اسٹور سے کمپنی تک

٭۔۔۔۔۔۔آج عثیم کمپنی سعودی عرب کی سب سے بڑی 50 کمپنیوں میں سے شمار ہوتی ہے۔ اس کی شاخوں کی تعداد 107 تک پہنچ چکی ہے۔
وہ اپنے والد کے ساتھ دوکان پر جاتا۔ ریاض شہر کے مشرق میں ایک چھوٹی سی دوکان تھی۔ دوکان اگرچہ چھوٹی تھی مگر اس کے حوصلے بلند تھے۔ اپنے والد کے ساتھ تجربات حاصل کرتے ہوئے اس نے زندگی کے دو بڑے فیصلے کیے۔

انہی دو فیصلوں نے اس کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ عام تاجر شاید ان دونوں فیصلوں کو تجارتی موت قرار دیں مگر انہی دو فیصلوں نے اسے دنیا کا صف اول کا تاجر بنادیا۔ اس نے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ نفع کم اور فروخت زیادہ کرے گا۔ دوسرا فیصلہ یہ کہ نیک کاموں میں مال خرچ کرنے سے اللہ تعالی کاروبار میں بے تحاشا برکت دے گا۔
انہی دو اصولوں پر چل کر آج عثیم کمپنی سعودی عرب کی سب سے بڑی 50 کمپنیوں میں سے شمار ہوتی ہے۔ اس کی شاخوں کی تعداد 107 تک پہنچ چکی ہے۔عثیم سعودی عرب کے دارالحکومت ''ریاض'' میں رہتا ہے۔ ابتدائی زندگی بطحا نامی بستی میں گزاری۔ مدرسہ قادسیہ میںابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کاروباری زندگی کا آغاز محلے میں ایک چھوٹی سی کپڑے کی دوکان سے کیا۔بن صالح آج سعودیہ میں سب سے بڑی مارکیٹ کا مالک ہے۔ روزمرہ کے سامان اور کھانے پینے کی چیزوں کے حوالے سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے سعودیہ میں اس کی 107 شاخیں کھل چکی ہیں۔ 2011ء میں 39 ملین کسٹمرز نے اس کی مارکیٹ کا رخ کیا، جبکہ سالانہ فروخت 4 بلین ریال سے تجاوز کرچکی ہے۔
عبداﷲ بن صالح کی اس تیزرفتارترقی کے پیچھے کیا راز ہے؟ العثیماپنی کامیابیوں میں اپنے والد بزرگوار کے ممنون احسان نظر آتے ہیں۔ ان کا کہناہے: میںنے کاروبارکی ہر طرح اونچ نیچ اپنے والد صاحب سے سیکھی۔ انہوں نے تجارت میں اور خاص طور پر کھانے پینے والی چیزوں میں میری بہت رہنمائی کی۔ میرے والد صاحب ہمیشہ کہتے تھے: انسان ہفتے میں ہی کامیاب تاجر نہیں بن جاتا، بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت اور کام چاہیے ہوتا ہے۔ فوری نفع کا لالچ انسان کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ بددیانتی، جھوٹ، دھوکہ دہی، کسٹمر کے ساتھ برا رویہ کاروبار کو تباہ کردیتے ہیں۔


''اچھے کام میں زیادہ خرچ کر و زیادہ نفع ملے گا''، ''تھوڑے نفع پر صبر کرلو، مال کی کوالٹی کم نہ کرو'' اور ''صدقہ دینے سے مال بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔''

میرے والد صاحب کا ہمیشہ سے ایک ہی طریقہ رہا ہے کہ ''چیز زیادہ بیچو، نفع کم رکھو'' میں نے اپنے والد صاحب سے کاروبار سے متعلق عام چیزیں سیکھیں۔ ان کی وفات کے بعد والد صاحب کے قریبی دوستوں نے مارکیٹ میں کام کے حوالے سے بہت سی تجاویز سے نوازا۔ کاروبار میں انسان کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جن کا سامناکرنے کے لیے صبر و تحمل، امانت داری، صداقت اور اﷲ کے خوف سے کام لیا جا سکتا ہے۔ میںنے ابتدائی زمانہ اپنے والد کی کڑی نگرانی میں چھوٹی سی دکان پر گزارا۔ والد کی وفات کے بعد میں اسی کام کو بڑے پیمانے پر کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گیا۔ پھروقت آیا کہ 1980ء میں ''العثیم '' نامی بزنس کمپنی سب کے لیے لیڈنگ مارکیٹ کے طور پر کام کررہی تھی۔ 1998ء میں کمپنی نے کمرشل کمپلیکس اور فیملی انٹرٹینمنٹ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ 2006ء میں ''العثیم'' کے نام سے مارکیٹ، انویسٹمنٹ کمپنی اور رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ وجود میں آچکے تھے۔
ہم اصل کا م تو کھانے پینے اور روز مرہ کی اشیا کا ہی کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کمرشل کمپلیکس بھی بنائے جاتے ہیں، جو مختلف لوگوں کو انویسٹمنٹ، رئیل اسٹیٹ و انٹرٹینمنٹ کے لیے دیے جاتے ہیں۔ مزید اس جیسے ملتے جلتے کام، لوگوں کے فائدے اور ضرورت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ دراصل چھ چیزیں میری کامرانی کی بنیاد ہیں: اﷲ کی توفیق، حسن نیت، صدق دل، والدین کی دعا، لوگوں کی محبت اور والد صاحب کی نصیحتیں۔
میرے والد صاحب کی یہ نصائح ہرتاجرکوپلے باندھ لینی چاہیے: ''اچھے کام میں زیادہ خرچ کر و زیادہ نفع ملے گا''، ''تھوڑے نفع پر صبر کرلو، مال کی کوالٹی کم نہ کرو'' اور ''صدقہ دینے سے مال بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔''
بہت سے نوآموز کاروباری حضرات اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ کاروبار کے آغاز میں آپ یقینا بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوں گے۔ جس کے سامنے کے لیے آپ کے پاس صبر و تحمل، برداشت و حکمت، عقلمندی و دانائی جیسے ہتھیار ہونے چاہیےں۔ میں چونکہ اپنے والد صاحب کے ساتھ رہا، اس لیے مشکلات کا سامنا کرنے کا مجھ میں بڑا حوصلہ تھا۔ جب تک خدا کی مدد، دیانت و صداقت، حق گوئی کا ساتھ نہ ہو، انسان مشکلات سے نہیں لڑسکتا۔ مزید یہ کہ ہر کاروبارکو شروع کرنے سے پہلے اس سے متعلق ضروری معلومات اور اہمیت کا علم ہونا چاہیے۔
یہ کاروباری رازبھی ذہن میںرکھیے کہ کمپنیوں کا آپس میں رابطہ ہوناچاہیے۔ کام کرنے کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کرنا چاہیے جو کام کی پہلے ٹریننگ حاصل کر چکے ہوں۔ اس کے لیے مختلف قسم کے ادارے اور اکیڈمیاں بنانی چاہییں۔ کسی ایک کمپنی کو لیڈنگ رول ادا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ کمپنیوں کو سوشل رسپانسبلٹی بھی لینی چاہیے۔ عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے چاہیے۔ ہماری ''العثیم'' نے بہت سی اکیڈمیاں قائم کی ہیں، یہاں سے تقریباً 28 ہزار نوجوان مرد و عورت ٹریننگ لے کر مختلف کمپنیوں میں کام کررہے ہیں۔