یہاں یہکامیاب بزنس لیڈر کون ہوتا ہے؟سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایک کامیاب بزنس لیڈر وہ ہوتا ہے جو کامیابی کے اہداف بحُسن و خوبی حاصل کر لیتا ہے اور ٹھوس نتائج (Tangible Results) ہی اس کی کامیابی کے درجات متعین کرتے ہیں، لیکن ایک مسلمان بزنس لیڈر کی کامیابی کا ہدف یعنی''اللہ کی رضا کا حصول'' ایسا ہدف ہے، جو اس دنیا ''دارالاسباب'' میں مادّی وسائل، اسباب، محنت، کوشش، علم، مہارتوں اور رویوں کے ذریعے نتائج کا حصول ممکن ہوتا ہے، لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نتائج مرتب کرنے کا اختیار صرف اللہ رب العزت کے پاس ہے۔ اس یقین دہانی کے ساتھ کہ اس دنیا میں اسباب اختیار کرتے ہوئے جو بھی محنت اور کوشش کرے گا، اُسے کامیابی ملے گی۔ اس کامیابی کی ضمانت صرف مومن کے لےے نہیں،بلکہ کفار، مشرکین اور مُلحدوں کو بھی اللہ رب العزت نوازتے ہیں۔ مسلمان کی کامیابی تو اُخروی زندگی کی کامیابی ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو وہیں پتا چلے گا۔ ہاں! اگر صراط مستقیم پر چلنے کی ہمت و توفیق مل گئی تو دونوں جہانوں میں وارے نیارے۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی وہاں بھی، ان شاء اللہ!
… کامیاب بزنس لیڈر کے لئے جہاں علم اور مہارتوں کا ہونا ضروری ہے، وہاں رویوں (Attitudes) کا درست ہونا بھی ناگزیر ہے۔
کامیابی کی اس مختصر سی تشریح کے بعد آئےے! ہم کامیاب بزنس لیڈر کی دو کیس سٹڈیر (Case Studies) یا مثالیں کہہ لیجےے، آپ کے غور و فکر کے لےے پیش کرتے ہیں۔
1 کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی عزم کا پختہ اور غیر متزلزل ہونا
ایک کامیاب بزنس لیڈر کے متعدد اوصاف ہیں۔ اس کے اندر پختہ اور غیر متزلزل عزم (Determination) کا بنیادی وصف (Trait) ہونا ناگزیر ہے۔ پاکستان کی ایک معروف کھلونا ساز فیکٹری، جس کا مارکیٹ شیئر 60 فیصد سے زائد ہے۔ اس کے مالک کا ایک بیان ملاحظہ فرمائیے: ''لڑکپن میں میرے ذہن نے ایک تصور باندھ رکھا تھا کہ میں بچپن میں جن کھلونوں سے کھیلتا تھا، وہ مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ ایسے بہت سے کھلونے ہوں اور میرے سارے دوستوں کے پاس بھی ویسے کھلونے ہوں اور تخیل کی پرواز مجھے ایسے کارخانے میں لے جاتی جہاں کھلونے بنتے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ پھر اُسی پرواز میں کیا دیکھتا کہ میں اُس کارخانے کا مالک ہوں۔ اور میری فیکٹری میں دھڑا دھڑ کھلونے بن رہے ہیں اور دکانوں میں سج رہے ہیں۔ ننھے منے بچے اپنے والدین کے ہمراہ کھلونے پسند کر رہے ہیں اور خرید رہے ہیں اور خوشی سے پُھولے نہیں سما رہے۔''
رفتہ رفتہ میں پڑھتا گیا، تعلیم کے مدارج طے کرتا گیا، لیکن اس تصور نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ میں نے MBA کر لیا۔ بزنس مینجمنٹ کے اصول و اطلاقات (Principles and Applications) جب پڑھتا تو میرا ذہن اپنی تصوراتی فیکٹری کے فنکشنز اور آپریشنز کے ساتھ Relate کرتا۔ MBA کے بعد M.S کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔ متوسط گھرانے سے تعلق تھا۔ بیرون ملک کسی اچھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے لےے مصارف کا تحمل نہ تھا، البتہ دلی خواہش تھی کہ M.S ضرور کروں۔
اللہ کریم نے سُن لی اور مجھے امریکا کی ایک اچھی یونیورسٹی میں اسکالرشپ مل گیا۔ ایسا اسکالرشپ جس میں آنے جانے، قیام و طعام اور ذاتی ضرورتیں ساری کی ساری پوری ہو گئیں۔ امریکا میں دورانِ تعلیم میں اپنے (Visionary Project) کو سنوارتا اور سجاتا رہا۔ تعلیمی ٹریک ریکارڈ اچھا تھا۔ امریکا ہی میں اچھی ملازمتوں کی پیشکش آنی شروع ہو گئی۔ بعض میں تو ایسی بھر پور ترغیبات تھیں کہ ڈانواں ڈول ہوتے ہوتے بچا۔ جیت میرے تصوراتی عزم کی ہوئی۔ میں پاکستان آ گیا۔ یہاں آ کر بہت ہی کم سرمائے کے ساتھ کھلونا سازی کا کام شروع کر دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرا تصوراتی عزم حقیقت کا روپ دھارتا گیا۔ میں قدم بہ قدم آگے بڑھتا گیا۔
