دن رات کی ہیر پھیر اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ خوشی غمی، تکلیف وراحت، امیری غریبی، عیش ومستی اور فقروفاقہ سب اسی کے اختیار میں ہے۔ آج آپ مالدار ہیں، کل کوئی اور مالدار ہوگا۔ آج آپ فقرو فاقہ کی زندگی گذارہے ہیں تو کل کوئی اور بسر کررہا ہوگا۔ یہی زمانے کی ہیر پھیر ہے۔ اس کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا: ’’یہ تو آتے جاتے دن ہیں،جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے ہیں۔‘‘ آج جس کے پاس پیسہ ہے، کل اس کے یہاں نہیں ہوگا۔ یہ مال، اگرصحیح انداز میں کمایا تو وہ جنت میں جانے کا سبب ہوگااوراگر یہی کسی غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا تووہ اللہ کی پکڑ میں آئے گا۔ مال اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل ہے، جس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
٭…حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے سعد! حلال روزی کھاؤ، تمہاری دعائیں ضرور قبول ہوں گی۔ خدا کی قسم! بندہ اپنے پیٹ میں لقمہ حرام ڈالتاہے تو چالیس روز تک اس کا عمل قبول نہیں کیا جاتا
اللہ تعالی نے اسی نعمت و فضل کو ڈھونڈنے کا حکم فرمایا، جس کوقران کریم ’’ابتغاء فضل اللہ‘‘ (فضل خدا کی تلاش)سے تعبیر کیا ہے۔ مفسرین نے اس سے ’’تجارت‘‘ مراد لی ہے۔ یہ تجارت کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔ تجارت جنت بھی بناسکتی، جہنم بھی۔ تاجروں کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں وعیدیںبیان فرمائی ہیں، وہاں بشارتیں بھی ارشاد فرمائی ہیں۔ وہ تاجر جو اپنی تجارت سنت کے مطابق اور خوف خدا کے سائے میں کرتاہے،وہ قیامت کے دن نبیوں، شہیدوں، صدیقوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جس نے تجارت فریب ، ڈاکہ، جھوٹ اور بے ایمانی سے کی تو وہ فاجر اور فاسق کے ساتھ ہوگا۔
سچے تاجر کی کمائی بھی عبادت ہے بشرطیکہ وہ حلال اور پاک کمارہاہو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور پاک چیز کو وہ پسند فرماتے ہیں۔ اس نے رزق حلال کا حکم اپنے تمام انبیااور رسولوں کو دیا۔ یہی حکم عام مسلمانوں کوبھی دیا۔ تمام ائمہ عظام اس بات پر متفق ہیں کہ حرام مال کا کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ حرام مال کھانے کا مطلب ہے غیر شرعی طریقے سے کسی کا مال ہڑپ کرجانا، خواہ اس حرام خوری کی شکل کوئی بھی ہو۔ رشوت، سود، دھوکہ دہی، چوری، ظلم وتشدد، غصب، امانت میں خیانت، خرید وفروخت میں فریب کاری، دغابازی، جھوٹی گواہی، چوری، پارٹنر کو دھوکہ دینااور عاریتاً چیز لے کر واپسی سے انکار کردینا،وغیرہ …یہ ایسے گناہ ہیں جن کا آخرت میں ہر ایک کو حساب دینا ہے۔
روزِ قیامت کوئی انسان اپنی جگہ سے قدم نہ اٹھا سکے گا جب تک کچھ سوالوں کا جواب نہ دے۔ سوال ہوگا: عمر کہاں اور کن کاموں میں خرچ کی؟ جونی کہاں لٹائی؟ مال کیسے کمایا؟ کہاں صرف کیا؟ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟ ان تمام سوالات کے جوابات ہر ایک کو دینے ہیں۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعاکیا کرتے تھے: ’’یا اللہ ! مجھے نفع مند علم، مقبول ومنظور عمل اور رزق حلال عطا فرما۔‘‘
حلال روزی انسان کو عابد، متقی ، مستجاب الدعوات اور ولی اللہ بنادیتی ہے۔ دعاکی قبولیت اور عبادت کی مقبولیت کے لیے حلال روزی شرط اول ہے۔ کہا جاتا ہے دعا کے دو بازو ہیں:ایک اکل حلال(حلال کھانا)، دوسرا صدق مقال(سچ بولنا)۔ یہی وجہ ہے حرام سے بچنے اور پاک و حلال کمانے والا خوش نصیب، اللہ عزوجل کا محبوب اور دوست ہوا کرتا ہے۔
ایک دفعہ سیدنا سعد بن وقاص ؓ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میرے حق میں دعا کیجیے، میری ہردعا قبول ہوجائے۔‘‘ اس کے جواب میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے سعد! حلال روزی کھاؤ، تمہاری دعائیں ضرور قبول ہوگی۔ خدا کی قسم! بندہ اپنے پیٹ میں لقمہ حرام ڈالتاہے تو چالیس روز تک اس کا عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا ہو تو دوزخ کی آگ اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر) بعض تاجر اپنی چیز کو فروخت کرنے کے لیے بلاضرورت قسموں پہ قسمیںاٹھاتے ہیں۔ جھوٹی قسمیں کھانا اللہ تعالیٰ کوسخت ناپسندہے۔ اس بارے میں روایت منقول ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے (مہربانی اور عنایت کا) کلام فرمائے گا، نہ (رحمت وشفقت کی نظرسے) ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ حضرت ابوذر رضی اللہ نے پوچھا: ’’ خیر اور بھلائی سے محروم خسارے اٹھانے والے یہ کون لوگ ہوںگے؟‘‘ تو رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ایک تو ٹخنے کے نیچے کپڑے (پائنچے) لٹکانے والا، دوسرا کسی کو چیز دے کر احسان جتلانے والا۔ تیسرا جھوٹی قسمیں کھاکر اپنی تجارت بڑھانے والا۔‘‘(مسلم)
اللہ تعالی ہمیں ان تمام عیوب اور گناہوں سے پاک فرمائے اور ہمیں سچا، ایماندار تاجر بنائے، آمین!