ایک 25 ہزار ماہانہ کمانے والے ملازمت پیشہ شخص کو اگر بزنس کی سوجھے گی تو وہ کم از کم نفع کی توقع پر ملازمت چھوڑ دے گا؟ اتنی بات تو طے ہے کہ وہ 25 ہزار سے کم نفع پر تو بالکل تیار نہ ہو گا۔ کیونکہ بزنس میں نفع کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ گویا بزنس میں 25 ہزار کا ملنا ’’رسکی‘‘ Risky ہے، جبکہ ملازمت میں یقینی۔ تو Risky 25 ہزار کے لیے کوئی یقینی 25 ہزار کیوں چھوڑے گا؟ فرض کریں کہ 30 ہزار نفع ہو تو کیا ملازم نوکری چھوڑ دے گا؟ بظاہر وہ نہیں چھوڑے گا، کیونکہ 8 گھنٹے کی ملازمت کے ساتھ وہ یقینا5 ، 10 ہزار کا پارٹ ٹائم کام بھی کر سکتا ہے۔
لیکن بزنس شروع کرنے کے بعد مصروفیت 24/7 شروع ہو جائے گی۔ لہذا اس امکانی آمدنی پر بھی وہ ضرور غور کرے گا۔ اب فرض کریں اسے بزنس میں 35 ہزار سے زیادہ آمدنی نظر آنے لگے تو کیا وہ ملازمت چھوڑ کر کاروبار شروع کر دے گا۔ بظاہر وہ ایسا اس وقت تک نہیں کرے گا جب تک اسے ملازمت سے موجودہ اور ممکنہ آمدنی سے نمایاں فرق کے ساتھ آمدنی متوقع نہ ہو، کیونکہ بزنس میں صرف وقت ہی نہیں دینا پڑتا، بلکہ بہت سے نئے جھمیلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ گاہک سے ڈیلنگ، ادھار کا حساب، ادھار کی وصولی اور مارکیٹنگ وغیرہ ایسے بہت سے کام اکیلے مالک کو دیکھنے پڑتے ہیں، جو بڑے کاروباروں میں الگ الگ ملازم دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے ان بکھیڑوں میں اسی وقت پڑا جا سکتا ہے جبکہ معمول سے کافی زیادہ نفع متوقع ہو۔ کاروباری فیصلہ کرنے کے لیے ایسے پہلوؤں کا لحاظ رکھنے کو Opportunity costکا فلسفہ کہتے ہیں۔ گو،یہ فلسفہ بہت سے مواقع پر اسلامی تعلیمات سے متصادم بھی ہے۔ لیکن نئے کاروباری فیصلے کرنے سے پہلے یہ ایک پختہ سوچ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ معاشیات کا ’’سبق‘‘ کیوں شروع ہو گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ وطن عزیز کو پے درپے ایسے معاشی نقصانات سامنے آ رہے ہیں جن کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو ہر محب وطن شخص اپنی ضد چھوڑنے پر تیار ہو جائے، لیکن افسوس! آج ہماری قوم پختہ فیصلوں سے مکمل گریزاں ہے۔ ذرا سوچیے! چند سال پہلے بولٹن مارکیٹ میں چند گھنٹوں میں اربوں کا نقصان ہوا۔ اس محرم میں 7 ارب سے زائد راولپنڈی میں پھونک دیے گئے۔ ربیع الاول اور محرم کے جلوسوں میں جن کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہوتی۔ جو کئی مسلم ممالک کے لیے اب تک ایک اجنبی رسم ہے، محض اپنی قوت کے اظہار کے لیے حساس ترین علاقوں سے گزارنے پر ضد کی جاتی ہے۔ اس دوران کوئی حادثہ ہو جائے تو اربوں میں نقصان ہوتا ہی ہے، لیکن پر امن حالات میں بھی ملک کے بیت المال پر یہ چونچلے انتہائی گراں گزرتے ہیں۔ ذرا سوچیے! پورا ملک ایک دن کی سرگرمی کے لیے کئی دن پہلے بند ہو جاتا ہے۔ یہ اربوں نہیں کھربوں کا نقصان ہے۔ پھر ایسے جلوسوں میں جلوس کے شرکا سے زیادہ سیکورٹی اہلکار تعینات کرنے پڑتے ہیں۔ ذرا ان کا بھی حساب لگائیے۔ پھر سرکاری بجلی کا بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو مزید کئی دنوں تک کاروبار زندگی بند ہو جاتا ہے۔ سب امکانی نقصانات کو جمع کیا جائے تو یہ شاید ایک صوبائی بجٹ کے برابر نقصان ضرور ہو گا۔ لیکن اتنے نقصانات کو سوچنے کے لیے ٹھنڈا دماغ، غیر متعصب سوچ اور حب الوطنی کا جذبہ درکار ہے، جو آج کل کچھ نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا غلط معاشی فیصلے کے تحت یہ سلسلہ ہر سال جاری ہے۔ اسی طرح معاشی ترقی کی راہ پر ملک کو دوڑانے کے ارادے سے ہمارے ایک کمانڈو صدر نے ایک فون کال پر U ٹرن لے لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ڈالروں کے حساب سے ’’دہشت گرد‘‘ پہنچیں گے اور ناٹو سپلائی پر کمیشن کھائیں گے تو ملک دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے گا۔ انہوں نے اس کی Opportunity costکا خیال ہی نہیں کیا؟ چنانچہ پر امن ملک، بد امنی کی دلدل بن کر رہ گیا۔ کمیشن تو آیا لیکن اصل تجارت ہاتھ سے نکل گئی۔ تاجروں نے بستر سمیٹ کر دوسرے ممالک بھاگنا شروع کیا۔ ملک میں کرپٹ سیاستدانوں نے راج شروع کیا تو بچی کھچی دولت بھی ’’ملک‘‘ سے ناراض ہو گئی۔ ہائی پروفائل لوگوں کی سیکیورٹی پر یومیہ کروڑوں خرچ ہونے لگے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بجلی، گیس وغیرہ کے مسائل بحران کی شکل اختیار کر گئے۔ آپ نے دیکھا ایک غلط ’’معاشی فیصلے‘‘ نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
یہ چند مثالیں ہیں ورنہ ہماری امپورٹڈ یا اسپانسرڈ قیادتیں اس سے بڑے اور انوکھے معاشی فیصلے کرتی رہی ہیں۔ اب جبکہ ہمیں ایک نسبتاً بہتر کردار کی حکومت نصیب ہوئی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ ہم بہتر انداز میں اپنے معاشی فیصلے کر سکیں گے۔ لیکن یہ سبق صرف حکومت کے لیے نہیں، بلکہ ہر تاجر، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ہے کیونکہ ہم سب اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ ہم سمجھ دار ہو گئے تو حدیث نبوی کے مطابق ہمارے حکمران سمجھ دار ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