مسئلہ:2/30-نیا معاملہ طے کرنے سے پہلا ختم ہو جائے گا
اگر ایک چیز سے متعلق دوبارہ ایجاب و قبول کرنے (یعنی نیا معاملہ کرنے) کی یہ صورت ہو کہ ایک فاسد و ناجائز معاملہ کرنے کے بعد دوبارہ نئے ایجاب و قبول کے ساتھ دوسرا معاملہ کیا جائے اور اس دوسرے معاملے میں اس سے اجتناب کیا جائے جو پہلے معاملے میں فساد کا باعث بنی تھی تو مذکورہ بالا تین صورتوں میں سے جو بھی صورت اختیار کی جائے گی، تو اس سے پہلا ناجائز معاملہ خود بخود ختم تصور ہو گا اور ایک نیا معاملہ وجود میں آئے گا، جس کے بعد اس چیز کا استعمال (جوپہلے فاسد معاملہ کے نتیجے میں جائز نہ تھا) جائز ہو جائے گا۔ (شرح المجلہ للاتاسی: 42/2، مکتبہ رشیدیہ)


مسئلہ:3/31- نابالغ اگر کوئی معاملہ انجام دے تو اس کا حکم
نابالغ بچہ اگر کوئی مالیاتی معاملہ انجام دے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ بچہ بالکل ہی نا سمجھ ہو، تو اس کے ایجاب و قبول (یعنی اس کا کسی معاملہ انجام دینے) کا اعتبار نہیں ہو گا البتہ اگر یہ بچہ سمجھ دار ہو یعنی خرید و فروخت سے متعلق بنیادی باتوں سے واقف ہو او رواضح مالی نفع و نقصان کوسمجھ سکتا ہو، تو اس کے انجام دیے ہوئے معاملات میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس کے ولی (باپ، دادا یا ان کے علاوہ جو بھی اس کے اموال کی نگرانی کرتا ہو) کی اجازت سے وہ کوئی معاملہ کرے تو وہ درست ہو گا۔ ایسی صورت میں معاملہ درست ہونے کے بعد اس کے عملی نتائج و اثرات کا سامنا کرنااور اس معاملہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا، نابالغ کا ولی ہی کرے گا، نابالغ پر خود کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔ اور اگرایسا بچہ ولی کی اجازت کے بغیرکوئی معاملہ کرے گا تو ایسے معاملے کا اعتبار ہی نہیں ہو گا یعنی ایسے معاملے پر کوئی شرعی اثرات مرتب نہ ہوں گے ۔


٭… اگر یہ بچہ بالکل ہی نا سمجھ ہو تو اس کے ایجاب و قبول (یعنی اس کا کسی معاملہ انجام دینے) کا اعتبار نہیں ہو گا ٭…ولی کی طرف سے بچے کو مالی معاملات انجام دینے کی دلالتاً اجازت بھی کافی ہے ٭


فائدہ1:
بچے کے ناسمجھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر معاملات کا نفع و نقصان جانچنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، البتہ یہ صلاحیت مختلف معاملات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے، اس وجہ سے مختلف معاملات کے لحاظ سے عمر کی مختلف قدریں طے کی جائیں گی، جو ماہرین اور تجربہ کار لوگوں کے مشورہ سے طے کی جا سکتی ہیں۔

فائدہ2:
ولی کی طرف سے بچے کو مالی معاملات انجام دینے کی اجازت جیسا کہ صراحتاً ہو سکتی ہے، اسی طرح دلالتاً اجازت بھی کافی ہے، دلالتاً اجازت سے مراد یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے ولی (مالی سرپرست) کے سامنے کوئی مالی معاملہ انجام دے اور ولی اس پر کوئی اعتراض نہ کرے اور آئندہ کے لیے اسے اس طرح کے معاملات انجام دینے سے منع بھی نہ کرے۔ (شامیہ:110/5، احیاء التراث)

معاہدہ خرید و فروخت کی شرعی شرائط
خرید و فروخت کامعاملہ کرنے والے (جو اسلامی ملک کے شہری ہوں، خواہ دونوں مسلمان ہوں یا دونوں غیرمسلم ہوں، یا ایک مسلمان دوسرا غیر مسلم ہو) جب بیع و شراء کا معاملہ کرنا چاہیں گے، تو ان پر ایجاب و قبول سے متعلقہ مذکورہ بالا مسائل کی رعایت کے ساتھ، کچھ مزید امور کی رعایت بھی رکھنا لازم ہوتا ہے، ذیل میں ان امور کا ضروری تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ان ضروری امور کو ہم آسانی کی خاطر تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: (1) مبیع، (یعنی فروخت کی جانے والی چیز، اثاثہ اور سودا سے) متعلق شرائط (2) ثمن(، یعنی معاملہ میں طے ہونے والی قیمت) سے متعلق شرائط (3) مبیع اور ثمن دونوں سے متعلق مشترکہ شرائط۔