موجودہ دنیا میں اشتراکیت (Socialism) کے سقوط کے بعد سرمایہ دارانہ(Capitalism) نظام معیشت ہی ایک قابل عمل حل کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے جن فطری خرابیوں کے ردعمل کے طور پر اشتراکیت کا نظام وجود میں آیا تھا، کیا وہ خرابیاں اب سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں نہیںہیں؟ اسی کا جواب ہے: وہ تمام خرابیاں جن میں سب سے اہم سرمایہ دار طبقے کا تحفظ، غریب کا استحصال، ارتکاز دولت سب جوں کا توں اس نظام میں بھی موجود ہیں، لیکن کوئی اور حل نہیں ہے، لہذا اسی میںمناسب تبدیلیاں کر کے اسے ہی چلایا جا ئے۔

اس پالیسی پر دنیا آج چل رہی ہے، لیکن کیا واقعتاً معاشی نظام کے لیے کوئی قابلِ عمل حل موجود نہیں؟ نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی اور اسے قیامت تک باقی رکھیں گے۔ اونچ نیچ آئے گی، اللہ کے پیغمبر علیہ السلام کے انسانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں اتنا بڑا مسئلہ ہو اور ربِ کائنات کی جانب سے اس کا کوئی حل نہ ہو۔ یقیناً حل موجود ہے۔ وہ حل ہمیں وحی کی روشنی میں ملے گا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، قرآن اللہ تعالیٰ کا آخری کلام ہے جو تا قیامت انسانوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ یعنی اس مسئلے کا حل ہے اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میں ہے۔ کمی ہماری محنت و جستجو میں ہے کہ ہم قرآن و حدیث کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں۔ اس معاشرے کا مطالعہ کریں جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم فرمایا تھا اور خلافت کے سائے میں ایک قابل تقلید، ہر طبقے کا محافظ اور عدل و انصاف کی اعلی مثال بن کر صدیوں قائم رہا۔

جب ہم ایک اسلامی معاشی نظام کے خدو خال متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سامنے مدینہ منورہ کا وہ معاشرہ ہے جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حالت میں رکھی تھی کہ آبادی کا غالب حصہ بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کر کے پہنچا تھا اور دوسری جانب جو مقامی افراد تھے وہ بھی نسبتاً غریب تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس معاشرے کی وہ حالت بدلی کہ وہاں معاشی خوشحالی پیدا ہوئی، معاشرے میں کوئیمعاشی مسئلہ نہ رہا۔ یہ کیسے ہوا؟ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔


وہاں مروجہ معاشی نظام کے تمام عناصر یعنی حکومت، صارفین اور پیداوار کنندگان… سبھی نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک عنصر وہاں اضافی بھی تھا۔ جو آج ہمارے معاشرے میں اس طرح متحرک نہیں جس طرح ہونا چاہیے۔ اسے ہم کہہ سکتے ہیں: ’’وقف فی سبیل اللہ‘‘ کا عنصر۔ یہ ایک ایسا عنصر ہے کہ اسے اگر متحرک کر دیا جائے تو ایک اسلامی معاشرے کے، معیشت کے حوالے سے بھی بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمارے معاشرے میں وہ انتہائی غربت نہیں تو دیگر غیر مسلم معاشروں میں ہے، امیر و غریب کی لڑائی نہیں جو دیگر معاشروں میں ہے۔ اس کی وجہ، وقف فی سبیل اللہ کا کسی درجے میں زندہ رہنا ہے، لیکن ہمیں ایک قدم آگے سوچنا ہو گا۔ ہم اب تک کیے جانے والے اقدام پر اکتفا کر کے نہ بیٹھ جائیں،بلکہ ہمیں تو پوری دنیا کو راہ نجات دینی ہے۔ جس کے لیے ہمیں اسلام کے دیے گئے وقف فی سبیل اللہ کے نظام کو اپنے معاشرے میں بھی مزید متحرک کرنا ہو گا اور باقی دنیا پر بھی اس کی اہمیت اجاگر کرنی ہو گی۔ آئیے! کچھ بنیادی باتیں وقف فی سبیل اللہ سے متعلق سیکھتے ہیں۔ وقف کیا ہے؟
’’وقف کا مطلب ہے: اپنی ملکیت کسی نیک مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں دینا تاکہ وہ ہمیشہ اسی مقصد میں استعمال ہوتی رہے۔‘‘

اس تعریف سے وقف کی کچھ خصوصیات سمجھ میں آتی ہیں:
1 وقف جب اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلا گیا تو مالک دوبارہ اسے اپنی ملکیت میں نہیں لا سکتا
2 وقف کسی بھی نیک مقصد کے لیے کیا جا سکتا ہے
3 وقف کے نتیجے میں مالک کا ثواب ہمیشہ جاری رہتا ہے

