کیونکہ وہ کفایت شعارتھا! کریسج جس نے پائی پائی جمع کرکے ایک کمپنی ’’Kmart‘‘ بنا لی

پوسٹ شئیر کریں

تازہ ترین مضامین

مضمون نگار

کریسج (Kresge) 31 جولائی 1867 ء بیلڈ ماؤنیٹن پنسلوانیا میں پیدا ہوا۔ وہ ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس کے والدین سوئٹرزلینڈ (Swiss) سے ہجرت کر کے امریکا آئے تھے۔ کریسج نے بچپن سے ہی والدین سے کفایت شعاری کا سبق سیکھ لیا اور یہ درس اس کی سرشت میں داخل ہو گیا۔ یہی خوبی کریسج کی کاروباری کامیابی میں نمایاں نظر آتی ہے۔

٭… کریسج کہتا ہے: شہد کی مکھیوں سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ عظمت تو صرف سخت محنت میں ہی ہے ٭

کریسج نے ابتدائی تعلیم کے بعد Fairview اکیڈمی پنسلوانیا میں پڑھنے لگا۔ اس اکیڈمی سے گریجویشن کرنے کے بعدوہ مزید آگے پڑھنا چاہتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ یہ کسی بزنس کالج میں داخلہ لے سکتا۔ دوسرا مغرب میں ہمارے برعکس گریجویشن کے بعد طلبہ اپنی تعلیم کا خرچ خود اٹھاتے ہیں اور ان کے والدین اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بینک طلبہ کو پڑھنے کے لیے سودی قرض دیتے ہیں اور اس کے لیے مختلف پیکجز متعارف کروائے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اور مائیں اپنا زیور بیچ کر اپنی اولاد کو پڑھاتی ہیں۔

کریسج نے اپنے والد سے معاہدہ کیا کہ وہ اسے بزنس کالج میں داخلہ دلوا دے۔ وہ 21 سال کی عمر تک جو بھی کمائے گا، وہ اپنے والد کو دے گا۔ اس کا باپ اس پر رضامند ہو گیا اور اسے ایڈمیشن فیس دے دی۔ کریسج نے اس معاہدے کے بعد ایک بزنس کالج Eastman Business نیو یارک میں داخلہ لیا۔ کریسج نے پڑھائی کے ساتھ اپنا ذریعۂ معاش تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اسے ایک اسکول Gowers میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

جب یہ 22 ماہ کے بعد گھر لوٹا، جتنی اس نے رقم جمع کی تھی وہ سب اپنے والد کو دے دی۔ اس کے بعد یہ ایک اسٹور پر کلرک کے طور پر نوکری کرنے لگا۔ کریسج اپنا بزنس کرنا چاہتا تھا، اس لیے ابھی سے اس کے لیے عملی اقدامات شروع کر دیے تھے۔ اسٹور پر کام کرتے ہوئے اس نے بزنس کی باریکیاں اور پیچیدگیاں سمجھنے لگا اور اس کے ساتھ کچھ پیسے بھی مل جاتے تھے۔ پھر اس نے کچھ عرصے کے لیے ایک شہد کمپنی میں شہد کی مکھیوں کے نگران کے طور بھی نوکری کی، لیکن جلد ہی اسے خیر باد کہہ دیا، کیونکہ یہ اس کے مستقبل کے حوالے سے مفید اور کارآمد نہ تھی۔ کریسج کے مطابق شہد کی مکھیوں سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ سخت محنت میں عظمت ہے۔

کریسج نے 1889ء میں ایک ہارڈویئر اسٹور پر اپنی چوتھی نوکری کرنے لگا۔ یہی اس کی زندگی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ یہاں پر کام کرتے ہوئے اس نے مشاہدہ کیا کہ جب گاہکوں کو ادھار پر چیز مل رہی ہو تو وہ بغیر ضرورت زیادہ چیزیں خریدتے ہیں۔ اس سے ان کی مالی حیثیت کمزور ہو جاتی ہے اور دکان دار کو بروقت پیسے ادا نہیں کرپاتے، جس سے کاروبار بیٹھ جاتا ہے۔ جب کئی سالوں بعد اس نے اپنا بزنس شروع کیا تو اس قرض کی وبا کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ ہمیشہ نقد ہی چیز فروخت کی۔ ابتدا میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی گاہک اس کی دکان کا رخ نہ کرتا، لیکن یہ اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا، کیونکہ ادھار چھوٹے بزنس کے سمِ قاتل ہے۔

