اگر آپ کسی کے جسم اور دما غ پر کنٹر ول رکھتے ہیں، یعنی آپ جو چاہیں، کارکن وہی کرنے پر آمادہ ہوں تو دنیا اسے لیڈر شپ سے تعبیر کرتی ہے، لیکن یہ اصل لیڈر شپ نہیں ہے۔ اصل لیڈر شپ لوگو ں کے دلوںپر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو آپ کے ما تحت، ماتحت نہیں رہتے، آپ کے دست وبازو بن جا تے ہیں۔

دیکھیے! کسی کے دماغ پر کنٹرول مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ خوب خوف کا ماحول پیدا کر دیجیے۔ آپ کی شخصیت رعب دار ہو، لہجہ گرجدار ہو، آپ سے باتیں کرتے ہوئے آنکھیں ملانا دشوار محسوس ہوتا ہو تو سامنے والا چاروناچار کچھ عرصے کے لیے آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو گا، لیکن یہ سلسلہ ایک خاص مدت تک ہی چل سکتا ہے۔ اس کے بعد آپ کے اعصاب اتنے مضبوط نہ رہیں گے، نہ آپ کی آواز کی گرج ہمیشہ ساتھ دے سکے گی۔ بالۤاخر آپ کے ماتحت آپ کے ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے اور آپ کو ''لیڈر شپ'' سے ریٹائر ہونا پڑے گا۔
کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو مار پیٹ کر یا غصہ کر کے ''قابو'' کیے رکھتے ہیں۔ ایک زمانے تک یہ رعب قائم رہتا ہے۔ بالۤاخر دھیرے دھیرے بچے اس رعب سے نکل جا تے ہیں۔ پھر ایسے حضرات شکوہ کرتے ہیں کہ بچے بات نہیں مانتے۔ ڈھیٹ ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے جب آپ اپنی اولاد کو ماتحت بنا کر رکھیں گے تو وہ بھی پَر نکلنے کے بعد آپ کے دست و بازو بننے سے گریز کریں گے، لہٰذا دیرپا لیڈرشپ اسی وقت ممکن ہو گی جب آپ لوگوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لیڈرشپ اسٹائل ہمارے لیے اسوہئ حسنہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رعب اتنا تھا کہ خود فرمایا: ''مجھے ایک ماہ کی مسافت کی بقدر رعب عطا فرمایا گیا ہے۔'' آپ میں جنت کے چالیس مردوں کے برابر طاقت تھی۔ مسجد نبوی میں آپ کے لیے آئے ہوئے مال کے ڈھیر لگ جاتے تھے، اگرچہ آپ سخاوت کر کے ایک ہی دن میں انہیں ختم فرما دیتے۔ سوچیے! اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اس رعب، مالداری اور طاقت کے ذریعے قیادت فرماتے تو کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کی منشا سے سرِمو انحراف کرتا، لیکن آپ نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو حسن اخلاق سے قائل کیا۔ یہ طریقہ کار ''اجتہادی'' نہ تھا، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل تائید حاصل تھی، چنانچہ سورۃ آل عمران آیت نمبر 159 میں ہے: ''اللہ ہی کی رحمت کی وجہ سے آپ صحابہ کرامؓ سے نرم خُو رہے۔ اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے گرد سے بھاگ جاتے۔ سو، آپ ان صحابہ سے درگزر کیجےے۔ ان کے لےے استغفار کیجےے اور اہم کاموں میں ان سے مشورہ کیجےے۔ پھر جب آپ کا ارادہ پختہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجےے۔''


٭… آپ ﷺ کا لیڈرشپ اسٹائل ہمارے لئے اسوہ ہے۔ پہلے غور فرمائیے کہ آپ کے ملازمین میں آپ کی شہرت کسی ہے۔ نرم خو یا سخت گیر۔ اگر خدانخواستہ ’’سخت گیر‘‘ کی ہے تو آپ تدریجاً اپنا تاثر بدلنے کی کوشش کریں۔ ملازمین سے مشاورت، ستائش، امداد اور بونس وغیرہ کے ذریعے چند ماہ میں آپ اپنی شہرت بہتر بنا سکتے ہیں۔‘‘

ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ عمومی روےے میں نرم خو رہے۔ اس کی شہرت نرم مزاج شخص کی ہو۔ غصہ بھی اپنی جگہ ایک ضروری وصف ہے اور قیادت کو یقیناً بہت سی جگہ اسے استعمال کرنا پڑتا ہے، لیکن شہرت ''سخت گیر'' کی نہ ہو۔ نیز قیادت ماتحتوں کو اپنے کام میں ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ شامل کرے۔ اس کے لےے ان سے مشاورت کا اہتمام کرے۔ ان کی بات کو اہمیت دے، ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ اس طرح وہ انہیں اپنی ''ٹیم'' کا ایک اہم فرد بنا لے گا۔ اگر صرف حکم چلائے گا توکارکن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک آلے کی ہوگی، جسے ''آن'' یا ''آف'' کرنا خود لیڈر کی ذمہ داری ہو گی۔ تحریک میں اس کا اپنا کوئی جذبہ یا دلچسپی نہ ہو گی۔
یہاں تک اتنی بات تو واضح ہے کہ عمومی رویہ ''نرم خوئی'' کا مناسب بلکہ ضروری ہے۔ اسے عام طور پر Participative leadership کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرا لیڈرشپ اسٹائل کبھی بھی استعمال نہ ہو گا، بلکہ حالات پر انحصار ہے۔ اگر کبھی ایمرجنسی ہو یا سمجھانے میں وقت ضایع ہو سکتا ہو تو Authoritarian / Dictatorship اسٹائل بھی بالکل مناسب ہو گا۔ ہاں اسے عمومی پریکٹس نہ بنایا جائے۔
آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوۃ روکنے والوں سے قتال پر جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا، وہ اسی قبیل سے ہے۔ خود قرآن کریم میں سود کی خرید و فروخت سے مشابہت کے قول پر وضاحت کے بجائے حاکمانہ جواب اسی اسلوب پر دیا ہے۔ بہر حال! اس کی بھی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن عمومی شہرت ''نرم خوئی'' کی رہنی چاہےے۔
اب آخر میں یہ سمجھ لیجےے کہ کاروبار میں ان قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کیسے ہو گا؟ پہلے غور فرمائےے کہ آپ کے ملازمین میں آپ کی شہرت کیسی ہے۔ نرم خو یا سخت گیر۔ اگر خدانخواستہ ''سخت گیر'' کی ہے تو آپ تدریجاً اپنا تاثر بدلنے کی کوشش کریں۔ ملازمین سے مشاورت، ستائش، امداد اور بونس وغیرہ کے ذریعے چند ماہ میں آپ اپنی شہرت بہتر بنا سکتے ہیں۔
لیکن نرم خوئی کا مطلب ملازمین کی باتوں پر چلنا ہرگز نہیں ہے۔ کریں تو وہی جو مشاورت، تجزےے اور استخارے کے بعد آپ کے دماغ میں آ جائے۔ ملازمین کی باتوں کو اہمیت ضرور دیں، ان کو فیصلوں کی بنیادوں میں ضرور شامل کریں، لیکن ''قوتِ فیصلہ'' آپ کی اپنی ہونی چاہےے۔ اس حکمت عملی کے تحت آپ کے 70،80 فیصد فیصلے ملازمین کو اپنے فیصلے محسوس ہوں گے۔ باقی 20،30 فیصدفیصلوں پر ان کا آپ پر اعتماد انہیں اطاعت پر مجبور کر دے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرامؓ پریشان ضرور ہوئے تھے، لیکن اطاعت نہ چھوڑی تھی۔ سیرت سے ماخوذ اس لیڈرشپ اسلوب سے استفادہ کیجےے، کامیاب کاروباری زندگی آپ کا راستہ دیکھ رہی ہے۔