ریاست مدینہ میں وقف کا استعمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے دور میں وقف کی مختلف صورتیں رائج تھیں:

1 خیراتی مقصد کے لیے: اس کی مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خیبر کے وہ باغات ہیں جو انہوں نے غریبوں کے لیے وقف کر دیے تھے۔ کہ ان کے پھل غریبوں، مسکینوں اور مستحقین میں تقسیم کر دیے جایا کریں گے۔ اسے نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ ہدیہ کیا جا سکے گا اور نہ ان میں وراثت جاری ہو گی۔

2 عوامی فلاح و بہبود کے لیے: اس کی مثال ’’بیر روحائ‘‘ ہے جو کہ مدینہ میں میٹھے پانی کا کنواں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ایما پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔

3 خاندانی اوقاف: صحابہ کرام کے دور میں ایسے اوقاف بھی وجود میں آئے جن میں اپنی اولاد یا ان میں خاص قسم جیسے خاندان کی بیوہ، یتیم وغیرہ کے لیے بھی وقف کیے جانے لگے۔

خلافت اسلامیہ میں وقف سے استفادہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم امہ نے وقف کے تصور کو استعمال کیا اور خلافت امویہ و عباسیہ اور پھر خلافت عثمانیہ میں بڑے بڑے ہسپتال، یونیورسٹیاں وقف کی بنیاد پر چلتی رہیں اور معاشرے پر اس کا گہرے اثرات پڑتے رہے۔


ہمارے مسائل
آج ہم جب مسلم معاشرے کی پریشانیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معاشی لحاظ سے تین سمتوں میں ہی مسائل نظر آتے ہیں اور آج کی جدید معاشیات میں اسے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے:
1 روزگار
2 غربت کا خاتمہ
3 پیداواری صلاحیت میں اضافہ
ہم اگر ان مسائل کو بجائے جدید معاشیات کے نظریات کے اپنی تاریخ سے ملنے والے سبق سے حل کرنے کی کوشش کریں تو شاید نہ صرف وہ ہمارے معاشرے کے لیے زیادہ قابل عمل ہو گا اور یقیناً اس کے نتائج بھی بہتر ہوں گے۔

 

حل
وقف کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کا قیام
جب پہلے وقتوں میں بڑی بڑی طبی (Medical) یونیورسٹیاں اور رصدگاہیں وقف کی بنیاد پر چل سکتی تھیں تو آج کیوں نہیں؟ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح الحمد للہ ہم دینی ادارے میں مدارس کی صورت میں چلا رہے ہیں، اسی طرح جدید عصری تقاضوں کی فہم پیدا کرنے اور معاشرے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے تعلیمی ادارے بنائے جا سکتے ہیں۔

وقف کی بنیاد پر طبی اداروں کا قیام
اسی طرح اس رخ پر بھی محنت کی ضرورت ہے کہ ہم وقف کی بنیاد پر صحت کی سہولیات فراہم کریں۔ ہم بجائے حکومت کو طعن و تشنیع کرے کہ خود قدم بڑھائیں۔

وقف کی بنیاد پر ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز کا قیام
ایک اور تجویز یہ ہے کہ اپنے معاشرے میں ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز کا قیام عمل میں لائیں جس کے ذریعے نوجوانوں میں وہ ہنر فراہم کیے جائیں، جن کو مارکیٹ میں ضرورت ہے۔ پھر یا تو وہ خود اپنا کام کر سکیں یا پھر مارکیٹ میں مناسب جاب تلاش کر سکیں۔

وقف کی بنیاد پر مالیاتی اداروں کا قیام
جو افراد روزگار کے لیے مارکیٹ میں آئیں گے تو انہیں مالیات کی ضرورت پڑے گی، اس کے لیے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جن سے اسلامی طریقہ تمویل کے مطابق انہیں مالیات مل سکے۔

بہر حال! وقف ہمارا ایک ایسا شعبہ ہے جسے اپنے معاشرے میں مزید متحرک کر کے ہم اپنے معاشی مسائل کا حل، مغربی معاشی نظریات کا سہارا لیے بغیر بہت بہتر انداز میں اس سے اخذ کر سکتے ہیں۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ صدقہ جاریہ یعنی ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے ثواب بھی ہے اور معاشرے کی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی۔

آئیے! اپنے لیے توشہ آخرت تیار کریں۔ رمضان کی مبارک ساعتیں ہیں اور اللہ دیے ہوئے مال میں سے کچھ اپنے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رکھ لیں۔ قدم بڑھائیں اور امت مسلمہ کے زخموں پر مرہم رکھیے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔٭٭٭