ہارڈویئر اسٹور پر کام کرتے ہوئے کریسج نے مختلف چیزوں سے واقفیت حاصل کی۔ دکان کی صفائی ستھرائی، اشیا کی ترتیب و تزئین، عمدہ کسٹمر سروس، گاہکوں کا خیال اور ان کا مسکرا کر استقبال کرنا وغیرہ ایسی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے گاہک آپ کے پاس آتا ہے۔ کریسج نے لگن اور سیکھنے کی نیت سے کام کیا۔ منیجر نے متأثر ہو کر اسے کمپنی کا سیلز مین بنا دیا۔ اب یہ مختلف شہروں میں مختلف دکانداروں کے پاس جا کر ان کو پروڈکٹ خریدنے پر آمادہ کرتا۔ سیلزمینی سے اس کی کاروباری صلاحیتیں مزید نکھر آئیں۔

دورانِ ملازمت کریسج تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتا رہا اور 1897 ء میں اس کے پاس 8 ہزار ڈالر جمع ہو چکے تھے۔ اب یہ اپنا بزنس کرنا چاہتا تھا۔ یہ فرینک وول ورتھ کے اسٹور سے متاثر ہوا، جہاں 5 اور 10 سینٹ کی اشیا ملتی تھیں۔ اس نے بھی جان ’’McCrony‘‘ کے ساتھ پارٹنرشپ قائم کی اور 5 اور 10 سینٹ کی اشیا والے اسٹور دو شہروں Memphis اور ڈیٹروئٹ میں کھولے۔ دو سال میں یہ تنِ تنہا ان اسٹوروں کا مالک بن گیا۔ یہ بزنس بہت کامیاب رہا، کیونکہ کم قیمت کی اشیا گاہک بآسانی خرید سکتا تھا۔ کریسج اپنے اسٹورز کی نگرانی خود کرتا۔ اس نے اپنے اسٹور میں ہر وہ خوبی اور خصوصیت پیدا کی، جو اس دورانِ ملازمت سیکھی اور نوٹ کی تھی۔

1912ء میں اس کا بزنس پھیلتے پھیلتے امریکا بھر میں 85 اسٹوروں تک جا پہنچا اور ان کی سالانہ سیل ایک کروڑ ڈالرز تک ہونے لگی۔ پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے کچھ مشکل حالات آئے، لیکن کریسج نے ان کا مقابلہ کیا اور سرخرو ہوا۔ کریسج پہلے کم قیمت والی اشیا فروخت کرتا تھا۔ بزنس کے بڑھنے سے یہ پھر زیادہ قیمت والی اشیا بھی فروخت کرنے لگا۔ اس کے ساتھ اشیا کی ورائٹی میں تبدیلی لانا شروع کی اور کامیابی کا سفر بھی جاری رہا۔ آج اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد اڑھائی لاکھ ہے۔

کریسج ایک طرف تو کفایت شعاری کرتے کرتے بخل اور کنجوسی تک جا پہنچا،حتی کہ اس کی دو بیویوں نے اسی باعث طلاق لے لی، جبکہ دوسری جانب بزنس میں اس کی سخاوت کے چرچے تھے۔ اس نے اپنی کمپنی میں یہ اصول بنایا کہ ملازمین کی بیماری پر رخصت اور اس دن کی اجرت بھی دی جائے گی۔ ملازمین کی پنشن بھی جاری کی۔ اس کے علاوہ ملازمین کو چھٹی وغیرہ کے ایام کی بھی تنخواہ دیتا۔ کریسج نے رفاہ عامہ کے لیے کریسج فاؤنڈیشن بھی بنایا۔