آج کل یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ کاروبار میں ترقی نہیں ہو رہی، دن بدن خسارے اور نقصان کا سامنا ہے، گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے، قرض پر قرض لے کر گزارہ ہو رہا ہے، سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اگر باریک بینی سے معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہم شعوری یا لاشعوری طور پر سودی معاملے کا شکار ہو کر دنیا میں معاشی تنزلی اور آخرت کے بدترین عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔
٭… اپنے اگر باریک بینی سے معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہم دنیا میں معاشی تنزلی اور آخرت کے بدترین عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔۔۔٭
سود کی مذمت
سود کی مذمت اور حرمت قرآن وحدیث دونوں سے صراحۃً ثابت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور بقیہ سود کو چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔'' (البقرۃ: 278، 279)
اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، سودی معاملے کو لکھنے والے اور سودی معاملے پر گواہ بننے والے شخص پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (صحیح مسلم: 1219/3)
سود کے علاوہ کوئی ایسا گناہ نہیں جس کے مرتکب شخص کے ساتھ اس پر گواہ بننے والے اور معاملے کو لکھنے والے شخصوں پر بھی لعنت کی گئی ہو، لیکن سود ایسا بدترین گناہ ہے کہ اس میں سودی معاملے کو لکھنے والے اور گواہ بننے والے کو بھی گناہ میں برابر کا شریک ٹھہرایا گیا ہے۔
سود کی تعریف
سود کا لغوی معنی زیادتی اور اضافہ ہے اور اصطلاح میں سود خرید وفروخت کے معاملے میں ایک جانب سے کسی بھی چیز کے ایسے اضافے کا نام ہے جو بغیر کسی عوض کے ہو اور فریقین میں سے کسی ایک کے لیے اس کی شرط لگائی گئی ہو۔
سود سے متعلق دو اہم اصول
قرآن وحدیث کے مطالعے سے سود سے متعلق دو اصول معلوم ہوتے ہیں، جن کی بنا پر ایک عام آدمی بھی سودی معاملے کی پہچان حاصل کر سکتا ہے ۔
اصول نمبر 1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر ایسا قرض جس کی بنا پر کوئی نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی: 349/5)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر ایسا قرض جس کی بنیاد پر کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے، خواہ وہ کرنسی کی شکل میں ہو (جیسے کسی کو ایک ہزار روپیہ قرض دے کر اس سے پچاس روپے اضافی لینا وغیرہ) یا کسی منفعت کے حصول کی صورت میں ہو (جیسے ایک ہزار روپیہ قرض دے کر مقروض کا موٹر سائیکل ایک دن استعمال کرنے کے لیے لینا وغیرہ) یہ سب سود میں داخل ہے، جس کا حاصل کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔
مذکورہ بالا اصول انتہائی آسان اور جامع الفاظ پر مبنی ہے، اس اصول کی بنا پر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بہت سے مسائل مستنبط کیے ہیں اور ہر ایسے نفع کو سود میں شامل کیا ہے جس کا سبب قرض ہو۔
اصول نمبر2
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سونے کو سونے کے عوض، چاندی کو چاندی کے عوض، گندم کو گندم کے عوض، جَو کو جَو کے عوض، کھجور کو کھجور کے عوض اور نمک کو نمک کے عوض (جانبین سے) برابری کے ساتھ اور ہاتھوں ہاتھ فروخت کرو۔ جس شخص نے کسی طرف سے اضافہ کیا یا اضافے کا مطالبہ کیا تو اس نے سودی معاملہ کیا، نیز اس میں اضافہ دینے والااور لینے والا (گناہ میں) برابر ہیں۔ (الجمع بین الصحیحین البخاری ومسلم :316/2)
مذکورہ بالا حدیث سے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول نکالا ہے کہ جب کسی جنس کو اسی جنس کے عوض مثلا: گندم کو گندم کے بدلے فروخت کیا جائے تو اس میں دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں طرف سے برابری ہو، اگر ایک طرف سے کم اور دوسری طرف سے زیادہ ہو تو اس صورت میں معاملہ سودی ہو گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ جس مجلس میں خریدو فروخت کا معاملہ کیا گیا ہو اسی مجلس میں فریقین کا قبضہ کرنا ضروری ہے، اگر ایک فریق نے قبضہ کر لیا، دوسرے نے ابھی قبضہ نہیں کیا تھا کہ دونوں مجلس سے اٹھ گئے تو بھی معاملہ ناجائز ہو گا، جس میں دونوں فریق گناہ گار ہوں گے اور اس معاملے کو ختم کرنا ان پر لازم ہے۔
فائدہ: مذکورہ بالا شرط صرف خریدو فروخت کے معاملے میں جاری ہو گی، اگر ادھار کا معاملہ کیا گیا تو اس شرط کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں، مثلاً: کسی نے پانچ مَن گندم ادھار لی اور ایک ماہ بعد پانچ مَن واپس کر دی تو یہ جائز ہے، کیونکہ ادھار کی بنیاد ہی اس پر ہوتی ہے کہ وہ کچھ مدت کے بعد واپس کیا جائے۔ لہذا اس میں اسی مجلس میں فریقین کا قبضہ کرنا ضروری نہیں۔