انسان گو اشرف المخلوقات ہے لیکن یہ خطا کا پتلا بھی ہے۔ اس کی سوچ بلند اور بے عیب ہو سکتی ہے، لیکن عمل عیب سے خالی نہیں ہوتا۔ صرف انبیاء علیہم السلام کا کامل گروہ ہی اس قاعدے سے مستثنی ہے ورنہ بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں اور آج کے زمانے کے انٹلیکٹس کا عمل کوتاہیوں کا مجموعہ ہی نظر آتا ہے۔ عصر حاضر میں مینجمنٹ کی جدید تکنیکوں کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ کوتاہیاں کم سے کم ہوں۔

کام بہترین(Efficient)اور مؤثر(Effective)طریقے پر مکمل ہو۔ اس کا سادہ فارمولا یہ ہے کہ پہلے منصوبہ بندی کرو اور سارے مثبت منفی پہلوؤں کا جائزہ لے لو۔ پھر خوب بیداری کے ساتھ عمل کرو اور آخر میں نظر ثانی (Review)کر لو تا کہ ممکنہ تلافی بھی ہو سکے اور آئندہ کے لیے تجربہ بھی حاصل ہو جائے۔ قربان جائیے رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر، جس بلند فکری تک آج سائنسی بنیادوں پر پہنچا گیا ہے،اس کی بہترین مثالیں سیرت میں جا بجا نظر آتی ہیں۔


٭…ابتدا میں فضول گوئی سے بچنے کی منصوبہ بندی اور آخر میں صدقہ کے ذریعے تلافی کا حکم دیا گیا ہے ٭…انسان کی سوچ بلند اور بے عیب ہو سکتی ہے، لیکن عمل عیب سے خالی نہیں ہوتا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے لیے شعبان سے تیاری شروع کرتے تھے۔ پھر رمضان میں تیز ہوا کی طرح سخاوت اور کمر تختہ کر دینے والی عبادت فرمایا کرتے تھے۔ طاق راتوں کو قیام الیل سے بڑھ کر اِحیاء اللیل (ساری رات جاگنے) کا اہتمام فرماتے اور لیلۃ الجائزہ (چاند رات )کو گڑ گڑاتے کہ اتنی کوشش کے بعد بھی رب تعالیٰ کا حق ادا نہ ہو سکا ہو گا! اس کی ایک مثال حج کی بھی لی جا سکتی ہے۔ حاجی سے بیت اللہ سے بہت دور سے احرام بندھوا کر اسے ترک دنیا کی تربیت دی جاتی ہے۔ پھر اصل حج یعنی یوم عرفہ سے پہلے منیٰ میں بھی اس سے عبادت کروا کر اسے بڑے دن کی عبادت کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور پھر یوم عرفہ میں خوب محنت اور کوشش کے ساتھ عبادت کا حکم ہے۔ کھڑے ہو کر، کر سکے تو کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ عصر سے مغرب خوب دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جب غروب ہو جائے تو وہی کوتاہیوں پر تلافی کا سلسلہ استغفار اور رمی کے ذریعے کئی دن جاری رہتا ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں اوراق سیرت کی زینت ہیں۔
ایک تاجر کو بھی ایسی کتنی ہی روحانی اور پیشہ وارانہ ہدایات سیرت سے مل سکتی ہیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے تاجروں کے گروہ! خرید و فروخت میں (انتہائی کوشش کے باوجود بھی) فضول گوئی اور قسم اٹھانے کی نوبت آ ہی جاتی ہے، تو اس کی تلافی صدقہ سے کیا کرو!یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سمجھا دیا کہ تمہاری اصل کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ تم بازار میں بیٹھ کر اپنے مال کی مارکیٹنگ کے لیے نا جائز ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ غیر ضروری گفتگو سے بھی گریز کرو۔
لیکن بازار ایسی جگہ ہے جہاں مسابقت (Competition)کاماحول ہوتا ہے۔ طبعی لالچ بھی اپنے مال کے غیر معمولی اوصاف گنوانے کا تقاضا کرتی ہے۔ پھر گاہک بھی عام طور پر بہت تعریف سنے بغیر پروڈکٹ کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ ایسے حالات میں بڑے بڑے سمجھدار اور بظاہر پرہیزگار بھی زبان سنبھالنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ تو تمہاری پوری کوشش کے بعد بھی اس بات کے غالب امکانات ہیں کہ کچھ گڑ بڑ ہوگئی ہو گی۔ لہذا احتیاط اس میں ہے کہ اول تو زبان سنبھال کر رکھو اور بعد میں صدقہ خیرات کرو تا کہ اس نیکی سے دل میں جو فضول گوئی سے غبار آیا ہے، وہ دور ہو جائے ۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ روحانیت محسوس ہو گی اور عبادت میں حلاوت اور مٹھاس آ جائے گی۔ دیکھیے! یہاں ابتدا میں فضول گوئی سے بچنے کی منصوبہ بندی ہے۔ پھر زبان کو تھامنے کی سعی اور آخر میں صدقہ کے ذریعے تلافی۔ تاجر حضرات کو ایک جانب اس حدیث کے پیش نظر صدقات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ دوسری جانب انہیں اپنے تمام کاموں میں منصوبہ بندی، پختہ عمل اور نظر ثانی و تلافی کے اصول کو تھام لینا چاہیے۔ اس سے دین بھی ترقی کرے گا اور دنیا بھی حاصل ہو گی۔