیا ، جس کو پانے کے لیے ادارہ دن رات کو شاں ہے۔اور فی الواقع وہ اس ہدف کو پانے وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہے۔ میں اس جملے کا پسِ منظر بھی بتادوں کہ در اصل ہوا یوں کہ ادارے نے کاروبار میں ایک بڑی کمزور ی کے نقطے کا ادراک کر لیا، جس پر قابو پانے کے لیے اس جملے اور اُس کے منشا پر عمل پیرا ہونا پڑا۔
وہ کمزور ی یہ تھی کہ تعلیمی سال کے آغاز پر تو ادارے کی اشیا ئے فروخت کا تناسب بہت زیادہ بڑھ جاتا، جبکہ باقی سال جمود کا شکا ر رہتا۔ اس مشکل کے حل کے لیے ادارے نے اس پر سنجیدگی کے سا تھ غور وفکر شروع کردیا۔ سوچ وبچارسے اس مشکل کا حل ڈھونڈا کہ ہم مکتبے میں کتب اور دیگر لکھنے پڑھنے کے روایتی سازوسامان کے سا تھ ساتھ کمپوٹر اور دیگر برقی وسائلِ تعلیم کا کاروبار بھی شروع کریں۔ جس کے لیے ہم نے مختلف کمپنیوں اور اداروں سے معاہدے کیے اور ان برقی سازوسا مان رکھنے کے لیے ایک وسیع اور بہترین مرکز کا قیام بھی عمل میں لا یا گیا۔ ہم نے ’’ مکتبہ جریر‘‘ کے سازوسا ما ن میں برقی آلات تعلیم شامل کرکے اشیائے فروخت میں تنوع پیدا کیا، جس کا یہ فائد ہ ہو ا کہ آ ج گا ہک ’’مکتبہ جریر‘‘ میں داخل ہونے کے بعد قلم سے کمپیوٹر اور پرنٹر تک ہر مطلوبہ چیز کو موجود پاتا ہے۔ اس وجہ سے کچھ تعجب کی بات نہیں اگر صارف اس جملہ کو دہرائے کہ ’’ مکتبہ جریر محض ایک مکتبہ نہیں