صرف دس سال کے عرصے میں پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی میرے برانڈ نے اپنا نام کما لیا۔ مارکیٹ کا سب سے بڑا شیئر حاصل کر لیا۔ میں نے جو کچھ حاصل کیا، وہ محض اللہ رب العزت کا انعام و احسان تھا۔ میں نے صلہ رحمی کے تقاضے پورے کرنے کے لےے اپنے عزیز و اقارب کو بھی کاروبار میں شریک کیا ہے۔ نادار، غربائ، مساکین، بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔ اس نیت اور ارادے کے ساتھ کاروبار کر رہا ہوں کہ میرے ملک کی معیشت اور اقتصاد بہتر ہو۔ میرے ہم وطنوں کو روزگار ملے اور مجھے اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا کاروبار چلانے اور معاملات طے کرنے کا موقع ملے۔ میں اپنے اہل و عیال کے لےے رزق کما سکوں اور میں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیاب ہو سکوں۔ ''رزقِ حلال، کسبِ کمال کے ساتھ'' میرا نصب العین ہے۔''
یہ تو ایک مثال تھی کہ کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے ''عزم'' پختہ، اٹل اور غیرمتزلزل ہو تو بہت کچھ مل جاتا ہے۔
2 اپنی خامیوں کو خوبیوں میں تبدیل کرنا
اب دوسری مثال پیش خدمت ہے۔ ایک کامیاب بزنس لیڈر میں ایک اور اہم وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی خامی، کمزوری یا کمی (Minus Point) کو کس طرح اپنی خوبی، طاقت اور خصوصیت (Plus Point) میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ''یہ قصہ ایک ایسے لیڈر کا ہے، جو ایک ایسے اسکول کا سربراہ تھا جس میں دینی شعار و اقدار کے مطابق اسکول کی اچھی تعلیم دی جاتی تھی۔ اساتذہ اور طلباء میں لباس، تراش خراش اور وضع قطع حسبِ شرع تھی۔ اسکول مینجمنٹ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے براہ راست الحاق (Affiliation) کی درخواست دے رکھی تھی۔ برٹش کونسل سے معائنہ کار ٹیم اسکول پہنچی۔ اسکول کے سربراہ نے ان کا استقبال کیا اور کمرہئ جماعت کا معائنہ کرانے ٹیم کو کلاس میں لے گیا۔ سب غیر ملکی مرد و حضرات تھے۔ اس ٹیم کی رکن یا سربراہ نے استاد اور طلباء پر پہلی نظر پڑتے ہی چِلّا کر کہا: ''Hey! Whath's happenning here? Mullah is teaching Mullah''
'' اوہ! یہاں کیا ہو رہا ہے۔ ملا پڑھ رہا ہے اور ملا ہی پڑھا رہا ہے، یعنی ٹیچر بھی متشرع اور اسٹوڈنٹ بھی متشرع۔''
اسکول کے سربراہ نے بڑے تحمل اور بردباری کے ساتھ شائستہ انگریزی میں جواب دیا: ''Yes! You are absolutely right. Mullah is teaching Mullah. but don,t you see, what are we teaching. We are teaching your syllabus''
''جی ہاں! آپ بالکل درست فرما رہی ہیں۔ مُلا، مُلا کو پڑھا رہا ہے، لیکن یہ تو ملاحظہ فرمائےے کیا پڑھا رہا ہے؟ ہم آپ کا سلیبس ہی تو پڑھا رہے ہیں۔'' اس خوبصورت اور برجستہ جواب کے بعد معاینہ ٹیم کے کسی بھی رکن نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بس ایک ہی جُملے کی گونج سنائی دے رہی تھی: ''Yes! they are teaching oxford syllabus'' سارے کوائف پورے تھے، لہذا الحاق (Affiliation) کی منظوری مل گئی۔
قارئین کرام! یہ ایک کامیاب بزنس لیڈر کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوتا ہے اور پھر انہیں اپنے حق میں استعمال کرنے کا فن جانتا ہے: Turning disadvantage into advantage is the art of a successful leader.
3 تواضع اور عاجزی کا وصف
کامیاب بزنس لیڈر کی ایک اہم خصوصیت سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے رویوں (Attitudes) پر نظر رکھنا اور عاجزی، انکساری اور تواضع اختیار کےے رکھنا ہے۔ بے شک جو شخص اللہ کے لےے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ رب العزت اسے ضرور بلند کرتے ہیں۔ مسلسل کامیابیاں ملیں تو شیطان سمجھاتا ہے: ''دیکھ تو سہی اپنے کمالات۔ لاجواب ہیں ترے جوہر۔ کوئی تجھ سا ہے توسامنے آئے!'' اس شیطانی وسوسے کے توڑ کے لےے اپنی اوقات کو یاد رکھے اور اللہ رب العزت کے بے شمار احسانات و انعامات پر نظر رکھتے ہوئے کہے: ''سب کچھ دیا ہوا، اللہ کا ہے۔ اگر میری کوئی مخصوص صلاحیت اور استعداد میری کامیابی کی وجہ بنی تو یہ بھی اللہ ہی کی دی ہوئی تھی۔ استعمال بھی اللہ ہی کے چاہنے سے ہوئی۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔''
کامیاب بزنس لیڈر کے لےے جہاں علم اور مہارتوں کا ہونا ضروری ہے، وہاں رویوں (Attitudes) کا درست ہونا بھی ناگزیر ہے۔ الحمد للہ! ہمارا دین اسلام مکمل ضابطہ ئحیات ہے، جو قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ رویوں کو درست رکھتا ہے۔ آزادی (Liberty) اور بے لگامی (Lisence) کا فرق بتاتا ہے۔ شرط یہی ہے کہ نیت و ارادہ ٹھیک ہو، اخلاص کے ساتھ پورے پورے دین پر چلنے کا عزم ہو اور بساط بھر کوشش و محنت۔ نعمتوں کا شکر ادا کرے اور مصائب پر بھی صبر۔ ان شاء اللہ! کامیابی مقدر ہو گی۔ یہاں بھی اور وہاں بھی۔